سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 25 جولائی 2021
وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ اب ہم کتّوں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔۔۔

وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ اب ہم کتّوں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔۔۔

اپنے کتّے ’رجسٹرڈ‘ کرائیے۔۔۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ اب ہم کتّوں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔۔۔

خبردار! جو یہاں کسی نے کتّوں کے مجازی معنی اخذ کرنے کی کوشش کی۔ بھئی، ہماری مراد وہی اصلی والے کتّے ہیں، وہی چار پنجوں والی اور اپنے تیز دانت اور ٹیڑھی دُم کے لیے مشہور مخلوق۔۔۔

اب آپ سے کیا پردہ، معاملہ یہ ہے کہ ہم اچھے خاصے ’ڈرپوک‘ واقع ہوئے ہیں، اس لیے اور مزید کچھ نہیں لکھیں گے، بس یہی کہنا کیا کم ہے کہ ہم خیر سے اتنی زیادہ ’’ترقی‘‘ کر چکے ہیں کہ گلی کوچوں میں ہمارے بچوں کو بھنبھوڑ ڈالنے والے، عام راہ گیروں کو کاٹ کھانے والے گلیوں کے آوارہ کتّوں کو ٹھکانے لگانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف اب ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ ’’انجمن حقوق سَگاں‘‘ کی ہائے رے کتے۔۔۔ ہائے رے کتے، (’کتّا ہائے ہائے‘ نہ سمجھیے گا) کی ایک ایسی نوحہ گری شروع ہوتی ہے، کہ انسانوں کے مرنے پر بھی کیا ہوتی ہوگی۔۔۔ ہمارے ملک کے ایک قدیمی انگریزی اخبار کی اردو ویب سائٹ پر تو کتّوں کے حوالے سے لکھنے پر بھی باقاعدہ قدغنیں عائد ہیں کہ آپ ایسے ہی منہ اٹھا کر یہ نہ لکھ دیجیے کہ اِن آوارہ کتوں کو مار ہی ڈالا جائے۔۔۔!

نتیجتاً سرکار کو کتّوں کی بہ حفاظت شہر سے منتقلی اور ان کی باقاعدہ ’ٹیکہ کاری‘ کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، یعنی حکومت جو انسانوں کے لیے کتّے کے کاٹے کے ٹیکوں کا ذمہ نہیں اٹھا پا رہی، وہ اِن کتّوں کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جاتی ہے، پھر ہوتا کیا ہے۔۔۔؟ یہی کہ پرنالا وہیں بہے گا، یعنی مجموعی طور پر گلیوں کے یہ آوارہ کتے معصوم شہریوں کو کاٹنے بلکہ کاٹ پیٹ دینے کے لیے ’آزاد‘ ہی قرار پاتے ہیں۔

بات تو ہمیں خالص کتّوں کی ہی کرنی تھی، لیکن گفتگو کہیں اور نکلی جا رہی ہے۔ ہوا یوں کہ 29 جون 2021ء کو روزنامہ ایکسپریس میں ایک خبر شایع ہوئی، جس کے مطابق کراچی کے ایک معروف بلدیاتی ادارے نے اپنی حدود میں آنے والے کتّوں کی رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہماری مراد صرف گھروں کے ’پالتو کتوں‘ سے ہی ہے۔۔۔ ڈیفنس، کلفٹن سمیت کراچی کے ایک معقول رقبے کا احاطہ کیے ہوئے اس اہم بلدیاتی ادارے کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گھروں میں کتّے پالنے والے مکین اپنا نام، پتا، شناختی کارڈ نمبر، کتّے کی نسل، کتّے کی جنس اور رنگ وغیرہ کی تفصیلات فراہم کریں گے، کتّے کی ویکسینیشن اور گھر میں کتّا رکھنے کا مقصد بھی بتانا ہوگا۔۔۔

