کورونا کا خطرناک پھیلاؤ اور معاشرتی رویے

اگربات عروس البلاد کراچی کی جائے تو اس وقت ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

اگربات عروس البلاد کراچی کی جائے تو اس وقت ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فوٹو: فائل

BEIJING:
ملک بھر میں کورونا وائرس سے مزید 76 افرادجاں بحق ہوگئے،حکومت نے عوام کو 31 اگست تک ویکسین لگوانے کی مہلت دے دی۔

دوسری طرف پنجاب میں2 اگست سے سرکاری اورنجی تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیاگیا ہے، جب کہ این سی اوسی کے سربراہ اسد عمر نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہاکئی لوگ کورونا کو بدستورسنجیدہ نہیں لے رہے۔

شہروں کو بند کرنا حل نہیں ،بچنے کاواحدحل ویکسی نیشن اوراحتیاط ہے۔معاون خصوصی صحت ڈاکٹرفیصل سلطان نے بتایاملک بھرمیں مثبت کیسوںکی شرح7.5 فیصد ہے جب کہ تشویشناک مریضوں کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرگئی، بڑے شہروں میں دباؤ بڑھ رہا ہے۔

کورونا کی ایک نئی لہر کے شدت اختیارکرنے کا سبب ہماری لاپرواہی اور غفلت کا چلن بناہے ، عیدقرباں کے موقعے پر حکومتی وارننگ کے باوجود ہم نے بحیثیت قوم ایس اوپیز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے ، اگربات عروس البلاد کراچی کی جائے تو اس وقت ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

صرف کراچی میں 24 گھنٹوں میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح24 فیصد ریکارڈ ہوئی، ایک دن میں 2 ہزار 99 افراد کورونا کا شکار ہوئے۔سندھ حکومت کی جانب سے موبائل فون سم بند کرنے کے انتباہ کے بعد ویکسین کرانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب کہ ڈاکٹرز نے ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی صورتِ حال بھیانک ہوتی جا رہی ہے، سرکاری اسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

جب بھی ہم پاکستانی اپنے پیاروں کو فون کرتے ہیں تو یہ انتباہی پیغام سننے کو ملتا ہے کہ ''خطرہ ابھی ٹلا ہے، لیکن پوری طرح سے ختم نہیں ہوا۔'' تاہم انتباہ کے باوجود ایس او پیز کی خلاف ورزیاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ نے وسیع پیمانے انسانی جانوں کا ضیاع کیا ہے ،جب کہ پاکستانیوں پر بین الاقوامی سفر پر پابندیوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

صوبہ سندھ نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بلاتاخیر ایک بار پھر پابندیوں کا نفاذ کردیا ہے۔اب اگرچہ بہت سوں پر غیر ذمے دارانہ رویے کا الزام دھرنا تو آسان ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کو کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔

ایک طرف جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں حالات معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں ،وہیں عالمی منڈی میں دستیاب محدود ویکسین کے حصول کے لیے کوشاں اور ویکسین نہ لگوانے کے رجحان سے نبردآزما پاکستان جیسے ممالک میں حالات کی بحالی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔دنیا میں اب تک ساڑھے تین ارب کورونا ویکسین کی خوراکیں لگائی جاچکی ہیں،مگر دنیا کی اس کامیابی کی کہانی میں کئی جھول بھی ہیں۔

ویکسین کی عالمی طلب رسد کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کہ تقسیم کا نظام بھی نہایت غیر مساوی ہے، کیونکہ زیادہ آمدن والے ممالک کم آمدن والے ممالک کے مقابلے میں 30گنا زیادہ تیزی سے اپنے عوام کو ویکسین لگا رہے ہیں۔ چنانچہ جہاں امیر ممالک کسی حد تک معمول کے حالات کی طرف لوٹ رہے ہیں، وہیں غریب ممالک مشکلات کا شکار ہیں اور خود کو (اکثر و بیشتر حقیقتاً) باقی دنیا سے منقطع پاتے ہیں۔

بہرحال مجموعی طور پرکووِڈ19 کا جائزہ لیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملکی حالات اس حد تک خرابی کی طرف نہیں گئے ، جیسا کہ قیاس کیا جا رہا تھا، بلکہ اگر امریکا، برازیل اور بھارت سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے حالات خاصے بہتر رہے۔اس ضمن میں بر وقت اور مثبت حکومتی اقدامات نے وبا کی روک تھام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کا قیام مرکز اور صوبوں کے درمیان باہمی روابط قائم کرنے میں معاون رہا ہے، جس کی وجہ سے وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لایا جا سکاہے ۔


پاکستان میں اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق0.7 فی صد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں جو کہ بین الاقوامی اداروں کے لگائے ہوئے اندازوں سے بھی10فی صدسے بھی کم تھے۔اسی طرح سے کووڈ19 کے منفی اثرات پاکستان کی اقتصادیات پر اس طرح سے نمایاں نہیں ہوئے، جس طرح سے قیاس کیا جا رہا تھا۔ان نتائج کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پس منظر میں بہت سے معاون عوامل عیاں ہوتے ہیں۔

