سینیٹ الیکشن جمہوریت کا استحکام
انتخابات سے سیاست میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
انتخابات سے سیاست میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ (فوٹو: فائل)
MOSCOW:
سینیٹ وفاق پاکستان کی علامت ہے، اس میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمایندگی حاصل ہے۔ گزشتہ روز آدھی خالی نشستوں پر نئے اراکین کا انتخاب اِس لحاظ سے ایک انتہائی خوش آیند اقدام ہے کہ اس سے مُلک میں جمہوری عمل آگے بڑھا ہے اور جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔
پوری قوم اس عمل کی کامیاب تکمیل پر مبارک باد کی مستحق ہے، کیونکہ اس سے عوام کی سیاسی بیداری، میڈیا کی فرض شناسی اور سیاسی پارٹیوں کی بالغ نظری عیاں ہوتی ہے۔
سینیٹ انتخابات میں اصل مقابلہ حکومت اور اپوزیشن اتحادکے درمیان اسلام آباد کی نشست پر تھا ،جہاں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دیدی۔ یوسف رضا گیلانی نے 169ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کو 164ووٹ ملے، 7ووٹ مسترد ہوئے، اپوزیشن نے اپنے159 ووٹوں کے ساتھ 10ووٹ اضافی حاصل کیے۔
اِن انتخابات سے سیاست میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ اب سینیٹ میں تحریک انصاف26 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے، پیپلزپارٹی دوسری، مسلم لیگ ن تیسری جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی چوتھے نمبر پر ہے۔ سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان بڑا مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات کے بعد اپوزیشن اتحاد اور حکومت کے درمیان سیاسی بیان بازی کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ، فریقین ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی عائد کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا مقصد اپوزیشن کی پیسے کی سیاست کو بے نقاب کرنا ہے۔ اقتدار عزیز ہوتا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاتا، وزیر اعظم کا عہدہ اہم نہیں نظام کی تبدیلی میرا مشن ہے جب کہ اپوزیشن کی جانب سے بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ ملک میں سیاسی بساط بچھ چکی ہے ، حکومت اور پی ڈی ایم اپنی ، اپنی چالیں چل رہے ہیں ،یہ کھیل ابھی جاری ہے ، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ، کس کی جیت ہوگی اور کس کی ہار ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
درحقیقت پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں بحث اور مشاورت کا بنیادی جمہوری اصول ہی ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈر عمومی طور پر سیاسی اور اقتدار کی مصلحتوں کے تحت فیصلے کرتے ہیں جن کے لیے مشاورت اور بحث کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس غیر جمہوری رویے کی وجہ سے سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں، سیاسی اور جمہوری نظام مستحکم نہیں ہو پاتا۔ سیاستدان سیاسی فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔ یوں پارلیمنٹ کی خراب کارکردگی کے باوجود سیاستدان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادست ادارہ ہونا چاہیے.
وہ آج تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکے کہ بالادستی ہمیشہ کارکردگی سے ملتی ہے، پارلیمنٹ کو عوام کا اعتماد ہی حاصل نہ ہو اور پارلیمانی سیاسی ادارے بازیچہ اطفال بن کر رہ جائیں تو پارلیمنٹ کا وقار اور بالادستی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات اس سیاسی موڑ پر ہوئے ہیں، جب پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے بارے میں جہاں سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہو اور جمہوری روایات کمزور ہوں اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یادش بخیر!1946کے انتخابات میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ صوبائی انتخابات کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے مداخلت کریں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخابات میں کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا مگر قائداعظم نے صوبائی پارلیمانی بورڈ کے کام میں مداخلت سے انکار کردیا کیونکہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط ان کو اجازت نہیں دیتے تھے۔
قائد اعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو جواب دیا کہ اگر ان کو صوبائی بورڈ کے فیصلے سے اختلاف ہو تو ان کے امیدوار مرکزی پارلیمانی بورڈ میں اپیل کر سکتے ہیں جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔تاریخ کا ایک واقعہ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری اصولوں سے انحراف کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے ، گزشتہ روز ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اگر جمہوری اصول پر عمل کیا جاتا تو تحریک انصاف کے لیڈروں کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
سینیٹ پاکستان میں وفاقی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔جمہوری و پارلیمانی روایات کے فروغ اور استحکام میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے تاہم ایک، دو عشروں سے سینیٹ کے انتخابات کے موقعے پر مبینہ طور پر پیسے کی سیاست، بے جا اثر و رسوخ کا استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہ صرف اس باوقار ایوان کے حقیقی چہرے کو مسخ کرتا ہے بلکہ اس کی تابناک جمہوری روایات اور تاریخی کردار کو بھی دھندلا دیتا ہے۔
دو ایوان پر مشتمل پارلیمانی نظام میں جمہوری تسلسل کے حوالے سے اس ایوان کو یہ منفرد اہمیت حاصل ہے کہ یہ ادارہ کبھی تحلیل نہیں ہوتا بلکہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے، ہر تین سال کے بعد اس کے نصف ارکان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ صدر مملکت کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پاکستان کی رگوں میں شامل ہے۔ سینیٹ کا کردار مزید بڑھانے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، سینیٹ کو مالیاتی اور قومی اسمبلی کی طرح اختیارات ملنے چاہئیں،غریب عوام کو اگر یہ احساس دلا دیا جائے کہ یہ آئین ان کا ہے تو کوئی طالع آزما آئین کو روند نہیں سکے گا۔
