بلاول اور عمران خان۔۔۔

ہم جب کسی سیاستدان کے موقف کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں تو سب سے پہلے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

KARACHI:
ہم جب کسی سیاستدان کے موقف کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں تو سب سے پہلے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ ہمارا معاشرہ نظریاتی حوالے سے کہاں کھڑا ہے، دوسرے عوام کے مسائل کی صورت حال کیا ہے؟ اگر ہم ان دو بنیادی مسائل کو نظر انداز کرکے کسی کے سیاسی موقف کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں تو ہماری حمایت اور مخالفت دانشورانہ معیار پر پوری اترتی ہے نہ منطقی ہوسکتی ہے۔ آج کل بلاول کی دو تقریروں پر زبردست بحث اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلاول نے جو اہم اور بامعنی بات کی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست کا تسلسل ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی بے شمار کوتاہیوں کے باوجود ہمیشہ لبرل سیاست کی ہے، بے نظیر کا قتل بھی اسی لبرل سیاست کا نتیجہ تھا۔

بلاول نے اسی سیاست کا اعادہ کرتے ہوئے انتہا پسندی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے جو ایک جرأت مندانہ موقف ہے کیونکہ دہشت گرد ہر اس شخص کو واجب القتل قرار دے رہے ہیں جو ان کے غیر منطقی اور انتہائی رجعت پسندانہ نظریات سے اختلاف کرتا ہے۔ دوسری بات بلاول نے بسنت کے حوالے سے کی ہے کہ وہ کراچی کے ساحل پر بسنت مناکر رجعت پسند طاقتوں کے احمقانہ موقف کو چیلنج کریں گے۔ واضح رہے کہ شدت پسند ہی نہیں بلکہ اعتدال پسند مذہبی رہنما بھی بسنت کی اس لیے سخت مخالفت کرتے ہیں کہ یہ ہندوؤں کا تہوار ہے۔ اسی حوالے سے بلکہ مذہبی تفریق کی نفی کرتے ہوئے بلاول نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کسی عیسائی کو وزیر اعظم بنتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ تینوں موقف بہ ظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ تینوں بیانات ایک ہی مسئلے کی مختلف کڑیاں ہیں اور وہ مسئلہ ہے مذہبی انتہا پسندی کی مزاحمت۔

پاکستانی معاشرہ 66 سالوں سے جس رجعت پسندی کا شکار ہے ،دہشت گردی کی سیاست نے اسے ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا ہے جہاں یا تو ہم مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہیں جو ملک اور عوام کے مستقبل کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے یا پھر ہم مذہبی انتہا پسندی کے حامی ہیں۔ ان دو راستوں کے علاوہ کوئی درمیان کا راستہ نہیں ہے۔ اگر بلاول کی تقاریر پر نظر ڈالیں تو یہ تقاریر ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کی پہلے سے جاری کوششوں کی حمایت اور رجعتی عناصر کی کھلی مخالفت ہی سمجھی جاسکتی ہیں۔

بلاول نے اپنی تقریر میں عمران خان کو بزدل خان کہا ہے۔ عمران خان کو بزدل خان کہنا یقیناً سیاسی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے لیکن اس حوالے سے بلاول پر تنقید کرنے والے غالباً یہ بھول گئے ہیں کہ عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران زرداری، نواز شریف، فضل الرحمن کو کس حقارت سے مخاطب کرتے رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کی داد پاتے رہے ہیں۔ چونکہ ہماری سیاست میں کوئی اخلاقیات نام کی چیز ہی نہیں ہے تو پھر اس حوالے سے کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا یا تو علم و آگہی کی کمی ہے یا پھر اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی نے نہ صرف اس ملک و قوم کے مستقبل کو مکمل تباہی کے کنارے پر کھڑا کردیا ہے بلکہ قوم ملک اور مذہب کو عالمی برادری کے سامنے اس قدر ذلیل و رسوا کردیا ہے کہ دنیا بھر کے عوام ہمیں قرون وسطیٰ کے باسی سمجھ رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلاول اور عمران خان انتہا پسندی کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں؟ عمران خان کو بزدل خان کہنا یقیناً بداخلاقی ہے لیکن جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے جس سیاست کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں وہاں کسی ایک سیاست کار کو بداخلاقی کا مرتکب قرار دینا غیر منطقی بھی ہے غیر اصولی بھی۔ اس تنقید میں وہ اصل مسئلہ نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے جس کا تعلق اس ملک کے مستقبل سے ہے۔ یعنی مذہبی انتہا پسندی اس عفریت کے خلاف اہل قلم اہل دانش ایک عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن بلاول چونکہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی سربراہی بھی کر رہے ہیں لہٰذا بلاول کی طرف سے مذہبی انتہا پسندی کی بے باکانہ مذمت کے عوام پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول کا تعلق ایک روایتی جاگیردار خاندان سے ہے اور عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے۔ جاگیردار طبقہ روایتی طور پر رجعت پسند ذہنیت کا مالک ہوتا ہے اور مڈل کلاس عموماً روشن خیال ہوتا ہے لیکن ان دونوں یعنی بلاول اور عمران خان کے کردار پر نظر ڈالیں تو یہ عجیب صورت حال سامنے آتی ہے کہ بلاول رجعت پسندی (جس کی ایک انتہائی شکل مذہبی انتہا پسندی ہے) کی مخالفت کر رہا ہے اور عمران خان مذہبی انتہا پسندی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ حمایت کر رہے ہیں۔