ثمر بھائی کو جب سے یہ خبر پتا چلی ہے، بھنّائے ہوئے پھر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلی کے کتّوں کو حکام سنبھال نہیں پا رہے، اور خیر سے کوئی کتا گھر پر ہے، تو اس کا مقصد بھی بتایا جاوے۔۔۔ کیا کتوں کو گھر میں رہنے کا حق نہیں؟ پھر یہ سوال تو شہریوں کی جانب سے ہونا چاہیے کہ ’’کتّے‘‘ رکھنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟‘‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کتّوں نے ویسے ہی بہت ناک میں دم کیا ہوا ہے، بالخصوص کراچی کے شریف شہریوں کو چپّے چپّے پر یہ بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں، جب چاہتے ہیں اُن پر بھونکنے لگتے ہیں، جسے چاہتے ہیں کاٹ واٹ بھی لیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے! ہم نے انھیں بتایا کہ یہ پَلے ہوئے کتّوں کی بات ہو رہی ہے۔ تو ثمر بھائی بولے کہ میاںِ، آوارہ کتّوں کی کیا مجال ہے، یہ پَلے ہوئے کتّے ہی تو ہم شہریوں پر غُراتے پھرتے ہیں، انھیں تو پہلی فرصت میں اِس شہر سے بہت دور لے جانا چاہیے۔۔۔ ہم نے انھیں مزید وضاحت سے بتایا کہ جناب، گھروں میں پَلے ہوئے کتّے۔۔۔! تو وہ معنی خیز انداز میں کہنے لگے ہاں ہاں، وہی کُتّے ناں، جن کے دروازوں اور ’دستکی گھنٹی‘ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ’’کتّوں سے ہوشیار۔۔۔!‘‘

پتا نہیں وہ اب بھی کیا سمجھ رہے تھے، ہم نے بتایا کہ وہ نام کی تختی نہیں ہوتی، بلکہ بنگلوں کے اندر رہنے والوں کے ہاں پَالے گئے کتوں کے حوالے سے ’خبردار‘ کیا گیا ہوتا ہے۔ انھوں نے بے نیازی سے ’’وہی‘‘ کہہ کر کندھے اُچکائے اور پھر کتّوں کا ’رجسٹریشن فارم‘ دیکھنے لگے۔

اس کے بعد یہ انکشاف کیا کہ اِس رجسٹریشن فارم کے مطابق فی کتّا رجسٹریشن فیس دو ہزار روپے ہے اور یہ فارم مبلغ 250 روپے میں دست یاب ہے۔۔۔ فارم میں کتّے کے مالک کو اپنا ’ای میل‘ کا پتا بھی دینا ہے اور فارم جمع کراتے ہوئے کتّے کی تصویر، کتّے کے ٹیکوں کا کارڈ، جمع کرائے گئے چالان کی کاپی، کتّے کے معالج کی رپورٹ کے ساتھ کتّے کے مالک کی شناختی کارڈ کی کاپی بھی جمع کرانی ہوگی۔ گویا کتّے بھی اب باقاعدہ سرکاری اندراج میں شامل ہو جائیں گے۔ پھر ثمر بھائی کہنے لگے کہ ’’صرف کتّے نہیں، بلکہ کتّے کے۔۔۔‘‘ انھوں نے موضوع کو دوبارہ ’غیر پارلیمانی‘ الفاظ کے ساتھ گھمانے کی کوشش کی، تو ہم نے انھیں وہیں چُپ کرا دیا، ورنہ وہ تو آگے دو چار مزید ’ک‘ گنوانے لگے تھے۔۔۔

بہرحال، اِس مختصر خبر میں ہمیں یہ پتا نہیں چل سکا کہ رجسٹریشن کے بعد کتّوں کو باقاعدہ کوئی ’’شناختی کارڈ‘‘ بھی جاری کیا جائے گا یا نہیں اور یہ کہ پھر کتنے عرصے بعد اِس ’کتّا کارڈ‘ یا رجسٹریشن کی تجدید کرانا پڑے گی۔۔۔؟ اور اس بات کی تصدیق کیوں کر ہوگی کہ رجسٹرڈ کرایا گیا کتّا دراصل وہی کتّا ہے، جو دراصل گھر میں موجود ہے۔۔۔؟ اس کی جانچ پڑتال اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا انتظام ہوگا۔۔۔؟

