اردو اور چند حقائق

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 10 جنوری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کیا آپ کو معلوم ہے کہ 1945 میں جب جاپان پر تاریخ کا بدترین وقت آیا اور اس کے شہنشاہ ہروہیٹو کو امریکی جنرل میک آرتھر کے سامنے لاچار انداز میں بیٹھ کر آیندہ کے لیے امریکا جاپان تعلقات کے معاملات طے کرنا پڑے تو ہروہیٹو نے واحد شرط کیا رکھی تھی؟ جی ہاں ہزیمت خوردہ شہنشاہ ہروہیٹو نے کہا تھا:

’’میرے نظام تعلیم اور جاپانی زبان کو نہ چھیڑنا‘‘۔

یہ انتہائی دانشمندانہ اور دوررس نتائج کا حامل فیصلہ تھا اور اس فیصلے کے ثمرات دیکھیے کہ کتنی جلد جاپان دنیا کا مضبوط ترین معیشت کا حامل ملک بن گیا۔ دانشمند قوم کے دانشمند رہنما ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں۔ قائداعظم بھی ہمارے دانش مند رہنما تھے، تبھی انھوں نے دو ٹوک انداز میں اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ اسی حوالے سے راقم نے اپنے گزشتہ سے قبل کے کالم میں قائداعظم اور اردو کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسے سرکاری زبان بنانے پر زور دیا تھا، جسے قارئین کی بڑی تعداد نے سراہا تھا تاہم ایک قاری نے مخالفت کرتے ہوئے کسی اخبار میں شایع ہونے والی تحریر بھی راقم کو دکھائی جس میں مختلف قسم کے دلائل اردو کو سرکاری زبان بنانے کے خلاف تھے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قارئین خصوصاً نوجوان کی خدمت میں چند ایک حقائق زبان کے حوالے سے مزید پیش کیے جائیں۔

چین 1949 میں آزاد ہوا تو وہاں بے شمار ایسے اسکول و کالج تھے جہاں انگریزی رائج تھی، ماؤزے تنگ نے آزادی کے ساتھ ہی اعلان کردیا کہ ذریعہ تعلیم بھی صرف چینی زبان ہوگا۔ چین کی ترقی آج ہمارے سامنے ہے۔ فرانس میں لفظ ’’برگر‘‘ جیسے الفاظ تک ادا کرنے پر پابندی ہے اور جو بھی الفاظ فرانسیسی زبان میں دستیاب ہوں ان کی جگہ انگریزی کا لفظ منتخب کیا جائے تو ایسے شخص پر جرمانہ عاید کردیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد ہی عبرانی زبان کو رائج کردیا گیا حالانکہ یہ قوم پوری دنیا میں تقریباً ڈھائی سو سال دربدر رہی۔ یونانی زبان کی جگہ لاطینی زبان نے لے لی مگر پھر بھی اہل یونان نے اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ زیادہ دور کیوں جائیے بھارت کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جہاں سنسکرت محض ہندو مذہب تک محدود ہوچکی تھی مگر آزادی ملتے ہی بھارت نے اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ ہم میں سے بہت سے لوگ امریکا کو اپنا آقا قرار دیتے ہیں لیکن دیکھیے کہ امریکا کے جنوب میں واقع میکسیکو نے بھی انگریزی کو نہیں اپنایا، مرکزی اور جنوبی امریکا کے تمام ممالک نے بھی انگریزی کے بجائے اپنی زبانوں میں ترقی کی۔

زبان کسی بھی قوم کے لیے نہ صرف ترقی کا باعث ہوتی ہے بلکہ کسی بھی قوم کے لیے موت اور زندگی کا معاملہ رکھتی ہے، اسی لیے مخالف قومیں اپنے دشمنوں کی زبانوں پر بھی حملہ کرنے سے نہیں چوکتیں۔ سابق بلغاریہ پر جب روس نے قبضہ کیا تو وہاں 15 لاکھ کے قریب مسلمان آباد تھے۔ کمیونسٹوں نے آتے ہی ان کی زبان پر پابندی لگا دی اور وہ بھی اس قدر سخت کہ بازاروں میں بول چال کے لیے بھی جرم قرار دے دیا گیا۔

