کورونا کا معاشی گرداب

اہل وطن کو کورونا ، معیشت ، سیاست اور حکومت و اپوزیشن کی چھیڑخانی نے کسی سیاسی ساحل سے آشنا رہنے کی مہلت نہیں دی۔

اہل وطن کو کورونا ، معیشت ، سیاست اور حکومت و اپوزیشن کی چھیڑخانی نے کسی سیاسی ساحل سے آشنا رہنے کی مہلت نہیں دی۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کے حملوں سے دنیا واقعی بوکھلاہٹ کا شکار ہے، کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ وائرس سے نمٹنے کی کون سی ڈیڈ لائن پر یقین کیا جائے۔

ماضی کی کورونا لہر پر ہم نے اپنے جس میکنزم پر بھرپور اعتماد کیا اور دنیا سے خوب تعریفیں سمیٹ لیں مگر اس بار ہمیں کون سے ممالک داد کے قابل سمجھیں گے اور عالمی ادارہ صحت کے ماہرین ہمیں کورونا سے نمٹنے میں کن القابات وخطابات سے نوازیں گے،کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ، وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا خود کورونا کے مستقبل پر فیصلہ کر نہیں پائی ہے۔

کہیں وہ زندگی کے داخلی ، علاقائی یا عالمی صحت معمولات کے انفرا اسٹرکچر کوکنٹرول کرنے میں بریک تھرو نہیں کرسکی ہے ، دوسری طرف عالمی لہرکورونا مخالف احتجاجی مظاہروں کی ہے ، برازیل اور جرمنی میں مظاہرے ہو رہے ہیں ، لوگ بیروزگاری سے تنگ آگئے ،کچھ ممالک اس الجھن کا شکار ہیں کہ وباء کی حقیقت ، سماجی استقامت اور ہرڈ امیونٹی کے افسانہ کی دم کوکہاں سے پکڑیں کہ عوام کی صحتیابی میں '' پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ '' کا بہانہ مل جائے۔

اہل وطن کو کورونا ، معیشت ، سیاست اور حکومت و اپوزیشن کی چھیڑخانی نے کسی سیاسی ساحل سے آشنا رہنے کی مہلت نہیں دی ، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کورونا نے جو تعلیمی بحران پیدا کیا ہے اس کے اثرات ابھی آنے ہیں ، قوم کے نونہال مادر علمی کے علمی کلچر سے کٹ چکے ، ان کی تعلیمی امنگیں خاک بسر ہو چکیں ، بچوں کو اسکول وین ، بستوں اور چھٹی کی گھنٹی بھی یاد نہیں رہی ، آن لائن کا سراب تعلیمی خواب چکنا چورکرگیا ہے۔

مگرکسے پروا ، اسکول و جامعات سمیت کھیل کے میدان ، اسکولز، ہوٹلز، شادی ہالز، پارک اور مارکیٹیں ایک بار بھر ٹوٹل لاک ڈاؤن کے خطرات سے لرزہ براندام ہیں ، جرمنی سمیت یورپی یونین کے متعدد غیر ممالک میں کورونا مخالف عوامی مظاہروں کی لہر چل پڑی ہے۔

ویکسین کی خریداری کا ایشو بین البراعظمی ایجنڈے پر آگیا ہے، جعلی ویکسین کی خبر جنیوا اور برسلز سے آئی تھی،کوئی حکومتی سسٹم اس سوال کا حتمی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ کورونا سے انسانی سائنس و ٹیکنالوجی کے دست و بازوکب اس موذی وبا کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے، سارے انسانی وسائل ، سوچ ، انتظامات اور عملی تدابیر کووڈ انیس کے آگے بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں ، اس وقت جو ریاستی نظام اور حکومتی امکان و بساط میں ہے، وہ کیا جا رہا ہے۔ جن کوکوئی ہائپ پیدا کرنے کا ہنر نہیں آتا وہ یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ ماسک نہ لگائیں شاید منچلوں نے اب اس میں بھی کچھ ملانہ دیا ہو۔

ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک ہی روز میں مزید 41 افراد جان کی بازی ہارگئے۔ 3ہزار 726 نئے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ پنجاب کے 6 اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران مارکیٹس بند رکھنے کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ اب تک کورونا سے 13 ہزار 850 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔مصدقہ مریضوں کی تعداد 6 لاکھ 27840 ہوگئی ہے۔ پانچ لاکھ 82 ہزار 225 مریض شفایاب ہو چکے ہیں۔

اس وقت فعال مریض31 ہزار 765 ہیں۔ اب تک سندھ میں دو لاکھ63 ہزار 289، پنجاب میں ایک لاکھ97 ہزار 177 کورونا مریض ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 80 ہزار 37، اسلام آباد میں51 ہزار 414، بلوچستان 19342، آزاد کشمیر 11609 اور گلگت بلتستان میں 4972 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئرکے مطابق پنجاب میں 2090 نئے کورونا کیسز ، کل متاثرین 1 لاکھ 97 ہزار 177ہو گئے ہیں۔ لاہور میں1236، راولپنڈی220، اور فیصل آباد میں مزید 81 افراد وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں۔ کورونا سے مزید 30 ہلاکتیں ، کل اموات 5972 ہوچکی ہیں۔

ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ صوبے میں اتوارکوکورونا سے کوئی موت نہیں ہوئی۔ 232 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ کورونا کی بگڑتی صورتحال پر وفاقی وزیر اسد عمرکی جانب سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا خصوصی اجلاس پیر کو ہوا۔ گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ این سی او سی اور وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ہے۔ عوام کی جانب سے کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنا تشویشناک ہے۔


انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کی بات غلط ہے لیکن پابندیوں میں مزید اضافہ ناگزیر ہے اور حتمی فیصلے کیے جائیں گے۔ حکومت اندازوں اور خدشات و اقدامات کی نتیجہ خیزی کے پل سے گزر رہی ہے ، مصلحت کا شکار وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اثرات و مضمرات میں خود کو ملوث کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ عوام کی صحت کے مسائل سے کسی کو دلچسپی نہیں،کوئی میکنزم عمودی و افقی پالیسی سے براہ راست ہم آہنگ نہیں، اپوزیشن اور حکومت کورونا سے نمٹنے کی الگ الگ پیج پر نبرد آزما ہیں ، کورونا کے لیے جس قومی پالیسی اور بریک تھرو کی ضرورت ہے اس کے لیے ایک غیر معمولی اتفاق رائے، وژن، عملی اور عوام دوست پالیسی کی ضرورت ہے۔

سیاست کو تناؤ،کشیدگی اور تصادم سے بچانا ناگزیر ہے لیکن سیاستدان اس سیاسی ناگزیریت کا جب ادراک کریں گے تب ہی ملک میں کورونا کی تیسری لہر سے نمٹنے کی قومی اسپرٹ پیدا ہو گی، انتشار ، انتقام، بے یقینی ، تذبذب اور برہمی کے ماحول میں صائب فیصلوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا، اس وقت حکومت کئی ہوشربا چیلنجز سے نمٹ رہی ہے، اس کے اعصاب شل ہوتے جاتے ہیں، قوم کورونا کی ایک کھلی اور واضح زمینی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

سنجیدہ حلقے سیاسی دلدل سے نکلنے کا کوئی تیر بہدف نسخہ پیش کرنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ملک میں سماجی افراط و تفریط اور سیاسی پولرائزیشن نے سوچ کی مرکزیت ختم کردی ہے ، کوئی سوچ مشترکہ مقاصد کے حصول پر متفق ہونے پر تیار نہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قوم نہیں رہی ہم افراد بن گئے ہیں ، قوم تقسیم اور منزل آشنا رہنما آپس میں لڑ رہے ہیں۔ سیاسی آدرش اور جمہوری نصب العین کی ضرورت ایک سوالیہ نشان؟

کس سے قوم اپنی محرومیوں کا گلہ کرے ؟ کہاں ہیں وہ ایثار پسند خادمان قوم جوکہیں کہ '' پلیز اپنے غم مجھے دے دو ''، عام آدمی کے پاس اس اندھیرے سے نکلنے کا کوئی جواب نہیں ، سفید پوش بزرگوں کو پریشان کن سوالات نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ صورتحال گنجلک ہے، مسائل کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے، معاملات اپنے محور سے ہٹ گئے ہیں۔

ایک بیان میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ این سی او سی میں تعلیمی ادارے کھلے رکھنے یا مزید بندش سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ تمام وزرائے تعلیم و صحت کا اجلاس 24 مارچ کو این سی او سی میں ہوگا ، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی سفارش پر وفاقی کابینہ نے روسی اور چینی کورونا ویکسین کی قیمتِ فروخت کی منظوری دیدی ہے۔ کابینہ نے روسی ویکسین اسپوٹنک فائیو کی دو خوراکوں کی قیمت فروخت 8 ہزار 449 روپے مقرر کی ہے۔ چینی ویکسین کنویڈشیا کے فی انجکشن کی قیمت 4 ہزار 225 روپے جب کہ دو خوراکوں کی قیمت 8 ہزار 500 روپے مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کورونا پھیلاؤ روکنے کے لیے سفری پابندیوں سے متعلق نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق کیٹیگری سی میں شامل ممالک کے مسافروں کی پاکستان آمد پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کے حامل شہری نائیکوپ اور پی او سی کارڈ ہولڈرز بھی وطن واپس نہیں آ سکیں گے۔ کیٹیگری اے مسافروں کے لیے کورونا ٹیسٹ کرانا لازمی نہیں۔ 23 مارچ سے 5 اپریل تک نوٹیفکیشن نافذ العمل رہے گا۔ ڈپٹی کمشنر کوٹلی آزاد کشمیر کے مطابق ضلع بھر میں لگنے والا لاک ڈاؤن نرم کر دیا گیا ہے۔ کلاس نہم، دہم اور کالج اور یونیورسٹی کلاسیں 22 مارچ سے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

منگل سے ضلع میں لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے گا۔ تاہم جمعتہ المبارک کو لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔ ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر جاری ہے ایسے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے کووِڈ 19 ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت کا فارمولا جاری کردیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ''ویکسین ڈریپ کے رجسٹریشن بورڈ کی جانب سے ہنگامی استعمال کی اجازت دینے کے لیے منظور یا رجسٹرڈ کی جائے گی، ویکسین مارکیٹ میں فروخت یا تقسیم نہیں کی جانی چاہیے اور ویکسین کو نجی شعبے کے اسپتالوں اور اداروں میں لگایا جائے۔''

ملک میں توانائی بحران کا تسلسل بھی عوام کے لیے مالی بوجھ بنا ہوا ہے، ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینا ہوگی، اس اصول کی صداقت سے ہر شخص واقف ہے کہ بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ اخراجات سے لوگوں کے گھریلو بجٹ تباہ ہوچکے ، ہر چیز مہنگی ہے۔ اس وقت عوام مہنگائی کو حکومت کی عدم مقبولیت کے جواز میں سر فہرست قرار دیتے ہیں۔

دوسری جانب سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی ایل) نے رواں مالی سال میں ریونیو کی متوقع ضرورت (ای آر آر) کو پورا کرنے کے لیے یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں 220 فیصد تک اضافے کا مطالبہ کردیا۔ عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کرکب تک کراہتے رہیں گے۔ غربت اور مہنگائی کا کوئی صائب حل تو بھی پیش کریں۔
Load Next Story