نیز یہ بھی نہیں پتا چل سکا کہ وہ کون کون سی صورتیں ہوں گی کہ جس کی خلاف ورزی کرنے پر کتّے کی رجسٹریشن منسوخ ہو جائے گی۔۔۔؟ اور رجسٹرڈ کتّوں سے متعلق شکایات درج کرانے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔۔۔؟ رجسٹرڈ کتّوں کو کیا کیا ’حقوق‘ حاصل ہوں گے اور اُن کے فرائض میں کیا کیا باتیں شامل ہوں گی۔۔۔؟ کتّے کو کاٹنے اور بھونکنے کی کتنی آزادی ہوگی۔۔۔؟ اور وہ کون سی مجبوریاں ہوں گی کہ جب کتّا کسی کو کاٹنے کا ارتکاب کر سکے گا۔۔۔؟ آیا رجسٹرڈ کتّے کو بھونکنے اور کاٹنے کا حق ہوگا بھی یا نہیں۔۔۔؟

بہت سے لوگ آوارہ کتوں کو بھی پال لیتے ہیںِ، ایسے کتے کی نسل کیوں کر معلوم ہو سکے گی۔۔۔؟ کیا تمام پالتو کتّے رجسٹریشن کے اہل ہوں گے۔۔۔؟ نیز یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ غیرملکی کتّوں کی رجسٹریشن کے لیے کیا شرائط ہیں۔۔۔؟ کیا ایک ہی کتّا بہ یک وقت دو ممالک میں رجسٹرڈ ہو سکتا ہے۔۔۔؟ کیا کتّوں کو بھی اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے ہوں گے۔۔۔؟

اب یہ سارے سوالات تو کتّے اور ان کے پالنے والے جانیں، سرِ دست تو ہمیں اس ’پاکستان‘ کے وہ شہری یاد آرہے ہیں، جن کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے اِن کے والدین یا دادا، دادی کی ’ہندوستان‘ میں جائے پیدائش پر سوال کیا جاتا ہے، اور اعتراض کیا جاتا ہے، کبھی ان کے ’’یہاں‘‘ آنے کے کاغذی ثبوت نہ ہونے یا کمزور ہونے کے سبب ان کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے، معطل کر دیے جاتے ہیں، یا اِن کی تجدید نہیں کی جاتی۔۔۔ صرف اُس ہندوستان سے ہجرت کرنے کے سبب، جب یہ ’پاکستان‘ بھی اُسی ہندوستان سے پاکستان ہوئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا، یا اُس ’’بنگلا دیش‘‘ سے یہاں ہجرت کرنے کے سبب جو اُس وقت ’مشرقی پاکستان‘ تھا اور ساڑھے سولہ آنے اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 56 فی صد حصہ تھا۔۔۔!

اب ہم بھی کہاں خوامخواہ میں ستم زدہ مہاجروں اور بنگالیوں کا ذکر لے کر بیٹھ گئے ہیں، ہر پاکستانی سے بڑھ کر وہ ’پاکستانی‘ جنھیں ’نادرا‘ کے دفاتر میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور بٹوارے کے عشروں بعد بھی یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ’ہم واقعی پاکستانی ہیں۔۔۔!‘

کس کی زمین زیادہ ہے؟
ظہیر انجم تبسم، خوشاب
بادشاہ وقت نے اعلان کرایا پورے ملک میں اگر کسی کی زمین میری زمین سے زیادہ ہو تو دربار میں آئے اسے انعام دیا جائے گا۔ ایک انتہائی غریب آدمی دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے دیکھتے ہی قتل کا حکم جاری کیا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے عرض کیا مجھے کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔

بادشاہ نے کہا میری زمین بہت زیادہ ہے اب تم بتائو تمہاری زمین اتنی ہے جو میری زمین کا مقابلہ کر سکے، تم نے دربار میں حاضر ہوکر میری توہین کی ہے۔ وہ غریب آدمی کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ کا قد پانچ فٹ ہے، جب کہ میرا قد چھے فٹ ہے کس کو زیادہ زمین ملے گی۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا۔ اصل زمین انسان کی قبر ہوتی ہے۔