اپنے وطن سے محبت کرنے والے رہنما زبانوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ فرانس کے جنرل ڈیگال کئی برسوں تک برطانیہ میں مقیم رہے لیکن ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں ہمیشہ فرانسیسی زبان میں ہی تقریر کی۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی زبان بولنے پر شرمندہ اور انگریزی زبان استعمال کرکے فخر کرتے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے مطابق بھی اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور اس کی خوبی و اہمیت قیام پاکستان سے قبل بھی مسلمہ تھی۔ آج یہ بات کی جاتی ہے کہ جدید علوم کا ساتھ دینا اردو کے بس کی بات نہیں۔ ذرا ماضی پر نظر ڈالیے۔ 1918 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں بطور ذریعہ تعلیم اس زبان کو اپنایا گیا اور تمام کلیات کی تعلیم اردو زبان میں دی گئی۔ 1938 میں آگرہ میڈیکل کالج میں ذریعہ تعلیم اردو اور انگریزی تھا۔ 1807 میں کلکتہ میڈیکل اسکول میں بھی ذریعہ تعلیم اردو اور انگریزی تھا۔ 1855 میں یونیورسٹی کالج لندن، 1859 میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور 1860 میں کیمبرج یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس شروع کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکہ وکٹوریہ اردو سے متاثر ہوکر اس زبان کو سیکھنے لگیں اور بعض مرتبہ وہ اپنی ڈائری بھی اردو میں لکھتی تھیں۔

بلاشبہ اردو زبان کے لیے ہمارے اسلاف بھی ہمیشہ متحرک رہے، اردو ہندی تنازعے کے علاوہ بھی اردو کے تحفظ کے لیے ہمارے اکابرین نے طویل جدوجہد کی۔ 1849 اور اس کے بعد بھی پنجاب میں جب بھی اردو کے خلاف مہم چلی یا جب ڈاکٹر بی سی چیٹرجی نے پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی زبان رائج کرنے کی بات کی تو ہمارے رہنماؤں نے سخت جواب دیا۔ ڈاکٹر چیٹرجی کے بیان پر آل انڈیا مسلم لیگ ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس بلایا گیا اور اس کے خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس اجلاس میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع اور دیگر نامور مسلمان شخصیات شامل تھیں۔ یہ تمام شخصیات بخوبی جانتی تھیں کہ اردو زبان ان کی قوم کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

اردو زبان کی اہمیت کو ہمیشہ علم و فکر کی شخصیات نے سمجھا اور اجاگر کیا۔ مولانا ظفر علی خان کے بھائی پروفیسر حمید احمد خان کے مطابق ’’میں نے انگریزی زبان کی تدریس و تحقیق میں عمر کا بڑا حصہ صرف کیا اور میری معاش بھی اسی سے وابستہ ہے لیکن سچ پوچھیں تو پاکستان میں جتنا جلد اردو کو ذریعہ تعلیم بنادیا جائے ہمارے لیے اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔

دانشمند افراد اردو زبان کو رائج کرنے کے نقصانات سے بھی خوب واقف ہیں اور اکثر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں مثلاً جسٹس ذکی الدین پال کا یہ کہنا کہ ’’طلبا کی اکثریت انگریزی میں فیل ہوجانے کے سبب ناکام قرار دے دی جاتی ہے جب کہ وہ دوسرے مضامین میں اچھے نمبر لے رہے ہوتے ہیں۔ آخر اس قتل عام کا کون ذمے دار ہے؟ یہ غلط پالیسی کا شاخسانہ ہے جس کی بنا پر اردو کو اپنا مقام نہیں دیا جارہا۔ جب تک ایک غیر ملکی زبان کو بالادستی حاصل ہے ہم ذہنی طور پر غلام ہی رہیں گے‘‘۔

مذکورہ بات لارڈ میکالے اور چارلس ترپولین کے کہے گئے ان جملوں سے مزید ثابت ہوجاتی ہے، لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ’’ہم ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو رنگ و خون سے تو ہندوستانی ہوگا مگر مزاج، رائے، فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز‘‘۔ اس نے ایسا غلط کیا کہا ، ہماری پوری نوکر شاہی اس کے اس عزم اور پالیسی کی آئین دار ہے۔ کالا انگریز کی اصطلاح کا کیا مطلب ہے۔ جب کہ چارلس نے کہا تھا کہ ’’جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہمیں غاصب اور دشمن کے بجائے دوست سمجھے گا، یہ لوگ ہندوستانی کم اور انگریز زیادہ ہوں گے، ہمیں اپنا محسن سمجھیں گے اور ہماری مشابہت کو اپنی معراج تصور کریں گے، اسلام سخت مادے کا بنا ہوا ہے تاہم وہ نوجوان جس نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہو اپنے آبائی طریقے پر شریعت کی تعلیم حاصل کرنے والے سے قطعی مختلف بن جاتا ہے‘‘۔

آئیے! ہم غور کریں، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

راقم نے گزشتہ اور موجودہ کالم کے لیے کتابچہ ’’تحریک نفاذ اردو پاکستان‘‘ سے بیشتر معلومات حاصل کی ہیں جس کے روح رواں ڈاکٹر سید مبین اختر ہیں۔ یہ بزرگ اور ان کی جماعت اردو کے لیے بے انتہا مشکل کام کر رہا ہے۔ دعا ہے کہ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور اس ملک میں اردو بطور سرکاری زبان رائج ہو۔ اﷲ تعالیٰ ان سب کو جزا عطا کرے (آمین!)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