دنیا پہ نظر خود سے بے خبر

ہم ایسے غافل رہے کہ ہمارا شمارافغانستان اورنائیجریا سمیت دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیوکا مرض موجود ہے

zahedahina@gmail.com

نئے سال کا آغاز ہوچکا۔ مبارکبادیں گائی گئیں، ایک دوسرے کو تحفے دیے گئے اور نئی منزلوں کو چھولینے کی آرزوئیں کی گئیں۔ اس وقت گلزار کی ایک نظم یاد آئی جس میں غالب کا ایک مصرعہ انھوں نے موتی کی طرح ٹانک دیا ہے:

''ہم کو غالب نے یوں دعا دی تھی
'تم سلامت رہو ہزار برس'
یہ برس تو بس دنوں میں گیا''

ہم اگر اپنے شب و روز کا حساب کریں تو یہ مصرعہ ہم پر کتنا صادق آتا ہے۔ سچ پوچھئے تو ہمارے تمام برس یوں ہی دنوں میں بیت گئے۔ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ گئے دنوں میں دنیا اتنی تیزی سے بدلی ہے کہ جو اس پر نظر نہ رکھیں، ان کی سمجھ میں ہی کچھ نہیں آتا۔ ایک وہ دنیا تھی جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم، اس کے بعد جاری رہنے والی سرد جنگ کی دنیا تھی۔ اس دو قطبی دنیا کی اپنی نیرنگیاں تھیں، لیکن جب یہ دنیا ختم ہوئی تو امریکا خود کو دنیا کا مالک و مختار سمجھ بیٹھا ، اس سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے یہ نہیں محسوس کیا کہ دنیا بدل رہی ہے اور دنیا کے کئی ملک بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ اس بدلی ہوئی دنیاکا ایک مظہر امریکا اور ہندوستان کے درمیان وہ تنازعہ ہے جو ایک ہندوستانی خاتون سفارتکار کے حوالے سے جاری ہے۔ خاتون سفارتکار کو امریکی پولیس نے ویزا فراڈ کیس میں گرفتار کیا اور وہی سلوک روا رکھا جو امریکا میں گرفتار ہونے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس بارے میںیوں تو بہت سے بیانات سامنے آئے لیکن چشم کشا بیان ہندوستانی وزیر کمل ناتھ کا تھا۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کو اپنے اس رویے پر معافی مانگنی پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا یہ سمجھ لے کہ اب وقت بدل چکا ہے، دنیا بدل چکی ہے اور ہندوستان وہ پرانا ہندوستان نہیں رہا۔ امریکی ردعمل یہ تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، ہم نے ہندوستانی سفارتکار کے ساتھ امتیازی سلوک ہر گز نہیں کیا۔ ان دو ملکوں کا یہ جھگڑا تو طے ہوجائے گا لیکن ہم پاکستانیوں کے لیے اس حوالے سے غورو فکر کے کئی پہلو ہیں۔

کمل ناتھ کا یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اب وہ وقت گزر چکا جب دنیا کے بیشتر ملکوں کو امریکی امداد اور دوستانہ دست گیری کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب یہ امریکا کی بھی ضرورت ہے کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں سے اپنے معاملات کو سرپرستانہ نہیں دوستانہ رکھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی معیشت سست روی کا شکار ہے جس سے نجات کے لیے اسے ہندوستان جیسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کے ساتھ مل جل کر کام کرناہوگا۔ امریکا ہندوستان کے 50کروڑ صارفین کی وسیع منڈی کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں امریکی جواب پر بھی غور کرنا چاہیے جس میں ہندوستان اور ساری دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اس کی معیشت یقیناً مسائل کا شکار ہے۔ تاہم، اب بھی دنیا کی کوئی اور معیشت اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ یہی دیکھئے کہ چین کی جی ڈی پی امریکی جی ڈی پی کا نصف بھی نہیں ۔ چین موجودہ رفتار سے ترقی کرتا رہے تب بھی اسے امریکا کا ہمسر ہونے میں آدھی صدی لگے گی۔ امریکیوں کا پیغام یہ ہے کہ دنیا صرف اس کے لیے ہی نہیں، دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے بھی بدل گئی ہے۔


اگر امریکیوں کو دوسرے ملکوں کی منڈیوں کی ضرورت ہے تو چین، ہندوستان اور جاپان کی معیشت بھی امریکی صارفین، سرمائے اور ٹیکنالوجی کے بغیر ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہندوستانی سفارتکار کی گرفتاری کا معاملہ آخرکار پیالی کا طوفان ثابت ہوگا کیونکہ دونوں محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ادھر ہندوستان سمیت ہم جیسے ملکوں کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ اب تمام عالمی معاہدوں میں حقوق انسانی کے تحفظ اور غیر امتیازی سلوک کو یقینی بنانے کی شرائط شامل ہوتی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کارکنوں اور گھریلو ملازمین سے غیرانسانی سلوک اور ہتک آمیز رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔ کم معاوضے اور زیادہ کام والا طرز عمل 21 ویں صدی میں ناقابل قبول ہوگا۔ ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کو صارفین کی ضرورت ہے، اس لیے آج کے 'کمی کمین' کل کے معزز صارف ہوں گے اور ان کا احترام سب پر لازم ہوگا۔ امریکا کو اس واقعے سے یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے مختلف ملکوں پر اس کا معاشی انحصار روز افزوں ہے، اس لیے پرانے حاکمانہ رویے بھی اب برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ چین بھی اس سے اپنی شرائط منوائے گا، ہندوستان بھی ناراضگی کااظہار کرے گا، افغانستان کے صدر کرزئی بھی سودے بازی کریں گے اور پاکستان بھی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرے گا۔

