اقوام عالم فلسطینیوں پر جاری مظالم رکوائیں
پاکستان مسلمان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔
پاکستان مسلمان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ فوٹو:فائل
QUETTA:
فلسطین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تشدد فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جاری لڑائی پورے خطے کو ناقابل کنٹرول بحران میں مبتلا کرسکتی ہے،جب کہ دوسری جانب اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ حملے بند کرے۔
اجلاس میں فلسطین کے حق میں اوراسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ القدس الشریف اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت مسلم امہ کے لیے ریڈ لائن کی سی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد نے فون کر کے ان سے فلسطین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اورمظلوم فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے حملے بند کرانے کا مطالبہ کیاہے ۔
فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر اقوام عالم کا واضح اور دوٹوک موقف سامنے آیا کہ اسرائیل فوری طور پر اپنی جارحیت کی روش کو ترک کردے، لیکن اب آنیوالے دنوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل عالمی موقف کو خاطر میں لاتا ہے یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا۔
وہاں مسلمانوں کو لا وارث سمجھ کر مارا جا رہا ہے، بچے یتیم ہو رہے ہیں، خواتین کی گردنوں کو دبوچا جا رہا ہے، بزرگوں پر ظلم کیا جا رہا ہے، آخر دنیا کے طاقتور ممالک کیسے انھیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی خواتین، بچوں اور بزرگوں پر ظلم ہوتا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے، دراصل اسرائیل عرب دنیا میں حاصل ہونے والی سپیس کو ''گریٹر اسرائیل'' کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ آج کی دنیا میں ذاتی مفادات اور مشترکہ سیاسی و معاشی دشمنوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنائے جا رہے ہیں۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی کسی قرارداد پر جمہوریت، سچائی اور حق کی بنیاد پر کوئی عمل ہوتا بھی ہے یا نہیں؟جواب تو نفی میں آتا ہے۔ اس تناظر میں ان سطور کے ذریعے عرض کرنا ہے کہ مسلمان ممالک کو بھی ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کر کے بیان بازی، ٹوئیٹر، زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کر کے اپنے آپ کو معاشی اور فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ اپنا اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کا حق بزور طاقت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔
فلسطین میں اسرائیل کے ایما پر پیدا ہونے والا حالیہ تنازعہ اپریل کے وسط سے ہونیوالے چھوٹے بڑے واقعات سے شروع ہو کر اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سات مئی کو اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرتے فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں درجنوں نمازی زخمی ہو گئے۔ اگلے دن، جب وہاں شب قدر تھی، اسرائیل نے ناکہ بندی کر کے مسلمانوں کا داخلہ مسجد الاقصیٰ میں بند کر دیا۔ اس سے گزشتہ روز بھی نمازیوں پر حملے جاری رہے۔ دس مئی کو اسرائیلی فورسز نے ایک اور حملہ کیا اور اس مقدس مسجد کے بڑے داخلی دروازے پرقابض ہو گئے۔
یہ وہ دن تھا جب اسرائیلی1967 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں ''یوم یروشلم'' مناتے ہیں۔ حماس اور اس کی ساتھی تنظیموں نے اس صورتحال پر احتجاج کیا اور اسرائیل کو الٹی میٹم دیا کہ وہ مسجد الاقصیٰ اور کچھ دیگر مسلم علاقوں سے اپنا ناجائز تسلط فوری طور پر ختم کرے۔ جب اسرائیلی جارحیت جاری رہی تو حماس نے اسرائیلی ٹھکانوں پر راکٹوں سے حملہ کر دیا اور جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف غزہ میں فضائی حملے شروع کر دیے۔ اب اطلاعات آ رہی ہیںکہ اسرائیل اب حماس کے خلاف بڑے زمینی حملے کی بھی تیاری کر رہا ہے۔
تاریخ کے تناظر میں مسئلہ فلسطین کو دیکھیں تو اس تنازعے کی جڑیں 1799 میں ملتی ہیں جب نپولین نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے الگ وطن کا قیام ہوناچاہیے، عملی طور پر فلسطین میں پہلی ''صیہونی آبادکاری''1882 میں ہوئی، جس کے تین برس بعد باقاعدہ ''صیہونی تحریک'' کا آغاز ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ 1896 سے 1948کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صیہونی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا۔
نتیجے میںان نو آبادکار یہودیوں اور وہاں کے باسی مسلمانوں (فلسطینیوں) میں اختلافات اور لڑائی بڑھتی گئی۔ بالآخر اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا ''امن منصوبہ'' پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی اور کہا گیا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس رہے گا کیونکہ اس شہر کی اہمیت تینوں بڑے مذاہب (اسلام، یہودیت اور عیسائی) کے لیے بہت زیادہ ہے، لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد صیہونی طاقتوں نے اس مقدس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔
