موٹیویشنل اسپیکنگ ،حقیقت اور افسانہ ( تیسرا حصہ)

عارف انیس ملک  ہفتہ 17 اپريل 2021
arifanees@gmail.com

[email protected]

تقریباً ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری اربوں ڈالرزمالیت کی انڈسٹری بن چکی ہے۔

ڈیل کارنیگی، نپولین ہل سے لے کر بہت سے نامور موٹیویشنل اسپیکرز اس بزنس کو امریکا سمیت پوری دنیا میں فروغ دیتے رہے،جن میں جم رون، زگ زیگلر، سٹیون کووے، جیک کین فیلڈ، برائین ٹریسی، دیپک چوپڑا، ٹونی بیوزان اور لیزبراؤن سرفہرست رہے۔موٹیویشنل اسپیکنگ کے حوالے سے ڈھیر ساری کتابیں بھی لکھی گئیں، جن کا اردو سمیت دنیا بھر میں 80 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

ایک موثر پروفیشنل اسپیکر ہونے کے لیے وسیع مطالعہ اور سوچ کی گہرائی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر سامعین کا جوش و جذبہ ابھار کر انھیں کسی کام کرنے کی طرف مائل کر لینا موٹیویشنل اسپیکنگ تصور کیا جاتا ہے۔

تقریر بذات خود ایک ٹول ہے جس سے انسانی جذبات کو اچھے اور برے دونوں قسم کے کاموں کے لیے ابھارا جا سکتا ہے۔ ہر وہ شخص موثرا سپیکر ہے جو اپنے سامعین کی اندر کی دنیا میں ایسی تبدیلی لا سکے جس کا اثر کچھ دیر کے لیے باقی رہے، تو پھر چاہے وہ عالم دین ہو، اسکالر ہو، ٹرینر ہو یا کسی بزنس کا مالک، اپنی صلاحیت کی بنا پر ایک موٹیویشنل اسپیکر شمار کیا جائے گا۔

پاکستان میں ڈھونڈنے سے بھی 1980 کی دہائی کے آخر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کے پہلے چند قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ جدید طرز کی بزنس ٹریننگ اور پروفیشنل اسپیکنگ کے سب سے پہلے بیج میاں غنی مرحوم نے بوئے، جنھیں پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کے کچھ حلقوں میں ٹریننگ کا جناح بھی کہا جاتا ہے۔

میاں غنی پاکستان سوسائٹی فار ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ (PSTD) کے بانی بھی ہیں، جو اپنی طرز کا پہلا ادارہ تھا اور آج بھی ایک فعال ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بھی 1950 کی دہائی سے اس کار خیر میں مصروف ہے۔ میاں غنی کے ہم نواؤں میں ایک اور قابل ذکر نام عبدالواحد خان مرحوم کا ہے، جن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ سن 1984 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کوچ تھے۔

عبدالواحد نے بھی پرائیویٹ سیکٹر میں بحیثیت موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر کچھ عرصہ کام کیا، لیکن اس دور میں موٹیویشنل اسپیکنگ کا دائرہ اختیار ایک مخصوص طبقے تک محدود تھا اور زیادہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر تھی۔ فلپ ایس لال بھی پاکستان میں اس انڈسٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان ٹریننگ اور موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری کے لیے 1991 کا سال بہت اہمیت رکھتا ہے۔جب کامران رضوی برطانیہ میں بیس سال گزارنے کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر پاکستان واپس لوٹ آئے تو موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ انڈسٹری کا وہ باب شروع ہوا جس پر آج بھی تعمیراتی کام جاری ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب ٹریننگ اور ڈویلپمنٹ مخصوص محفلوں سے نکل کر عام ہونا شروع ہوئی۔ سن 1990 کی دہائی میں میڈیا  اور کانفرنسوں کا رواج شروع ہوا، اسکول، کالجز اور دیگر پلیٹ فارمز سے موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں فائز حسن سیال، عمر خان، مزار بیگ، نسیم ظفر اقبال، میکس بابری، رمیز اللہ والا مرحوم، ندیم چوہان مرحوم اور سرمد طارق مرحوم نے کئی  برسوں تک موٹیویشنل اسپیکنگ کے شعبے کو نکھارنے، عوام میں اس کی افادیت کی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کارپوریٹ سیکٹر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن نے 1995 میں ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں داخل ہونے کی غرض سے پاکستان میں اپنا پہلا دفتر کھولا جو دو سے تین برس تک پاکستان میں کام کرتا رہا۔ یہ ابھرتی ہوئی ٹریننگ انڈسٹری کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے اس اقدام سے متاثر ہو کر لمز اور ائی بی اے جیسے تعلیمی اداروں نے اپنے ایگزیکٹو پروگرام شروع کر دیے۔