موجودہ حکومت خود کو 21 ویں صدی کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ضرور کررہی ہے۔ لیکن ہماری حکومتوں نے گزشتہ 65 برسوں کے دوران عوام میں خود ساختہ برتری کا جو رجحان راسخ کیا ہے، اسے چشم زدن میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے اندر یہ سوچ جڑ پکڑ چکی ہے کہ عالمی اور علاقائی معاملات میں ہمارا موقف ہمیشہ درست ہوتا ہے جب کہ ساری دنیا غلطی پر ہوتی ہے۔ اب سامنے کی یہی بات لے لیں کہ ہماری سرحدیںجن چار ملکوں سے ملتی ہیں ان سب کی یہ دیرینہ شکایت ہے کہ ہمارے علاقے سے شدت پسند ان کے ملکوں میں در اندازی کرتے ہیں چین اور ایران ہمارے دوست ملکوں میں ہیں لیکن اس حوالے سے ان کی اور ہندوستان و افغانستان کی شکایتیں یکساں ہیں۔ کیا یہ بات غور طلب نہیں کہ ان چاروں کو ہمارے سوا کسی سے کوئی گلہ نہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات جب کشیدگی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے تب بھی ایران نے امریکا پر افغانستان کے راستے مداخلت کا الزام نہیں لگایا ۔ اسی طرح چین جوہندوستان سے سرحدی تنازعہ رکھتا ہے اس کی طرف سے ہندوستان پر در اندازی کا الزام نہیں لگایا جاتا ہے۔ ہمیں سوچنا توچاہیے کہ آخر جہاد ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے ہمارے چار پڑوسی اور کئی دوسرے ملک بھی ہم سے شاکی کیوں ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے بیٹھے بٹھائے بنگلہ دیش کو اپنا مخالف کیوں بنا لیا جو ہم سے ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ ہم دشمن بنانے میںماہر ہیں اسی لیے ہم نے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے ایک قرار داد منظور کرائی اور بیٹھے بٹھائے اسے اپنا مخالف بنالیا۔ حکومت پاکستان کی وزارت خارجہ نے اگر اس بارے میں ایک معقول سرکاری موقف اختیار نہ کیا ہوتا تو شاید دونوں ملکوں کے سفیر حضرات اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاچکے ہوتے۔

ہم پریہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ 'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'۔ ہم نے خود کو مسلم امہ کا محافظ اور رہنما فرض کرلیا ہے اور اس 'درد جگر' نے ہمیںتباہ وبرباد کردیا ۔ ابھی کچھ برسوں پہلے کی بات ہے کہ ہم لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ پھر ہم سوویت یونین سے کفر کا نظام ختم کرنے کے مشن پر کمربستہ ہوگئے۔ طالبان کو افغانستان میں برسر اقتدار لانا ہمارا مقصد ہوگیا۔ اسی حوالے سے ہمیں انتہا پسند عالمی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کی میزبانی کا شوق ہوا۔ غرض ہمارے منصوبہ سازوں کی نظر چاروں طرف تھی۔لیکن انھوںنے اپنے کروڑوں عوام کی حالت زار پر ذرا بھی غورنہیں کیا۔ ۔ اللہ اللہ۔ ہم دنیا کو راہ راست دکھانے کے مشن پر تھے اور اپنے گھر کی طرف نگاہ بھر کر نہ دیکھا کہ ایک خوشحال اور شاندار قوت نمو رکھنے والا ملک کس تیزی سے انتشار اور خلفشار کا شکار ہورہا ہے۔ ہمیں جنگیں لڑنے کا شوق ہمیشہ سے رہا۔ 65 برس کی مدت میں 4 چھوٹی بڑی جنگیں، جبر الٹر اور کارگل ایڈونچر۔ دہشت گردی کے عفریت کو ہم سرخوشی کے عالم میں اپنی سرحدوں کے اندر کھینچ لائے۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران چالیس سے پچاس ہزار شہریوں اور فوجیوں کی شہادتیں، ان گنت بستیوں کی تباہی، لاکھوں لوگوں کی اپنے گھروں اور اپنے ذریعۂ روزگار سے محرومی اور ملکی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہمارا مقدر ہوا۔

دنیا پر ہماری نظر رہی لیکن اپنے گھر سے ہم ایسے غافل رہے کہ آج ہمارا شمار افغانستان اور نائیجریا سمیت دنیا کے ان تینوں ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو کا مرض موجود ہے۔ پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکار اور ان کی حفاظت پر مامور سپاہی جرم بے گناہی میں قتل کردیے جاتے ہیں۔ یہ قاتل وہ ہیں جو خود کو اسلام کا محافظ خیال کرتے ہیں۔ہم نے اگر اپنے لوگوںکی تعلیم، صحت اور بہبود پر توجہ دی ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہرسال 5 برس تک کی عمر کے ساڑھے چار لاکھ معصوم بچے معمولی بیماریوں سے ختم ہوجاتے ، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بچے نمونیہ، خسرہ اور پولیو سے اس لیے ہلاک ہوجاتے ہیں کہ ہمارے پاس انھیں حفاظتی ٹیکے لگانے اور دوائیں پلانے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ رقم۔

ہمارے لیے نئے سال کا پیغام یہی ہے کہ دنیا پر نظر رکھنے اور خود سے بے خبر رہنے کا مہلک رویہ جتنی جلد تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
Load Next Story