ان جزوی عوامل کو دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے کا تعلق پاکستانی معاشرتی ساخت سے ہے، اور دوسرے کا حکومتی اقدامات سے۔ان کو تفصیلی طور پہ ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔اول تو پاکستان کی 70 فی صد آبادی 29 سال سے کم عمر ہے، جن پہ کووڈ19 کے منفی اثرات اس طرح سے اثر انداز نہیں ہوتے جس طرح کہ بڑی عمر کے لوگوں پر۔ دوم پاکستان میں موٹاپے سے شکار افراد کا تناسب 8 فی صد ہے، جو کہ باقی کئی ممالک سے بادرجہ کم ہے، مثلاً امریکا میں 36 فی صداور برازیل میں بائیس فی صد۔ طبی ماہرین کے مطابق موٹاپے کے شکار افراد کووڈ19 سے زیادہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

کووڈ19 کے کم پھیلنے کی ایک اور وجہ پاکستان میں طرز رہائش ہے۔ اونچی رہائشی عمارتوں میں لوگوں کی آمد و رفت اور میل جل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، جیسے کہ سیڑھیاں یا لفٹ میں، یا مرکزی داخل ہونے کا راستہ، وائرس کے منتقلی کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان میں کیونکہ اکثریت کی رہائش چھوٹے مکانوں پہ مشتمل ہے، جن میں ہوا کا گزر قدرے بہتر رہتا ہے اور باہمی فاصلہ بھی برقرار رہتا ہےْ

اس کے مثبت اثرات کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا غیر ضروری طور پہ باہر بھیڑ بھاڑ کی جگہوں جیسے کہ بازار وغیرہ میں جانے کا رجحان کم ہے، جس سے آبادی کی کثیر تعداد وبا کے پھیلاؤ سے محفوظ رہتی ہے۔

جن ممالک میں ویکسین لگوانے کی شرح زیادہ ہے وہاں کورونا وائرس کے کیسوں، اسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات کا سلسلہ یا تو رُک گیا ہے یا پھر اس میں کمی آئی ہے۔ لہٰذا پاکستان کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ویکسین لگوانے میں تیزی اور پھرتی کا مظاہرہ کریں۔ نئے کیسوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے۔

اہل پاکستان کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کا واحد راستہ ویکسی نیشن ہے، جب تک ہماری قوم اس عمل کی منصوبہ بندی نہیں کرتی اور اس میں تیزی نہیں لاتی تب تک ہمیں وقفے وقفے سے لاک ڈاؤن، سلو ڈاؤن اور دیگر اقسام کی پابندیوں کا سامنا کرتے رہنا ہوگا، جس کے بدترین اثرات روزگار اور آمدنیوں پر مرتب ہوں گے۔

انسانی زندگیوں اور روزگار کے تناظر میں دیکھیں تو ویکسین لگانے کے عمل میں عدم مساوات کا مسئلہ عالمی منظرنامے پر ویکسین کی پیداوار، تقسیم اور قبولیت پر جاری سیاست کے باعث مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔طبی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف انوائرمنٹل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں شایع تحقیق میں انسانی رویوں کا جائزہ عام فہم انداز سے لیا گیا اور اسے موسم سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ موسم کا اس بیماری کے پھیلاؤ پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے اور اس سے 3 فیصد سے کم کیسز سامنے آئے۔اس کے مقابلے میں انسانی رویے اور انفرادی رویے کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، جو بالترتیب 34 اور 26 فیصد کیسز کا باعث بنے،دیگر 2 اہم عناصر آبادی اور شہری گنجان علاقے ہیں جو بالترتیب 23 اور 13 فیصد اہمیت رکھتے ہیں۔محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ موسم اور ماحول مسئلے کی جڑ ہیں، درحقیقت ہمیں ذاتی احتیاطی تدابیر کو اپنانا چاہیے، اور دیگر عناصر کا خیال رکھنا چاہیے۔

اس نئی تحقیق میں اس بات پر زور دیا کہ اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ انسانی برادریوں میں یہ بیماری کیسے پھیلی ہے ۔ یہ طبی تحقیقاتی رپورٹ چشم کشا ہے ، پاکستانی عوام کو اس ریسرچ رپورٹ کے مطابق اپنے رویوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کورونا ایس اوپیز پر عمل نہیں کررہے ہیں اور کورونا کے پھیلاؤ کو سردیا گرم موسم کے مفروضوں سے جوڑ رہے ہیں جوکہ یکسر غلط ہے کیونکہ کورونا کے پھیلاؤ کا سبب انسانی رویے ہیں اور طرز معاشرت ہے ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ والدین کے ورک فرام ہوم اور بچوں کی آن لائن کلاسوں نے کم عمر دوستوں کے سماجی تعلقات کو نہ ہونے کے برابر کر دیا ہے،کھیلوں کے مراکز بھی لاک ڈاؤن کے باعث بند ہیں اور اس وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی کھیلوں کی سرگرمیاں بھی وبا کی نذر ہو چکی ہیں جوکہ ان کی جسمانی صحت پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے قوم کے ہرفرد کو ویکسی نیشن کے عمل سے گزرنا ہوگا تاکہ معمول کی سرگرمیوں کے ملک بھر میں جلدازجلد بحالی کے امکانات پیدا ہوسکیں ۔

پاکستان میں وبا کے کم پھیلاؤ پر اول تو اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے، لیکن اس سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں وائرس کا پھیلاؤ اس سے مختلف صورت نہ اختیار کر لے، لِہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ وائرس کی احتیاطی تدابیر پر انتہائی توجہ کے ساتھ عمل جاری رکھا جائے، کیونکہ وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ ابھی تک موجود ہے ۔ آیندہ نتائج کا انحصار حکومت کے علاوہ عوام کے ذمے دارانہ اور مثبت رویے پر ہوگا۔
Load Next Story