اُلّو
صدیوں سے ویسے کے ویسے ہیں
شفیق الرحمن
شوخ اور باتونی پرندوں میں اُلّو کا مرتبہ بہت بلند ہے کیوں کہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور غالباً حسِ مزاح سے محروم ہے۔ بہت سے لوگ محض اس لیے ذی فہم سمجھے جاتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مسکراتے۔ اُلّو یہ انتظار نہیں کرتے کہ کوئی ان کا تعارف کرائے۔ دیکھتے دیکھتے یوں بے تکلف ہو جاتے ہیں، جیسے ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ شریک حیات منتخب کرتے وقت اُلّو طبیعت شکل و صورت اور خاندان کا خیال نہیں رکھتے۔ تبھی وہ صدیوں سے ویسے کے ویسے ہیں۔

مادہ ننھے اُلّوئوں کی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے مگر جوں ہی وہ ذرا بڑے ہوئے اور ان کی شکل اپنے ابا سے ملنے لگتی ہے انھیں باہر نکال دیتی ہے۔

اُلّو دوسرے پرندوں سے میل جول کو اچھا نہیں سمجھتا۔ وہ اپنا وقت زیادہ اُلّو بننے میں صرف کرتا ہے۔ ’’آپ کام سو مہا کام‘‘ اُلّو کا مقولہ ہے۔ اُلّو کا محبوب مشغلہ رات بھر بھیانک آوازیں نکال کر عوام کو ڈرانا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کی مثالی توہم پرستی میں اُلّو نے قابل تقلید حصہ لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں کا سبب اس غریب اُلّو کو بتاتے ہیں، جو مکان کے پچھواڑے درخت پر رہتا ہے۔ اُلّو کی نحوست ہوتی ہے مگر اتنی نہیں۔

اُلّو اچھے بھی ہوتے اور برے بھی۔ اچھے تو وہ ہوتے ہیں جو دور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اُلّوئوں کو برا بھلا کہتے وقت یہ مت بھولیے کہ انہوں نے اُلّو بننے کی التجا تھوڑا ہی کی تھی۔ ماہرین غور کرتے رہتے ہیں کہ اُلّو ہمیشہ تنہا کیوں نکلتا ہے۔ اُلّوئوں کا جوڑا باہر کیوں نہیں نکلتا؟ ماہرین کو یہ بھی ڈر ہے کہ اُلّو روز بہ روز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں نایاب نہ ہو جائیں۔ انھیں فکر نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی چیزیں کبھی نہیں مٹتیں یہ ہمیشہ رہنے کے لیے آئی ہیں۔

ویسے اُلّوئوں کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے، مگر وہ بات نہیں رہے گی۔ اُلّو آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے، تو اس کی نیت آپ کو پریشان کرنے کی نہیں ہوگی۔ آپ بھی تو اسے گھور رہے ہیں۔ ذرا سی دیر میں وہ زبان ہلائے بغیر آپ کو اپنا ہم خیال بنالے گا۔ اسے ’ہیپناٹزم‘ کہتے ہیں۔

اُلّو کی تلاش میں آپ کو زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اُلّو آپ کے قیاس سے کہیں قریب ہے۔ انسان کو ناشکرا نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں اُلّو سے زیادہ بری چیزیں بھی ہیں۔ جیسے دو الّو اور تین الّو!

کچنار کے پھول کِھلنے سے پہلے۔۔۔
مریم مجید ڈار، اسلام آباد
بارش، اس کی آواز، مہک اور بارش بھرے دن مجھے بہت خوش رکھتے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے میں اس اڑتے پانی کے رَتھ پر سوار ہو کر جنگل بیلے گھومتی رہوں۔ ہمالیہ کی آغوش میں بارشوں کے رنگ اور تیور جدا ہوتے ہیں اور یہاں، یعنی اس کے قدموں میں بارشیں نخریلی اور کم آمیز ہو جاتی ہیں۔ مجھے بارش کا انتظار رہتا ہے اور شاید کسی کو علم نہ ہو، مگر میں ہر رات ورچوئل ریئیلٹی پر ٹین کی چھت پہ لگاتار برستی بارش کی آواز سنتے سنتے سو جاتی ہوں۔

