جمہوری روایات کی نفی

ہماری سیاسی وجمہوری قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ کبھی سنجیدہ معاملات پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے۔

ہماری سیاسی وجمہوری قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ کبھی سنجیدہ معاملات پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں جوکچھ ہوا ہے، اسے دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوامی نمایندے فہم کے اعتبار سے اوسط درجے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ہمارے معزز ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی میں جو طرزعمل اختیار کیا اور جو ''سڑک چھاپ'' زبان استعمال کی گئی ، وہ جمہوری روایات کی نفی ہے۔

ہماری سیاسی وجمہوری قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ کبھی سنجیدہ معاملات پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے بلکہ باہم دست وگریبان نظر آتے ہیں اور اسی کو سیاست سمجھتے ہیں،اگرچہ تحمل و برداشت کا فریضہ سبھی ارکان پر عائد ہوتا ہے، تاہم برسراقتدار جماعت کو زیادہ بردباری اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے،ایسے تمام رویوں سے ارکان پارلیمنٹ کو گریز کرنا چاہیے جو کسی بھی سطح پر جمہوریت کے ضعف کا باعث بن سکتے ہوںخدشہ ہے کہ عوام کا اعتماد جمہوریت پر کمزور پڑسکتا ہے۔

برسراقتدار جماعت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے نقطہ نظر کو زیادہ سے زیادہ اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرے اور جہاں وہ اکاموڈیٹ نہ کر سکے، وہاں ڈائیلاگ کا دروازہ بند نہ کرے اور صدق دل سے حزب اختلاف کی آراء کو سمجھنے کی سعی کرے۔ اپوزیشن کا بھی یہ جمہوری اور پارلیمانی فرض ہے کہ وہ ایوان کے اندر پارلیمانی روایات کا پاس کرتے ہوئے ،قوت استدلال کے ساتھ اپنی بات ایوان سے منوائے نہ کہ گھیراؤ اور نعرہ بازی کرے۔

ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں یہ بات ہرگز نہیںبھولنی چاہیے کہ پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں سیاست دانوں کے باہم دست و گریباں ہونے سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں اور جمہوریت کی بساط لپیٹتی رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کو کسی بھی جمہوری ملک میں ''اداروں کی ماں'' کہا جاتا ہے، کیونکہ پارلیمنٹ ہی دیگر ریاستی اداروں کو وجود بخشتی ہے جب کہ قومی اسمبلی پارلیمنٹ کا سب سے اہم فورم ہوتا ہے۔

جمہوری قوتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے غیرجمہوری قوتیں ہمیشہ تیار رہی ہے۔ سول حکومتوں کو بار بار رخصت کرنے کی وجہ سے پارلیمنٹ بطور ادارہ کام نہیں کر سکی۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں، سیاسی کلچر قائم کرنے میں ناکام رہیں، نتیجتاً، پارلیمنٹ اپنا جمہوری کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ اسی لیے آئین کو متفقہ طور پر پاس کرنے کے باوجود، یہی سیاسی جماعتیں آئین کو بچانے میں ناکام رہی ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کے سفر اور اس کے ثمرات کی بات کی جائے تو قیام پاکستان سے اب تک جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکی۔ جمہوریت کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے ہیں، غیر جمہوری قوتوں نے متعدد بار جمہوریت پر شب و خون مارا۔ یہاں آئین کو پامال کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی، جس کی وجہ سے آج بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، جب کہ جمہوری دور حکومت میں بھی محض سیاسی جماعتوں اور انتخابات ہی کو جمہوریت سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضہ ہے، جس جمہوریت میں گڈ گورننس نہ ہو اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔

پاکستان کے قانون کے مطابق تو ملک کے تمام افرادکو معاشرتی اور معاشی مساوی حقوق حاصل ہیں مگر جمہوری نظام کے باوجود امراء ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں، اور امراء کی حکمرانی میں قانون و انصاف اور دیگر امور میں غریب عوام سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے اس کی کسی جمہوری ملک میں مثال نہیں ملتی۔جمہوریت کی اصل روح کے اعتبار سے تو عوام کا اپنا معیار بلند ہونا چاہیے۔ جمہوریت کسی بھی ایک فرد کو محروم رکھ کراپنا پورا مطلب نہیں دے سکتی۔

اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ سو فیصد عوام، منصفانہ رویہ، مفاد عامہ اور نیک نیتی جیسی خوبیوں کی حامل ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں' تھنک ٹینک' کے ساتھ بحث و مباحثے اور مناظر ے کا اصول بھی پایا جاتا ہے جہاں سیاسی رہنماؤں کو اپنی سوچ، حکمت عملی اور اعلیٰ حکمرانی کے لا ئحہ عمل پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے میں کم وبیش تعلیم یافتہ حضرات اور معاشرے کے فعال کارکنان تک ان مباحثوں میں بالواسطہ طور پر شامل ہوتے ہیں، جو مزید ان کے منشور، سیاسی نظریات اور اعلیٰ حکمرانی سے متعلقہ رائے اور تجزیے کے ذریعے سے عوام میں رائے سازی کا کام کرتے ہیں۔


