بڑھتے ٹریفک حادثات وجوہات کیا ہیں
پاکستان بھر میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے جس میں لاتعداد قیمتی جانیں...
نواب شاہ کے قریب حادثے کا شکار ہونے والی طلبا کی وین کے ٹکڑے ڈمپر پر رکھے ہوئے ہیں۔ فوٹو : آن لائن
پاکستان بھر میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے جس میں لاتعداد قیمتی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 25 افراد روزانہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک المناک حادثہ بدھ کی دوپہر نوابشاہ کے قریب قاضی احمد روڈ روہڑی کینال کے قریب پیش آیا جس میں معصوم طلبا سے بھری اسکول وین تیز رفتار ڈمپر سے ٹکرا گئی، نتیجتاً 19 طلبا سمیت 22 افراد جاں بحق جب کہ 14 زخمی ہو گئے۔ نوابشاہ میں ہونے والے اس حادثے پر پوری قوم مغموم ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسکول کے طلبا نوابشاہ میں کوئز پروگرام میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے یہ حادثہ پیش آیا، پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو حراست میں لے لیا، تاہم مقدمہ درج نہیں ہوسکا، اسی حادثے کا شکار دوسری بس کے مسافر نے ایکسپریس کو بتایا کہ حادثہ ڈمپر ڈرائیور کی غفلت کے باعث پیش آیا، تیز رفتار ڈمپر اچانک سامنے آیا تو بچوں سے بھری وین اس سے ٹکرا گئی۔
تیز رفتار گاڑیوں کی ٹکر سے کراچی میں ایک ہی دن 3 عمر رسیدہ افراد کچلے گئے۔ نیٹی جیٹی پل پر دو بھائی روند دیے گئے۔ عموماً دیکھا یہی گیا ہے کہ اس طرح کے حادثات میں زیادہ تر غلطی ہیوی وہیکلز ڈرائیور کی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اگر ہم صرف گزشتہ دن کے اخبار کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ گھارو میں ڈمپر کی ٹکر سے 2 موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہو گئے جب کہ ملتان اور خیرپور ٹامیوالی میں ٹریفک حادثات میں 4 افراد کے جاں بحق اور 29 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ خیبر پختونخوا بھی دلگداز اور لرزہ خیز روڈ حادثات سے نہیں بچا ہے۔ یاد رہے چند دن پیشتر باراتیوں سے بھری بس الٹنے کے واقعہ سمیت کئی ٹریفک حادثات منظر پر آتے رہے ہیں جس میں کہیں ڈرائیور حضرات کی غلطی ہوتی ہے تو بسا اوقات ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، منصوبہ بندی سے ہٹ کر بنائے گئے خطرناک موڑ اور دو رویہ سڑک کے درمیان اور اطراف میں حفاظتی جنگلے کا نہ ہونا حادثات کا موجب بنتا ہے، سی این جی کِٹس کا پھٹ جانا بھی حادثات کا ایک محرک ہے۔
بلوچستان کا آر سی ڈی ہائی وے، اسلام آباد کا سپر وے، مری کے پُرپیچ راستے، سندھ میں نیشنل ہائی وے اور داخلی سڑکیں غرض یہ کہ ہر جگہ ہمیں نہ صرف حادثات کے واقعات کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں بلکہ تمام ہی حادثات کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام اور تدارک کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے؟ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر ''اَن فِٹ''گاڑیاں بنا کسی روک ٹوک کے چلائی جا رہی ہیں اور انھیں باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
یہاںِ یہ تذکرہ موضوع سے ہٹ کر نہ ہو گا کہ 1985ء میں ٹرانسپورٹ اینڈ روڈ ریسرچ لیبارٹری، کروک تھارن برک شائر، برطانیہ کے اشتراک سے پاکستان میں ٹریفک حادثات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی، A.J. Downing نے ''روڈ ایکسیڈنٹس ان پاکستان اینڈ دی نیڈ فار امپرومنٹس ان ڈرائیور ٹریننگ اینڈ ٹریفک انفورسمنٹ'' کے تحت اپنی مفصل رپورٹ میں نہ صرف حادثات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی بلکہ وہ نکات بھی پیش کیے تھے جن پر اگر دس فیصد بھی عمل کیا جاتا تو ٹریفک کے ان بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا، 1985ء سے اب تک ٹریفک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ ایک ریسرچ ٹیم بھی اس سلسلے میں قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر مبنی رپورٹ اور گزارشات مرتب کر سکے۔
تیز رفتار گاڑیوں کی ٹکر سے کراچی میں ایک ہی دن 3 عمر رسیدہ افراد کچلے گئے۔ نیٹی جیٹی پل پر دو بھائی روند دیے گئے۔ عموماً دیکھا یہی گیا ہے کہ اس طرح کے حادثات میں زیادہ تر غلطی ہیوی وہیکلز ڈرائیور کی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اگر ہم صرف گزشتہ دن کے اخبار کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ گھارو میں ڈمپر کی ٹکر سے 2 موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہو گئے جب کہ ملتان اور خیرپور ٹامیوالی میں ٹریفک حادثات میں 4 افراد کے جاں بحق اور 29 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ خیبر پختونخوا بھی دلگداز اور لرزہ خیز روڈ حادثات سے نہیں بچا ہے۔ یاد رہے چند دن پیشتر باراتیوں سے بھری بس الٹنے کے واقعہ سمیت کئی ٹریفک حادثات منظر پر آتے رہے ہیں جس میں کہیں ڈرائیور حضرات کی غلطی ہوتی ہے تو بسا اوقات ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، منصوبہ بندی سے ہٹ کر بنائے گئے خطرناک موڑ اور دو رویہ سڑک کے درمیان اور اطراف میں حفاظتی جنگلے کا نہ ہونا حادثات کا موجب بنتا ہے، سی این جی کِٹس کا پھٹ جانا بھی حادثات کا ایک محرک ہے۔
بلوچستان کا آر سی ڈی ہائی وے، اسلام آباد کا سپر وے، مری کے پُرپیچ راستے، سندھ میں نیشنل ہائی وے اور داخلی سڑکیں غرض یہ کہ ہر جگہ ہمیں نہ صرف حادثات کے واقعات کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں بلکہ تمام ہی حادثات کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام اور تدارک کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے؟ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر ''اَن فِٹ''گاڑیاں بنا کسی روک ٹوک کے چلائی جا رہی ہیں اور انھیں باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
یہاںِ یہ تذکرہ موضوع سے ہٹ کر نہ ہو گا کہ 1985ء میں ٹرانسپورٹ اینڈ روڈ ریسرچ لیبارٹری، کروک تھارن برک شائر، برطانیہ کے اشتراک سے پاکستان میں ٹریفک حادثات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی، A.J. Downing نے ''روڈ ایکسیڈنٹس ان پاکستان اینڈ دی نیڈ فار امپرومنٹس ان ڈرائیور ٹریننگ اینڈ ٹریفک انفورسمنٹ'' کے تحت اپنی مفصل رپورٹ میں نہ صرف حادثات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی بلکہ وہ نکات بھی پیش کیے تھے جن پر اگر دس فیصد بھی عمل کیا جاتا تو ٹریفک کے ان بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا، 1985ء سے اب تک ٹریفک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ ایک ریسرچ ٹیم بھی اس سلسلے میں قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر مبنی رپورٹ اور گزارشات مرتب کر سکے۔