بلاول اس بلائے عظیم کے خاتمے کی بات کر رہا ہے اور عمران خان ان مذہبی انتہا پسندوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلاول ان علم دشمنوں کو سیاست سے الگ کرکے دیکھ رہا ہے عمران خان کے جانثار رجعت پسندوں کو پاکستان کی وزارت تعلیم دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان نے اگرچہ ''ایک نئے پاکستان'' کے نعرے سے اپنی پہچان کروائی لیکن عملاً وہ ان طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں جو پاکستان کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں اور سیاسی اتحاد بھی ان جماعتوں سے بنا رہے ہیں جو ''نئے پاکستان'' کے سخت مخالف ہیں۔ ان کے قول و عمل کا یہ تضاد کیا ان کے سیاسی مفادات کا مظہر ہے یا ان کی قبائلی ذہنیت کا؟

ہم نے ابتدا میں دو حوالوں سے سیاستدانوں کے موقف سیاستدانوں کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کو منطقی کہا تھا، ایک یہ کہ سیاستدانوں کا موقف معاشرے کو نظریاتی ترقی کی طرف لے جاتا ہے یا نظریاتی تنزل کی طرف دوسرے عوامی مسائل کے حوالے سے سیاستدانوں کا موقف یا پالیسیاں کیا ہیں؟ ہم نے یہاں بلاول اور عمران خان کے نظریاتی موقف نظریاتی سیاست کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا ہے، اب عوام کے مسائل کے حوالے سے ان دونوں سیاست کاروں کا جائزہ لیں گے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی اپنے ترقی پسندانہ معاشی اور سیاسی نعروں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوئی، مزدور کسان راجے اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سیاسی بھی تھے اور معاشی بھی۔ 1970 کے انتخابات میں عوام نے رجعت پسند جماعتوں کو مسترد کرکے بھٹو کو ووٹ ان کے ان ہی نعروں کی وجہ سے دیے۔

قیام پاکستان کے بعد سے معاشی ناانصافیوں کا شکار عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ بھٹو اپنے مزدور کسان راج کے نعرے پر عمل کرکے پاکستان کے عوام کو ''عوام کی حکومت عوام کے لیے'' والی جمہوریت کی طرف لے جائیں گے اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر عمل کرکے انھیں معاشی انصاف دلائیں گے لیکن ہوا یہ کہ بھٹو بہت جلد اس اشرافیہ کی گرفت میں آگئے جو مزدور کسان راج اور روٹی کپڑا مکان کی دشمن تھی، عوام سے اس وعدہ خلافی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1979 میں وہ ان شعبدہ باز سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گئے جو بھٹو سے زیادہ خطرناک تھے، بھٹو کی وعدہ خلافی کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی کی طرف بڑھتا اور چڑھتا دیکھتے رہے اور خاموش رہے۔ اس المیے کا تسلسل یہ رہا کہ بے نظیر دو بار اور زرداری پانچ سال برسر اقتدار رہنے کے باوجود نہ عوام کو مزدور کسان راج کی طرف لے گئے نہ انھیں روٹی کپڑا اور مکان دلا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 کے انتخابات میں عوام نے انھیں پیچھے دھکیل دیا۔ بلاول نے نظریاتی محاذ پر تو پیش رفت دکھائی ہے لیکن کیا وہ اقتصادی محاذ پر بھی پیش رفت کی پالیسیاں اپنا سکتے ہیں جو محض وعدوں پر نہیں بلکہ عمل پر منحصر ہوں؟ یہی وہ سوال ہے جس پر بلاول کی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار ہے۔

عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اچھے امکانات کو انھوں نے اپنی نظریاتی دو عملی کی وجہ کھو دیا۔ عوام کی عمران خان سے یہ توقع تھی کہ وہ اس خلا کو پر کریں گے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی باریوں کی ناکامی سے پیدا ہوا تھا لیکن عمران خان نے اپنی نظریاتی کجروی کی وجہ یہ موقع گنوا دیا۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ عوام کی حمایت اور اپنے کارکنوں کے اعتماد دونوں کا موصوف نے نقصان کرلیا۔ اور یہ بات اس لیے غیر متوقع نہیں کہ عمران خان نے اصولی سیاست کے بجائے مفاداتی سیاست کا راستہ اپنایا۔ اور عوام میڈیا کی آزادی سے اس قدر باشعور ہو رہے ہیں کہ اب شاید وہ مزید دھوکے نہیں کھائیں گے، بلاول ہوں یا عمران انھیں اگر عوام کی حمایت حاصل کرنا ہے تو انھیں 66 سالوں پر پھیلے Status Quo کو توڑنا پڑے گا، اب خالی خولی نعروں سے کام نہیں چلے گا۔ ورنہ بھارت کی طرح یہاں بھی کوئی ''عام آدمی پارٹی'' ابھر کر سامنے آئے گی اور اس کا سربراہ ''اسلام آباد کا حکمران'' بن جائے گا یا پھر مشرق وسطیٰ کی تبدیلیوں کا رخ کریں گے۔
Load Next Story