مسئلہ فلسطین حمایت کے عزم کا اعادہ

درحقیقت اسرائیلی حملے عالمی اصولوں اور معاہدوں کے منافی ہیں

درحقیقت اسرائیلی حملے عالمی اصولوں اور معاہدوں کے منافی ہیں

اسرائیل نے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ،جس سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد140ہوگئی، جس میں39 بچے بھی شامل ہیں، جب کہ1000سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی میں ہی گنجان آباد مہاجر کیمپ الشطی پر ایک اور کارروائی کرتے ہوئے ایک ہی فلسطینی خاندان کے کم ازکم 10 افراد کو شہید کر دیا جن میں سے آٹھ بچے ہیں جب کہ اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں الجزیرہ، امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) اور دیگر میڈیا کے دفاتر کو بمباری کر کے تباہ کردیا ہے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

درحقیقت اسرائیلی حملے عالمی اصولوں اور معاہدوں کے منافی ہیں،اسرائیل طاقت ورممالک کی حمایت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کے خلاف محاذ کھولے رکھتا ہے اور اس وقت معصوم ونہتے فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون رہاہے۔دنیا میں اس وقت جتنے بھی مقبوضہ علاقے ہیں ان میں سرفہرست دو ایسے ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی وقت بڑی جنگ ہوسکتی ہے۔ پہلا فلسطین اور دوسرا کشمیر۔ اس وقت جو کچھ ارض مقدس پر ہورہا ہے وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ر یاستی دہشت گردی کا بد ترین اظہار ہے جس کا شکار معصوم شہری بن رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ساری صورتحال میں اصل مسئلہ حماس، الفتح یا اور کوئی فلسطینی پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ معصوم شہری ہیں ،جن کا خون ارزاں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی طرف سے مہلک فضائی حملوں کی شدید مذمت کی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت متعدد شہری جاں بحق ہوگئے ، اس موقعے پر انھوں نے فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی جائز جدوجہد کے لیے پاکستان کی مستقل حمایت کے عزم کا اعادہ بھی کیا ۔فلسطین کے صدر محمودعباس نے پاکستان کی حمایت کا خیرمقدم کیا ۔

بد قسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے تو عالمی برادری دہرے معیارات اختیار کرتی ہے اورایک نرالی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف جدید میزائلوں سے رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیل کی جانب پھینکے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے نہ کوئی اسرائیلی ہلاک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی۔انسانی حقوق کے تمام ادارے اسرائیلی جارحیت کے چشم دید گواہ ہیں ، لیکن انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہیں ۔ اس سب کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لیے منظور کی گئی ہیں وہ سب کی سب قراردادیں کسی الماری کی زینت بنا دی گئی ہیں،یہ کوئی نہیں جانتا۔عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا بندوبست کر کے ارض مقدس کے باسیوں سے ان کی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔

دوسری جانب ترجمان وائٹ ہاؤس جین ساکی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہم نے اسرائیلیوں کو براہ راست آگاہ کیا ہے کہ صحافیوں اور آزاد میڈیا کی سلامتی کو یقینی بنانا اولین ذمے داری ہے۔ غزہ کی میڈیا بلڈنگ پر اسرائیلی حملے سے اسے مایوسی ہوئی ہے اور سخت دھچکا لگا ہے۔

اس بیان کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ بات صرف بیانات کی حد تک محدود ہے ،حالانکہ آزادی اظہار رائے اور آزاد میڈیا کا علمبردار امریکا ، اسرائیل کو ظلم کرنے سے روک سکتا ہے، امریکا سپر پاور ہے لیکن وہ جارح وظالم اسرائیل کی پشت پناہی کررہا ہے ۔فلسطینی ایوان صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک پائیدار امن نہیں ہو سکتا۔ اردن کے دارالحکومت عمان، برلن میں ہزاروں افراد نے ریلیاں نکالیں۔ شکاگو، مانچسٹر، ارجنٹینا، انقرہ، استنبول، بنگلہ دیش، لبنان، کوسوو، اسکاٹ لینڈ اور دیگر ملکوں میں بھی احتجاج ہوا، بعض مقامات پر اسرائیلی پرچم نذرآتش کیے گئے۔ فرانس نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے۔