اس کے بر عکس ہمارے ہاں مسلک، علاقائیت، نسل، لسانیت یا پھر دیگر ترجیحات کو اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہیں۔ لہٰذا طویل المدتی لائحہ عمل یہ ہے کہ تعلیم اور رابطہ کاری کے نظام میں بہتری کے ذریعے جمہور کے اندر حقیقی اقدار کو پروان چڑھایا جائے، جو ہمارے خیال میں بہت وقت طلب کام ہے اور اگر اس کا کوئی قلیل المدتی حل نکالا جائے تو وہ یہ ہے کہ معاشرے میں انصاف پسند، غیر جانبداراورباشعور طبقے میں سے منتخب افراد کو عمومی رائے سازی کے لیے استعمال میں لایا جائے تاکہ وہ عوام کے سامنے مثبت نظریات اور وقت کے تقاضوں کو پیش کر سکے، جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر کم و بیش عوام جمہوری رویے کے مطابق رائے شماری میں اپنا کردار ادا کریں۔

جب تک جمہور کو یکساں انصاف، تعلیم، صحت اور خوراک حاصل نہ ہو، جس کے لیے حکومتی نظام میں موجود بدعنوانیوں، بے ضابطگیو ں کاخاتمہ اور عوامی ترجیحات کی روشنی میں ترقیاتی منصوبہ سازی اشد ضروری ہے، ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جمہوریت شناس بھی انتہا پسند رویوں کا اسیر ہے۔ ہم وسائل کی یکساں تقسیم اور حصول میں جمہوری رویے نہیں رکھتے۔ جمہور کی ضرورت تو فیصلہ سازی کے عمل میں پیش آتی ہے ورنہ جو انفرادی امورِ حیات ہیں، وہ ہر فرد نے اپنے طور سے سرانجام دینے ہیں جو اپنے آپ میں ایک جمہوری رویئے کا عکاس ہے۔ وہ اس کے لیے آزاد ہے مگر وہ اپنی آزادی کے لیے دوسروں کی آزادی کا برابر احترام کرے۔

اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ حزب اقتدار کی طرف سے جو بجٹ دستاویزات اسمبلی کے فلور پر پیش کی جاتی ہیں اور بجٹ تقریر میں جو ،جو سفارشات درج ہوتی ہیں اپوزیشن جماعتوں کے پاس اگر ان سے بہتر سفارشات موجود ہوں تو وہ تحریری شکل میں ان سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کریں اور ان پر بحث و مباحث کا ایک سلسلہ ہو۔

ملک کے موجودہ مالی حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا ، چین ،روس اور دوسرے معاشی طور پر خوشحال ممالک کا بھی حال آج کل بڑا پتلا ہے اور وہ خسارے میں جا رہے ہیں،تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں' ہماری معیشت کا تو کورونا وائرس کے آنے سے پیشتر ہی کچومر نکل چکا تھا'آج تو ہماری معیشت اس قدر دگر گوں ہو چکی ہے کہ ہم اس قابل بھی نہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ، ان حالات میں حکومت کے پاس اس ان آپشنز کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا جن کا عکس ہمیں بجٹ دستاویزات میں نظر آتا ہے ۔

جمہوری عمل صرف حقوق حاصل کرنے کا نام نہیں، اس کا مطلب صرف انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دینا نہیں، بلکہ یہ ایک طرز حکومت ہے۔ جس کے مطابق ووٹر کی رائے کا احترام اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔ جمہوریت اپنے اوپر قابل حکمران مسلط کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی قابل اور لائق فرد کی رہنمائی میں اپنی ترجیحات کو اپنے جیسے دیگر محروم لوگوں کی مفاد کے پیش نظر حل کرنا ہے، یعنی بالواسطہ طور پر حکمرانی میں شامل ہونا مراد ہے۔اس تعریف کی رو سے ہمارے قومی نمایندگان کو اپنے طرزعمل کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ آیا وہ جمہوریت روایات کی پاسداری کررہے ہیں یا پھر جمہوری روایات اور اقدار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں ۔

ایک رکن قومی اسمبلی کا اپنے منفی طرزکلام کے دفاع میں یہ کہنا کہ ''گالی دینا، پنجاب کا کلچرہے'' یہ کسی بے علم انسان کی دلیل تو ہوسکتی ہے جب کہ کوئی صاحب علم ایسی نرالی منطق پیش نہیں کرسکتا۔ ایک ایسی زبان جس کی پرورش ،ترقی وترویج اشاعت میں بابا فرید ، شاہ حسین ، بلھے شاہ ، سلطان باہو اور میاں محمدبخش جیسی عظیم ہستیوں نے اپنا کردار ادا کیا ہو، ان کا کلام ادب کے ارفع مقام پر فائز ہو، ایسی زبان کے بارے میں ایسے بودے اور عامیانہ ریمارکس دینا ، علم وادب سے دوری کا ظاہر کرتا ہے۔

امریکا کے صدر ابراہام لنکن کے الفاظ میں جمہوریت کی سادہ،عام فہم اور مشہور تعریف کی جائے کہ ''لوگوں کے لیے، لوگوں کے ذریعے،لوگوں کی حکومت'' تو پھر اس کا مطلب یہ کہ عوام اپنے لیے جس طرح کا نظامِ حکومت پسند کریں وہی طرزِ حکومت ہی جمہوریت کہلائے گی۔

پارلیمانی جمہوریت کی اپنی منفرد قسم کی روایات ہوتی ہیں جن پر جمہوری لوگوں کا چلنا ضروری قرار دیا گیا ہے،ناخوشگوار واقعہ میں شامل حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور اراکین کو اسپیکر کی دل سوزی کے ساتھ پارلیمانی پکار پر لبیک کہنا چاہیے اور عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی ۔قوم اپنے بہترین افراد کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے اور امید رکھتی ہے کہ وہ ان کی نمایندگی کا حق ادا کریں گے، یہ منتخب نمایندے جمہوری اقدار کا مثالی نمونہ سمجھے جاتے ہیں، حرف آخر عوام، پارلیمانی روایات کو پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
Load Next Story