بعد ازاں 1967 میں اس شہرکے مشرقی حصے پر بھی(شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔یعنی مظلوم فلسطینیوں پر عالمی طاقتوں اور اسرائیلی مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے ،اقوام متحدہ کے فورم پر اس وقت مسئلہ فلسطین اور کشمیر دو ایسے حل طلب تنازعات ہیں ،جو عالمی ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالم اسرائیل اور بھارت کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ، دونوں ممالک فلسطینیوں اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں مصروف ہیں ، کشمیری بھی ایک برس سے زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کا عذاب سہہ رہے ہیں ،عالمی ضمیر خاموش ہے۔
او آئی سی کے اجلاس میں ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا عالمی برادری فوری مداخلت کرتے ہوئے غزہ میں شہری آبادی کے خلاف اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور غزہ میں جاری بمباری کو فی الفور روکا جائے۔ امت مسلمہ کو فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور ان کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
پاکستان مسلمان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ فلسطینیوں کے کاز کے حامی بڑے مسلمان راہنما اس راہ سے ہٹ گئے ہیں جب کہ بہت سے ملک اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے مگر پاکستان اپنے اس متعین راستے سے ہٹا نہیں جس کا تعین بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ جن حالات کا سامنا فلسطینی عوام کر رہے ہیں بالکل وہی حالات کشمیری عوام کو درپیش ہیں، دونوں کا کیس بھی ایک جیسا ہے۔
اسرائیل اور بھارت جیسے کرداروں میں بھی کوئی عملی اور نظری فرق نہیں، اسرائیل اور بھارت کا ایجنڈا بھی ایک ہے۔ اسرائیل ''گریٹر اسرائیل'' تو بھارت ''مہابھارت'' کے تصورات کے تعاقب میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ امریکا سمیت مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ پاکستان کشمیری عوام کی حمایت سے دست کش ہو کر انھیں بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ پاکستان کے پیچھے ہٹتے ہی کشمیری عوام بھارت کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہی کشمیر پر پاکستان کا کیس اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتا ہے اور اسے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر دباؤ میں رہتی ہیں مگر یہاں اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کا خودکار نظام بھی کام کرتا ہے اور عوامی دباؤ بھی ایک حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے،اس لیے کوئی بھی حکومت اس راہ پر پیش قدمی نہیں کر سکتی ہے،کیونکہ فلسطینیوں کے نصب العین کی حمایت اپنے قیام سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک واضح اور نمایاں اصول رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ، ان کی شدید خواہش ہے کہ مسلم امہ ایک پلیٹ فارم پر متحدہوکر مظلوم فلسطینیوں کی آواز بن جائے ۔
اس وقت دنیا کے پیشتر ممالک کی جانب سے فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے اور امن کی بحالی کے لیے امریکا کی جانب سے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیاجارہا ہے، سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور منصفانہ پوزیشن اختیار کرے۔
انھوں نے مزید کہا امریکا سلامتی کونسل کی طرف سے مضبوط اقدام کے لیے کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ایک ملک کی رکاوٹوں کی وجہ سے سلامتی کونسل یک زبان بولنے کے قابل نہیں ہے۔ چین دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کرتا ہے اور فلسطین اور اسرائیل کو اپنی میزبانی میں مذاکرات کی دعوت دیتا ہے۔ چین کا بیان کردہ موقف صائب ہے اس پر غور کرکے جنگ بندی کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔
حرف آخر اقوام عالم کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس وقت اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کا بے رحمانہ اور بلاامتیاز استعمال، عالمی انسانی و بنیادی حقوق، عالمی قوانین اور اصولوں کی سنگین اور کھلی خلاف ورزی ہے، اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف منظم جرائم کی مذمت کے لیے صرف زبانی جمع خرچ ناکافی ہے، حالیہ اسرائیلی جارحیت کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اس سے آنکھیں چرائی جاسکتی ہیں،لہٰذا اقوام عالم پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر بزور طاقت اور قوت اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے عملی طور پر روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔
فلسطین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تشدد فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جاری لڑائی پورے خطے کو ناقابل کنٹرول بحران میں مبتلا کرسکتی ہے،جب کہ دوسری جانب اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ حملے بند کرے۔
اجلاس میں فلسطین کے حق میں اوراسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ القدس الشریف اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت مسلم امہ کے لیے ریڈ لائن کی سی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد نے فون کر کے ان سے فلسطین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اورمظلوم فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے حملے بند کرانے کا مطالبہ کیاہے ۔
فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر اقوام عالم کا واضح اور دوٹوک موقف سامنے آیا کہ اسرائیل فوری طور پر اپنی جارحیت کی روش کو ترک کردے، لیکن اب آنیوالے دنوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل عالمی موقف کو خاطر میں لاتا ہے یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا۔
وہاں مسلمانوں کو لا وارث سمجھ کر مارا جا رہا ہے، بچے یتیم ہو رہے ہیں، خواتین کی گردنوں کو دبوچا جا رہا ہے، بزرگوں پر ظلم کیا جا رہا ہے، آخر دنیا کے طاقتور ممالک کیسے انھیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی خواتین، بچوں اور بزرگوں پر ظلم ہوتا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے، دراصل اسرائیل عرب دنیا میں حاصل ہونے والی سپیس کو ''گریٹر اسرائیل'' کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ آج کی دنیا میں ذاتی مفادات اور مشترکہ سیاسی و معاشی دشمنوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنائے جا رہے ہیں۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی کسی قرارداد پر جمہوریت، سچائی اور حق کی بنیاد پر کوئی عمل ہوتا بھی ہے یا نہیں؟جواب تو نفی میں آتا ہے۔ اس تناظر میں ان سطور کے ذریعے عرض کرنا ہے کہ مسلمان ممالک کو بھی ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کر کے بیان بازی، ٹوئیٹر، زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کر کے اپنے آپ کو معاشی اور فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ اپنا اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کا حق بزور طاقت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔
فلسطین میں اسرائیل کے ایما پر پیدا ہونے والا حالیہ تنازعہ اپریل کے وسط سے ہونیوالے چھوٹے بڑے واقعات سے شروع ہو کر اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سات مئی کو اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرتے فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں درجنوں نمازی زخمی ہو گئے۔ اگلے دن، جب وہاں شب قدر تھی، اسرائیل نے ناکہ بندی کر کے مسلمانوں کا داخلہ مسجد الاقصیٰ میں بند کر دیا۔ اس سے گزشتہ روز بھی نمازیوں پر حملے جاری رہے۔ دس مئی کو اسرائیلی فورسز نے ایک اور حملہ کیا اور اس مقدس مسجد کے بڑے داخلی دروازے پرقابض ہو گئے۔
یہ وہ دن تھا جب اسرائیلی1967 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں ''یوم یروشلم'' مناتے ہیں۔ حماس اور اس کی ساتھی تنظیموں نے اس صورتحال پر احتجاج کیا اور اسرائیل کو الٹی میٹم دیا کہ وہ مسجد الاقصیٰ اور کچھ دیگر مسلم علاقوں سے اپنا ناجائز تسلط فوری طور پر ختم کرے۔ جب اسرائیلی جارحیت جاری رہی تو حماس نے اسرائیلی ٹھکانوں پر راکٹوں سے حملہ کر دیا اور جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف غزہ میں فضائی حملے شروع کر دیے۔ اب اطلاعات آ رہی ہیںکہ اسرائیل اب حماس کے خلاف بڑے زمینی حملے کی بھی تیاری کر رہا ہے۔
تاریخ کے تناظر میں مسئلہ فلسطین کو دیکھیں تو اس تنازعے کی جڑیں 1799 میں ملتی ہیں جب نپولین نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے الگ وطن کا قیام ہوناچاہیے، عملی طور پر فلسطین میں پہلی ''صیہونی آبادکاری''1882 میں ہوئی، جس کے تین برس بعد باقاعدہ ''صیہونی تحریک'' کا آغاز ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ 1896 سے 1948کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صیہونی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا۔
نتیجے میںان نو آبادکار یہودیوں اور وہاں کے باسی مسلمانوں (فلسطینیوں) میں اختلافات اور لڑائی بڑھتی گئی۔ بالآخر اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا ''امن منصوبہ'' پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی اور کہا گیا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس رہے گا کیونکہ اس شہر کی اہمیت تینوں بڑے مذاہب (اسلام، یہودیت اور عیسائی) کے لیے بہت زیادہ ہے، لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد صیہونی طاقتوں نے اس مقدس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔
بعد ازاں 1967 میں اس شہرکے مشرقی حصے پر بھی(شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔یعنی مظلوم فلسطینیوں پر عالمی طاقتوں اور اسرائیلی مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے ،اقوام متحدہ کے فورم پر اس وقت مسئلہ فلسطین اور کشمیر دو ایسے حل طلب تنازعات ہیں ،جو عالمی ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالم اسرائیل اور بھارت کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ، دونوں ممالک فلسطینیوں اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں مصروف ہیں ، کشمیری بھی ایک برس سے زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کا عذاب سہہ رہے ہیں ،عالمی ضمیر خاموش ہے۔
او آئی سی کے اجلاس میں ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا عالمی برادری فوری مداخلت کرتے ہوئے غزہ میں شہری آبادی کے خلاف اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور غزہ میں جاری بمباری کو فی الفور روکا جائے۔ امت مسلمہ کو فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور ان کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
پاکستان مسلمان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ فلسطینیوں کے کاز کے حامی بڑے مسلمان راہنما اس راہ سے ہٹ گئے ہیں جب کہ بہت سے ملک اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے مگر پاکستان اپنے اس متعین راستے سے ہٹا نہیں جس کا تعین بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ جن حالات کا سامنا فلسطینی عوام کر رہے ہیں بالکل وہی حالات کشمیری عوام کو درپیش ہیں، دونوں کا کیس بھی ایک جیسا ہے۔
اسرائیل اور بھارت جیسے کرداروں میں بھی کوئی عملی اور نظری فرق نہیں، اسرائیل اور بھارت کا ایجنڈا بھی ایک ہے۔ اسرائیل ''گریٹر اسرائیل'' تو بھارت ''مہابھارت'' کے تصورات کے تعاقب میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ امریکا سمیت مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ پاکستان کشمیری عوام کی حمایت سے دست کش ہو کر انھیں بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ پاکستان کے پیچھے ہٹتے ہی کشمیری عوام بھارت کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہی کشمیر پر پاکستان کا کیس اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتا ہے اور اسے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر دباؤ میں رہتی ہیں مگر یہاں اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کا خودکار نظام بھی کام کرتا ہے اور عوامی دباؤ بھی ایک حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے،اس لیے کوئی بھی حکومت اس راہ پر پیش قدمی نہیں کر سکتی ہے،کیونکہ فلسطینیوں کے نصب العین کی حمایت اپنے قیام سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک واضح اور نمایاں اصول رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ، ان کی شدید خواہش ہے کہ مسلم امہ ایک پلیٹ فارم پر متحدہوکر مظلوم فلسطینیوں کی آواز بن جائے ۔
اس وقت دنیا کے پیشتر ممالک کی جانب سے فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے اور امن کی بحالی کے لیے امریکا کی جانب سے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیاجارہا ہے، سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور منصفانہ پوزیشن اختیار کرے۔
انھوں نے مزید کہا امریکا سلامتی کونسل کی طرف سے مضبوط اقدام کے لیے کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ایک ملک کی رکاوٹوں کی وجہ سے سلامتی کونسل یک زبان بولنے کے قابل نہیں ہے۔ چین دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کرتا ہے اور فلسطین اور اسرائیل کو اپنی میزبانی میں مذاکرات کی دعوت دیتا ہے۔ چین کا بیان کردہ موقف صائب ہے اس پر غور کرکے جنگ بندی کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔
حرف آخر اقوام عالم کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس وقت اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کا بے رحمانہ اور بلاامتیاز استعمال، عالمی انسانی و بنیادی حقوق، عالمی قوانین اور اصولوں کی سنگین اور کھلی خلاف ورزی ہے، اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف منظم جرائم کی مذمت کے لیے صرف زبانی جمع خرچ ناکافی ہے، حالیہ اسرائیلی جارحیت کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اس سے آنکھیں چرائی جاسکتی ہیں،لہٰذا اقوام عالم پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر بزور طاقت اور قوت اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے عملی طور پر روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