سینیٹ کا جو کردار ہمیں نظر آنا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آتا۔ ہمیں ان اسباب کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے مقاصد حاصل کیوں نہیں کر سکے، آج بھی غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ یہ شاید سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کی بڑی ناکامی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی نہیں بنا سکے کہ کوئی آئین پر شب خون نہیں مارے گا، جب تک جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، فلاحی ریاست کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔جمہوریت کے سوا کوئی نظام عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ معاشرے کی تلخ حقیقتوں پر غور کرنا چاہیے اور مستقبل میں ان سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
موجودہ سینیٹ الیکشن کا واضح پیغام ہے کہ وفاق اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب ملک میں جمہوریت رہے گی۔ ملک کو ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ تمام شہری بھی برابر ہو جائیں۔ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم ہے،لاکھوں بچوں کو تعلیم کے لیے بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں جب کہ چند لاکھ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ تمام شہریوں کو ترقی کے مساوی مواقع ملیں۔
آئین کے تحت ریاست تعلیم' صحت اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے لیکن ہمارے اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی دولت کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ کوئی ملک عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سہارے ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ طریقے سے تقسیم کیے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے،قانون کی حکمرانی قائم ہوگی تو ملک ترقی کرے گا۔
حرف آخر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی خدمت میں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سال ہا سال کے آمرانہ ادوار میں عوام دُشمن او رجمہوریت کے مخالف عناصر اتنی صلاحیت کے مالک ہیں کہ جمہوریت پر کاری ضرب لگاسکتے ہیں،صرف موقعہ ملنے کی دیر ہے۔ معاشرے کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں اُن کے ہمدرد موجود ہیں۔
اُن کے پاس وسائل بھی ہیں جنھیں استعمال میں لا کر وہ جمہوری قوتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کر سکتے ہیں۔اِس لیے سیاسی قائدین، سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُن کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور اُن کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے، جن حلقوں نے آمریتوں کا ساتھ دیا ہے اور فوائد اٹھائے ہیں، و ہ جمہوری نظام کا استحکام ہضم نہیں کر سکتے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت دوستوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے دشمن بھی موجود ہیں لیکن اگر سینیٹ اورقومی اسمبلی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں گے تو جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
سینیٹ وفاق پاکستان کی علامت ہے، اس میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمایندگی حاصل ہے۔ گزشتہ روز آدھی خالی نشستوں پر نئے اراکین کا انتخاب اِس لحاظ سے ایک انتہائی خوش آیند اقدام ہے کہ اس سے مُلک میں جمہوری عمل آگے بڑھا ہے اور جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔
پوری قوم اس عمل کی کامیاب تکمیل پر مبارک باد کی مستحق ہے، کیونکہ اس سے عوام کی سیاسی بیداری، میڈیا کی فرض شناسی اور سیاسی پارٹیوں کی بالغ نظری عیاں ہوتی ہے۔
سینیٹ انتخابات میں اصل مقابلہ حکومت اور اپوزیشن اتحادکے درمیان اسلام آباد کی نشست پر تھا ،جہاں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دیدی۔ یوسف رضا گیلانی نے 169ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کو 164ووٹ ملے، 7ووٹ مسترد ہوئے، اپوزیشن نے اپنے159 ووٹوں کے ساتھ 10ووٹ اضافی حاصل کیے۔
اِن انتخابات سے سیاست میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ اب سینیٹ میں تحریک انصاف26 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے، پیپلزپارٹی دوسری، مسلم لیگ ن تیسری جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی چوتھے نمبر پر ہے۔ سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان بڑا مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات کے بعد اپوزیشن اتحاد اور حکومت کے درمیان سیاسی بیان بازی کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ، فریقین ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی عائد کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا مقصد اپوزیشن کی پیسے کی سیاست کو بے نقاب کرنا ہے۔ اقتدار عزیز ہوتا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاتا، وزیر اعظم کا عہدہ اہم نہیں نظام کی تبدیلی میرا مشن ہے جب کہ اپوزیشن کی جانب سے بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ ملک میں سیاسی بساط بچھ چکی ہے ، حکومت اور پی ڈی ایم اپنی ، اپنی چالیں چل رہے ہیں ،یہ کھیل ابھی جاری ہے ، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ، کس کی جیت ہوگی اور کس کی ہار ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
درحقیقت پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں بحث اور مشاورت کا بنیادی جمہوری اصول ہی ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈر عمومی طور پر سیاسی اور اقتدار کی مصلحتوں کے تحت فیصلے کرتے ہیں جن کے لیے مشاورت اور بحث کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس غیر جمہوری رویے کی وجہ سے سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں، سیاسی اور جمہوری نظام مستحکم نہیں ہو پاتا۔ سیاستدان سیاسی فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔ یوں پارلیمنٹ کی خراب کارکردگی کے باوجود سیاستدان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادست ادارہ ہونا چاہیے.
