پی ڈی ایم کا بیانیہ ملک کے کروڑوں عوام کا بیانیہ ہے، محمود اچکزئی

زیارت: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ صرف نواز شریف اور بیٹی کی بیٹی اور مولانا فضل الرحمان کا بیانیہ نہیں بلکہ درحقیقت یہ ملک کے کروڑوں عوام کا بیانیہ ہے.

زیارت میں پارٹی ورکرز کے کنونشن سے خطاب کے دوران محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر ہم اپنے قوم کو اس تباہی وبربادی سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو اپنے قول وفعل عمل وکردار کو اعلیٰ معیار کے مقام پر پہنچانا ہوگا ورنہ جو عہدیدار اور کارکن یہ پابندی نہیں کرسکتے تو وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور اپنے گھرانوں کو بھی تکلیف نہ دیں اور اگر کسی نے قوم کی نجات کیلئے پختہ ارادہ کیا ہے تو پھر اس سے مقدس کام کوئی نہیں ۔ جب یہ بات پختہ ہے کہ موت برحق ہے اور زندگی ایک بار ملتی ہے تو ہمیں صرف اور صرف خدا کے سامنے اپنے سرکو جھکانا ہوگا اور اس کے سوا کسی بھی ظالم کے سامنے سرخم تسلیم نہیں ہوں گے۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمارے جے یو آئی (ف) کے ساتھ برادرانہ تعلقات اور اتحاد خوش آئند ہے، پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں نے اپنی انتہائی ایمانداری کے ساتھ یہ تعلقات اور اتحاد کو سنبھالنا ہوگا اور کسی بھی مرحلے پر اسے نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، پی ڈی ایم کا بیانیہ صرف نواز شریف اور بیٹی کی بیٹی اور مولانا فضل الرحمان کا بیانیہ نہیں بلکہ درحقیقت یہ ملک کے کروڑوں عوام کا بیانیہ ہے۔

چیئرمین پشتونخواملی عوامی پارٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں اگر پی ڈی ایم کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانا چاہتی ہیں تو عوام کی طاقت سے تمام صورتحال کو بدلا جاسکتا ہے۔ پاکستان ملک کے تمام عوام کو عزیز ہے اور اس کے آئین کی تشریح صرف سپریم کورٹ کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کو وہ ججز جنہوں نے پی سی او (PCO)کے تحت حلف نہیں لیا وہ ملک کے نمائندہ افراد کی گول میز کانفرنس بلائیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو ہم مولانا فضل الرحمن کو تجویز دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی تحریک کو انقلابی تحریک بنا کر آگے لے جائیں۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان پر مسلط صوبائی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر پشتونخواملی عوامی پارٹی اس کو ہٹانے کا فیصلہ کرلے تو ایک مہینے کے بعد صورتحال مختلف ہوگی۔

پی ڈی ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہم افغان طالبان کے مُلا فاضل اور مُلا برادر سمیت اُن کے ساتھیوں اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت تمام سے اپیل کرتے ہیں کہ جنگ بندی کرکے مذاکرات کے ذریعے امن اور آئندہ حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں ۔ ہم ایران ، پاکستان ، ترکمانستان ،ازبکستان ، چین اور روس سے بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں مستقل امن کے قیام کیلئے مثبت کردار ادا کریں ۔ افغانستان کا جھگڑا ایک خودمختار ملک کی آزادی چھیننے کی بات سے شروع ہوئی تھی اور اب بھی اس کا اختتام افغانستان کی مکمل خودمختاری ، استقلال ، ارضی تمامیت کو تسلیم کرنے سے ہوگا اور زور زبردستی کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