فلسطین کے مسئلہ پر 1948 اور 1967 میں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔گزشتہ سات دہائیوں سے جب بھی اسرائیلی حکومت داخلی مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو وہ اپنے مسائل غزہ یا جنوبی لبنان میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے عرب ممالک کی بد قسمتی کہیے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد عرب ممالک کے حصے بخرے کیے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری کی راہیں ہموار ہوگئیں۔ چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی میں رہنے والے اس خطے کو 1917 میں برطانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا ۔1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔


برطانیہ نے اس علاقے سے 1948 میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا،اسرائیل کے قیام کے پیچھے برطانیہ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل میں جب یہودیوں نے دیکھا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو انھوں نے اتحادیوں کو خصوصاً برطانیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ کیا ۔

برطانیہ کی پہلے ہی نظر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر تھی سو اس نے جاتے جاتے ایک ایسی ریاست مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر قائم کر دی جو آج تک فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین تو کیا پورے عرب کو بھی آج تک حقیقی آزادی نصیب نہ ہوسکی، وہ اقتصادی طور پر اسرائیل و امریکا کے ہی غلام ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت پر ان صہیونیوں کا قبضہ ہے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے 8 دسمبر،1947 کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کو خط ارسال کر کے یہ مطالبہ کیا کہ ''فلسطینی ریاست کو تقسیم نہ کیا جائے ورنہ تاریخ اقوامِ عالَم کو فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے کھلے جرائم پہ کبھی معاف نہیں کرے گی۔'' قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ فلسطین کی حمایت میں 1933سے 1946 تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔

پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی۔23مارچ، 1940 کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقعے پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی۔دوسری جانب شاعر مشرق علامہ اقبال کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر1931 میں وہ عالم اسلام کے نمایندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن میں ہندی مسلمانوں کی آزادی کے مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر بیت المقدس جا پہنچے تھے۔

اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصورنے مسلسل بے چین رکھا ۔اقبال کے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ در حقیقت یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے ،وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کی عالمگیر جدوجہد اور قائدانہ فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظور کرکے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور عالمی بد امنی کے خطرے کے پیشِ نظر اسرائیل کے اقوامِ متحدہ کا رُکن بننے کی مخالفت کی ۔

پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر اس صیہونی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم کی اِس غیر مبہم، واضح اور بایقین بصیرت کے پیشِ نظر فلسطینی قربانیوں سے عوامِ پاکستان کا تعلق پختہ تر و مضبوط تر ہے اور قائدِ اعظم کی ہوئی تربیت اور دی ہوئی رہنمائی کی بدولت کسی حکمران کو آج تک یہ جرات نہیں ہو سکی کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کا جرم کر سکے کیونکہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز طریقہ سے قابض طاقت ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنا ظلم کو حق تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا ناجائز طریقہ سے غاصب و قابض طاقت کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرنا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی موت کے پروانے پہ دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ اِس طرح کے بین الاقوامی مسائل کے پیشِ نظر قائد اعظم عالَم اسلام کی مسلم ریاستوں کا ایک بلاک قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوںکے عزائم کا مقابلہ اتحاد کے ساتھ کرسکیں۔

پاکستان کی جانب سے مسئلہ فلسطین کی حمایت مسلمانوں کے قبلہ اوّل کی پکار پر لبیک کہنے کے علاوہ حق و انصاف کے اصولوں پر ہی مبنی رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے خارجہ پالیسی کی بنیاد قائد اعظم نے برطانوی حکومت ہند کے دور میں رکھی تھی اور اِسی پالیسی کو قیام پاکستان کے بعد عملاً اختیار کیا گیا۔ بہرحال، یہ اَمر باعث اطمینان ہے کہ سیاسی و سفارتی دباؤ کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اعلان کیا ہے، وہ دن دور نہیں جب فلسطین اور کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا ، اور تاریخی ، انقلابی جدوجہد ،شہیدوں کے لہو کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوگی ۔
Load Next Story