1995میں ہی پاکستان کے پہلے ٹرینرز ریسورس گروپ کی بنیاد رکھی گئی جو موٹیویشنل اسپیکنگ کو ایک جامع پروفیشن کا درجہ دینے کی طرف اہم قدم تھا۔ اس کے بانیوں میں اظہراقبال میر مرحوم، عالم ہیلی پوک، جمیل جنجوعہ، عائشہ چوہدری، شیریں نقوی، سید نصرت علی اور کامران رضوی شامل تھے۔ گزشتہ 25 برسوں سے ہر مہینے کے آخری جمعرات والے دن ٹرینر ریسورس گروپ کی میٹنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ٹریننگ انڈسٹری کے لیے بہترین پریکٹسز کو طے کر کے دیگر ٹرینرز اور آرگنائزیشنز تک پہنچانا ہے۔

1990 کی دہائی میں ضیا محی الدین صاحب، جاوید جبار اور معین اختر مرحوم اپنے اپنے شعبے میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ معروف اسپیکرز بھی تصور کیے جاتے تھے، مگر وہ محفلیں زیادہ تر ثقافت، تاریخ، حقائق، کامیڈی اور مزاح کے گرد گھومتی تھیں۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے بلاشبہ اشفاق احمد کی خدمات مثالی ہیں۔ خان صاحب کمال کے ’’داستان گو‘‘ تھے اور لوک دانش کو جدید دنیا کے ساتھ ایسے سبق آموز طریقے سے لپیٹتے تھے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے تھے۔

اکیسویں صدی پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کے لیے نیا دور لے کر آئی، جب لوگ جوق دَر جوق ٹریننگ اور موٹیویشنل اسپیکنگ کو کیریئر کے طور پر اپنانے لگے۔ اس حوالے سے اسکول آف لیڈرشپ نے کلیدی کردار ادا کیا، جہاں سن 2002 میں پہلی مرتبہ لیڈرشپ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے ہر سال نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ ولی زاہد، قیصر عباس، فرہاد کرم علی، سہیل زندانی، عمیر جلیاوالہ، قاسم علی شاہ اور راقم الحروف جیسے اسپیکرز لے کر آئی۔

یہ رب کا خاص کرم ہے کہ مجھے پاکستان اور پاکستان سے باہر چالیس سے زائد ممالک میں برائن ٹریسی، ٹونی بیوزان، جیک کین فیلڈ، ٹونی رابنز، جان گرے، بل کلنٹن، لیز براؤن، برینڈن برشارڈ، رابن شرما، دیپک چوپڑا جیسے لیجنڈز کے ساتھ بولنے کا موقع ملا۔

قیصر عباس کی اپنی کامیابی کی کہانی سامعین کا دل موہ لینے کے لیے کافی ہے۔ ٹرین دی ٹرینرز پروگرام اور ایک کوچ کی حیثیت سے ولی زاہد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ میکس بابری، راحیلہ نوریجو، عامر قریشی، عندلیب عباس نے اپنے اپنے شعبوں میں لوہا منوایا۔ گزشتہ دس سالوں میں اگر کسی فرد واحد نے موٹیویشنل اسپیکنگ کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، تو وہ قاسم علی شاہ ہیں۔ موٹیویشنل اسپیکنگ کو مخصوص کمروں اور اداروں سے نکال کر ٹیکنالوجی کی مدد سے عام عوام تک پہنچایا۔

پہلی دفعہ لاکھوں پاکستانیوں نے براستہ موبائل پرسنل ڈیویلپمنٹ کی افادیت کو اپنی زندگی میں محسوس کیا۔ آج واٹس ایپ اور یوٹیوب کی مدد سے موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری نے دہائیوں کا سفر چند برسوں میں طے کر لیا۔ پاکستان بھر میں ہر سال اوسطاً تین سو سے زائد یوتھ کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