پامانے نیو انٹرنیٹ پالیسی کی تیاری روکنے کا مطالبہ کر دیا

نیوانٹرینٹ پالیسی کے اوپر پہلے سے موجود آٹو اسمبلرزاورمینوفیکچررز میں تشویش پائی جاتی ہے

ٹیرف میں کمی کی سہولت کی تجویزمستردکیے جانے کے باوجود بورڈ آف انویسٹمنٹ،نیشنل ٹیرف کمیشن اورمتعلقہ وزارتیںنیوانٹرینٹ پالیسی کی تیاری میں مصروف ہیں۔ فوٹو: رایئٹرز

سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی جانب سے آٹو سیکٹر میں کسی نئے سرمایہ کارکوامتیازی سہولتیں۔

بالخصوص ٹیرف میں کمی کی سہولت کی تجویزمستردکیے جانے کے باوجود بورڈ آف انویسٹمنٹ،نیشنل ٹیرف کمیشن اورمتعلقہ وزارتیںنیوانٹرینٹ پالیسی کی تیاری میں مصروف ہیں جس سے پہلے سے موجود آٹو اسمبلرزاورمینوفیکچررز میں تشویش پائی جاتی ہے۔نیوانٹرینٹ پالیسی میں مجوزہ ٹیرف کی چھوٹ پر عمل درآمد کی صورت میں نئے سرمایہ کار کی حیثیت سے سرمایہ کاری کرنے والی پرانی کمپنی کو پہلے سے موجود کمپنیوں کے مقابلے میں فی موٹرسائیکل 6000روپے تک رعایت ملے گی جس سے پہلے سے موجود موٹرسائیکل مینوفیکچررزکیلیے مسابقت برقرار رکھنا دشوارہوگا۔

پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررزایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید نے آٹوسیکٹر جرنلسٹس سے ملاقات میں بتایاکہ کونسل آف کامن انٹرسٹ کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کسی بھی نئے سرمایہ کارکوامتیازی سہولت کی فراہمی اور مسابقت کودشواربنانے والی کسی بھی تجویزکو یکسرمستردکرچکے ہیںجس کے بعدنیوانٹرینٹ پالیسی پرغوروفکر بلاجوازہے تاہم اسٹیک ہولڈرزکے تحفظات کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے سرمایہ کاری بورڈ اور نیشنل ٹیرف کمیشن کے ساتھ متعلقہ وزارتیں اس پالیسی پرعملدرآمد کیلیے جنون کی حد تک سرگرم عمل ہیں۔

پاماکے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحیدنے اقتصادی رابطہ کمیٹی پر زوردیاکہ موٹرسائیکل کی مقامی صنعت کے خدشات دور کرنے کیلیے بامعنی بات چیت کرے۔ یہ صنعت ملک میں اربوںڈالرکی سرمایہ کاری کرچکی ہے اورلاکھوں پاکستانیوں کوروزگارفراہم کررہی ہے، میڈیا بریفنگ میں عبدالوحید نے وفاقی وزیر خزانہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے درخواست کی ہے کہ آٹو موبائل کی صنعت سے متعلق مستقبل کی کوئی بھی پالیسی ترتیب دیتے وقت اس صنعت سے وابستہ افراد کو نظرانداز نہ کیا جائے۔


اس حوالے سے موٹر سائیکل اور پرزہ جات بنانے والی صنعت کے موقف کو بھی سنا جائے۔پاکستان دنیا میں موٹرسائیکل بنانے والے 20بڑے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے، ملک میںعالمی معیار کے مطابق موٹرسائیکل بنائے جارہے ہیں، 70سی سی سے لے کر 150سی سی والی موٹر سا ئیکلوں کی تیاری میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موٹرسائیکل صنعت کی سالانہ پیداواری صلاحیت مالی سال 2011-12 کے اختتام پر ڈھائی لاکھ یونٹس تھی ۔

اس کے مقابلے میں پورے مالی سال کے دوران ایک لاکھ 60ہزار موٹر سائیکلیں فروخت ہوئیں اور مجموعی پیداواری صلاحیت کاصرف 64فی صد استعمال کیا جا سکا ۔ہرایک ہزارپاکستانیوں میں سے صرف 12افراد موٹرسائیکل کے مالک ہیں۔ڈی جی پاما نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی طرف سے مکمل تیار موٹر سائیکل پرعائد درآمدی ڈیوٹی میںبڑی رعایت دینے پر مقامی صنعت میں شدید تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔

اس جانب پیش رفت کرنے کیلیے کیاگیا کوئی بھی فیصلہ موجودہ مقامی صنعت کو مکمل طور پر تباہ کردیگا۔حکومت کو اس شعبے میںغیر ملکی سرمایہ کاری لانے کیلیے اقدامات کرنے کا پورا اختیار ہے، مگرنئے کھلاڑی لانے کیلیے پہلے سے موجود صنعت کاروں کیلیے مسابقت کے مساوی مواقع کے بنیادی نظریئے کو نظراندازنہیں کرناچاہیے۔ڈی جی پاما نے اس بات کی وضاحت کی کہ ان کی تنظیم موٹر سائیکل کی صنعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی مخالف نہیںہے مگراس کاموقف ہے کہ پہلے سے موجود صنعت کوخطرے میںنہ ڈالاجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل کی مقامی صنعت نے تیزی سے ترقی کی ہے اور اب یہ ملکی صنعت کا اہم حصہ بن چکی ہے، اس صنعت میں لاکھوں ہنر منداورمحنت کش کام کررہے ہیں ۔عبدالوحید نے وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ نے متعلقہ کمیٹی اور حکام کو موٹرسائیکل کی صنعت میں نئے داخلے کی پالیسی کو حتمی شکل دینے سے قبل موجودہ موٹرسائیکل بنانے والوں کے خدشات دورکرنے کی ہدایت کی ہے۔

جاپانی موٹرسائیکل بنانے والی کمپنی کو مراعات دینے کے معاملے پر اقتصادی رابطہ کمیٹی کو ایک یادوصنعت کاروںکاموقف لینے کے بجائے مجموعی طور پر صنعت کی تجاویز لینی چاہئیںاور اس حوالے سے پاماکودعوت دی جانی چاہیے۔ حکومت اگر آٹو پالیسی میں بڑی تبدیلی لاناچاہتی ہے تو ان لوگوں سے ضرور بات کی جائے جو اس فیصلے سے متاثرہوسکتے ہیںلہٰذاممکنہ متاثرہ صنعت کی نمائندہ تنطیم کا موقف ضرور سنا جائے تاکہ اس موقف کی نفی ہوسکے کہ حکومتی فیصلہ بنددوازوںکے پیچھے کیا جارہا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کو کسی بھی بڑی پالیسی میں تبدیلی کرنے سے قبل اربوں ڈالرکی صنعت سے وابستہ افراد کی بات سننی چاہیے نہ کہ یکطرفہ فیصلہ کیا جائے جوکہ صنعت کو کسی بھی سمت لے جانے میں مدد گار ثابت نہ ہوسکے۔
Load Next Story