وہ آج تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکے کہ بالادستی ہمیشہ کارکردگی سے ملتی ہے، پارلیمنٹ کو عوام کا اعتماد ہی حاصل نہ ہو اور پارلیمانی سیاسی ادارے بازیچہ اطفال بن کر رہ جائیں تو پارلیمنٹ کا وقار اور بالادستی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات اس سیاسی موڑ پر ہوئے ہیں، جب پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے بارے میں جہاں سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہو اور جمہوری روایات کمزور ہوں اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یادش بخیر!1946کے انتخابات میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ صوبائی انتخابات کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے مداخلت کریں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخابات میں کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا مگر قائداعظم نے صوبائی پارلیمانی بورڈ کے کام میں مداخلت سے انکار کردیا کیونکہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط ان کو اجازت نہیں دیتے تھے۔
قائد اعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو جواب دیا کہ اگر ان کو صوبائی بورڈ کے فیصلے سے اختلاف ہو تو ان کے امیدوار مرکزی پارلیمانی بورڈ میں اپیل کر سکتے ہیں جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔تاریخ کا ایک واقعہ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری اصولوں سے انحراف کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے ، گزشتہ روز ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اگر جمہوری اصول پر عمل کیا جاتا تو تحریک انصاف کے لیڈروں کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
سینیٹ پاکستان میں وفاقی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔جمہوری و پارلیمانی روایات کے فروغ اور استحکام میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے تاہم ایک، دو عشروں سے سینیٹ کے انتخابات کے موقعے پر مبینہ طور پر پیسے کی سیاست، بے جا اثر و رسوخ کا استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہ صرف اس باوقار ایوان کے حقیقی چہرے کو مسخ کرتا ہے بلکہ اس کی تابناک جمہوری روایات اور تاریخی کردار کو بھی دھندلا دیتا ہے۔
دو ایوان پر مشتمل پارلیمانی نظام میں جمہوری تسلسل کے حوالے سے اس ایوان کو یہ منفرد اہمیت حاصل ہے کہ یہ ادارہ کبھی تحلیل نہیں ہوتا بلکہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے، ہر تین سال کے بعد اس کے نصف ارکان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ صدر مملکت کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پاکستان کی رگوں میں شامل ہے۔ سینیٹ کا کردار مزید بڑھانے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، سینیٹ کو مالیاتی اور قومی اسمبلی کی طرح اختیارات ملنے چاہئیں،غریب عوام کو اگر یہ احساس دلا دیا جائے کہ یہ آئین ان کا ہے تو کوئی طالع آزما آئین کو روند نہیں سکے گا۔
سینیٹ کا جو کردار ہمیں نظر آنا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آتا۔ ہمیں ان اسباب کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے مقاصد حاصل کیوں نہیں کر سکے، آج بھی غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ یہ شاید سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کی بڑی ناکامی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی نہیں بنا سکے کہ کوئی آئین پر شب خون نہیں مارے گا، جب تک جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، فلاحی ریاست کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔جمہوریت کے سوا کوئی نظام عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ معاشرے کی تلخ حقیقتوں پر غور کرنا چاہیے اور مستقبل میں ان سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
موجودہ سینیٹ الیکشن کا واضح پیغام ہے کہ وفاق اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب ملک میں جمہوریت رہے گی۔ ملک کو ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ تمام شہری بھی برابر ہو جائیں۔ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم ہے،لاکھوں بچوں کو تعلیم کے لیے بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں جب کہ چند لاکھ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ تمام شہریوں کو ترقی کے مساوی مواقع ملیں۔
آئین کے تحت ریاست تعلیم' صحت اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے لیکن ہمارے اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی دولت کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ کوئی ملک عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سہارے ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ طریقے سے تقسیم کیے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے،قانون کی حکمرانی قائم ہوگی تو ملک ترقی کرے گا۔
حرف آخر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی خدمت میں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سال ہا سال کے آمرانہ ادوار میں عوام دُشمن او رجمہوریت کے مخالف عناصر اتنی صلاحیت کے مالک ہیں کہ جمہوریت پر کاری ضرب لگاسکتے ہیں،صرف موقعہ ملنے کی دیر ہے۔ معاشرے کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں اُن کے ہمدرد موجود ہیں۔
اُن کے پاس وسائل بھی ہیں جنھیں استعمال میں لا کر وہ جمہوری قوتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کر سکتے ہیں۔اِس لیے سیاسی قائدین، سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُن کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور اُن کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے، جن حلقوں نے آمریتوں کا ساتھ دیا ہے اور فوائد اٹھائے ہیں، و ہ جمہوری نظام کا استحکام ہضم نہیں کر سکتے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت دوستوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے دشمن بھی موجود ہیں لیکن اگر سینیٹ اورقومی اسمبلی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں گے تو جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