آج صبح اس خودکار نظام کے تحت میری آنکھ کھل گئی، جو بارش سے جڑا ہوا ہے، حالاں کہ کنکریٹ کی چھتوں پر بارش سریلی نہیں ہوتی، مگر میں نے سن لیا۔ میں شب خوابی کے لباس میں ہی باہر بھاگی، تو آسمان سے خوشی بوندوں کی صورت برس رہی تھی اور گلی سنسان پڑی تھی۔ گیٹ کھلا تو ایک ننھا کتّا میری جانب بھاگا۔ میں نے اسے اٹھا لیا اور کچھ دیر ہم بارش میں گول گول گھومتے رہے۔ زمین سے نکلتی بھاپ میرے ننگے پائوں سے لپٹ رہی تھی اور گردن پر بہتا پانی کہنیوں سے ٹپک رہا تھا۔ میں نے کتّے کو چھوڑا اور وائپر اٹھا کر چھت پر بھاگی کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر چھت کی دھول مٹی صاف کی جا سکے۔

پڑوس کی چھت پر ننھی زمل نیکر پہنے ہوئے بارش میں اچھل کود کر رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر زور سے ہنسی اور کہنے لگی ’’آپ کو بھی بارش اچھی لگتی ہے؟ مجھے تو اتنی ی ی اچھی لگتی ہے کہ جی چاہتا ہے روز بارش ہو۔‘‘ اس نے چھت پر جمع ہونے والے پانی کے چھینٹے اڑائے اور اپنی زرد اور سرخ سائیکل چلانے لگی۔ سائیکل کے پہیوں سے پانی کی لہریں بنتیں اور کاغذ کے ٹکڑے کشتیوں کی مانند تیرنے لگتے۔

مجھے بارش کے لیے اس کی محبت اچھی لگ رہی تھی۔ چھت صاف ہوگئی تو میں کرسی رکھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کیے بارش کو خود پر برستا ہوا محسوس کرنے لگی۔ دھیرے دھیرے بارشوں نے گرمی، تھکن، بیزاری اور تپش بہا دی اور اب مجھے باقاعدہ ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔

دور مارگلہ کی پہاڑیوں پر سیاہ گھٹائیں کاکلوں کی مانند لہرا رہی تھیں اور ہوا کے تھپیڑے بارش کو باریک دھند میں بدلتے تھے۔ اتنے دنوں بعد میری آنکھیں بھر آئیں اور سرد پانی میں گرم پانی گھلنے لگا۔ بارش میں ایک مانوس مہک تھی، اس کا لمس جانا پہچانا تھا اور اس لمس نے مجھے پوری شدت سے کچنار کے پھولوں سے سجی پگڈنڈی پر ٹھیری اس شام میں لا پھینکا تھا، جب ’آک‘ کی جھاڑیوں میں موتیا مہک رہا تھا، تاحد نگاہ۔۔۔!

میرا فون ایک چَھپر تلے رکھا ہوا تھا۔ اِس کے سگنل کمزور تھے، مگر ایک پیغام تو بھیجا جا سکتا تھا۔ میں نے ’واٹس ایپ‘ پر اس کا ’لاسٹ سین‘ چیک کیا۔ چھ بج کر 42 منٹ۔۔۔!

’’آج یہاں بارش ہو رہی ہے! کب آو گے؟‘‘

پیغام چلا گیا۔ پہلے ایک ’ٹِک‘ اور پھر دو۔۔۔! وہ ’آن لائن‘ نہیں تھا۔ دل کو افسوس سا ہوا اور میں بھیجا گیا پیغام دونوں طرف کے لیے حذف کرنے لگی، ت یکایک ’ٹِک‘ نیلے ہو گئے، یعنی پیغام پڑھ لیا گیا تھا۔ میں کچھ دیر اسے ’آن لائن‘ دیکھتی رہی اور پھر علامت ظاہر ہوئی کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے۔۔۔ دھڑکن ذرا تیز ہوئی۔ جانے کیا جواب ہو۔۔؟

اور وہ آ گیا۔۔۔

’’واہ۔۔۔! تمھاری ایک خواہش تو پوری ہوئی۔ دوسری کے لیے تھوڑا سا انتظار! کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، مگر وعدہ کرتا ہوں، کچنار کے پھول کھلنے سے قبل آ جائوں گا۔‘‘

دوسرا پیغام ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے آس پاس کچنار مہک رہے تھے۔ میں نے مٹھی بھر پھول ہوا میں اچھالے اور چائے بنانے چل دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