انجیلو میتھیوز اور پاکستانی حکمران

ایاز خان  منگل 28 جنوری 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان شارجہ میں کھیلے  جانے والے تیسرے اور آخری ٹیسٹ کا نتیجہ اپنے اندر ایک ابدی حقیقت لیے ہوئے ہے کہ جب کوئی ٹیم صرف ڈرا کے لیے کھیلے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مقدر سے جیت کو خارج کر دیا ہے جب کہ شکست اس کے ساتھ چمٹی رہے گی۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ سری لنکن کپتان اینجلو میتھیوز نے تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے لیے جو حکمت عملی تیار کی‘ اس میں فتح کا آپشن موجود ہی نہیں تھا۔ اینجلو میتھیوز کی حکمت عملی یہ تھی کہ اس ٹیسٹ کو ڈرا کیا جائے تاکہ وہ تین میچوں کی سیریز ایک صفر سے جیتنے میں کامیاب ہو جائے۔ جوں جوں میچ آگے بڑھا‘کپتان مصباح الحق کو محسوس ہو گیا کہ انجیلو میتھیوز کی ٹیم جیتنے کے  لیے کھیل ہی نہیں رہی‘ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ میچ کو ڈرا کر دیا جائے‘ یہ وہ لمحہ تھا جہاں سے پاکستان کی جیت کا آغاز ہوتا ہے‘ انجیلو میتھیوز کی حکمت عملی سے جیت کا آپشن خارج تھا۔

کپتان مصباح الحق نے اپنی حکمت عملی میں جیت کو شامل کر لیا کیونکہ اس کے سامنے ڈرا تو موجود ہی تھا‘ ہار خارج از امکان تھی‘ یوں میچ کے آخری روز میتھیوز ڈرا کے لیے کھیلے جب کہ مصباح الحق نے فتح کے لیے جدوجہد کی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ میچ کا پانسہ اس لیے پلٹا کہ جب کوئی ٹیم فتح کے لیے کھیلتی ہے تو اس کی باڈی لینگوئج میں جارحانہ پن‘ جدوجہد اور حوصلہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ جذبے بلند ہو جاتے ہیں‘ خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے جب کہ مدمقابل حوصلہ ہارنے لگتا ہے۔ یہی سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ ہوا‘ سری لنکا کے کھلاڑی دفاع کرتے رہے لیکن آخر میں حوصلہ ہار گئے اور میچ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ٹیسٹ میچ میں کوئی ٹیم پہلی اننگز میں چار سو سے زیادہ رنز بنا لے تو پچاس فیصد میچ اس کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ میچ کے تیسرے دن وسیم اکرم جیسے مبصرین بھی یہ کہہ رہے تھے کہ شارجہ ٹیسٹ کے دوہی نتائج ہوں سکتے ہیں ،  سری لنکا کی جیت یا ڈرا۔

مجھے کپتان انجیلو میتھیوز کا رویہ پاکستان کی حکومتوں جیسا لگا ہے‘ موجودہ حکومت کو چھوڑیں‘ ماضی کی حکومتوں کو لے لیں‘ سب ڈنگ ٹپائو اور اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کرتے رہے‘ کسی نے ملک کو ترقی دینے کے لیے جارحانہ حکمت عملی اختیار نہیں کی‘ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکمت عملی پر غور کر لیں‘ ان کا مقصد صرف پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنا تھا‘ ان کی ترجیحات میں معاشی ایجنڈا شامل نہیں تھا اور نہ ہی ملک میں امن قائم کرنا ان کی ترجیح تھی‘ جب کسی حکومت کی یہ ترجیح ہی نہیں تھی تو پھر ملک میں معاشی ترقی اور امن کیسے قائم ہونا تھا‘ آصف علی زرداری نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے ان کی من مانیوں کو برداشت کیا‘ جس کا جو دل چاہا‘ اس نے کیا‘ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال کی آئینی مدت تو پوری کر گئی لیکن ملک بدحال ہو گیا‘ توانائی کا بحران بے قابو ہوتا گیا‘ لاقانونیت بڑھتی گئی لیکن حکمرانوں کی مدت اقتدار پوری ہو گئی‘ اب بھی یہی حکمت عملی جاری ہے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ میاں صاحب کی حکمت عملی بھی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح پانچ سال کی آئینی مدت پوری کر لیں‘ اس مقصد کے لیے وہ بھی مفاہمتی پالیسی لے کر چل رہے ہیں‘ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت جو مرضی کرے‘ بلوچستان والے کچھ بھی کرتے رہیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی مزے کرتی رہے‘ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے‘ جب وفاقی حکومت کی یہ حکمت عملی ہو گی تو اس ملک میں ترقی کیا خاک ہو گی‘ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ وزیراعظم صاحب یہ جو معاشی ڈاکٹرائن پیش کر رہے ہیں‘ یہ عملی شکل کیسے اختیار کرے گا‘ خیبرپختونخوا میں کوئی سرمایہ دار کیوں اپنا پیسہ لگائے گا‘ وہاں حکومت کی رٹ ہو گی تو کچھ ہو گا‘ چلیں بلوچستان چلتے ہیں‘ وہاں کارخانے اور فیکٹریاں کیسے لگیں گی‘ بڑی بڑی کمپنیوں کے اسٹورز کیسے کھلیں گے؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں‘ سندھ کا حال تو پتہ پتہ بوٹا بوٹا جانے والی بات ہے‘ پاکستان کا معاشی دارالحکومت کراچی بیروت بنا ہوا ہے‘ اس شہر میں عالمی کمپنیاں کیوں سرمایہ لگائیں گی‘ جو لوگ پہلے ہی وہاں کاروبار کر رہے ہیں‘ وہی بھاگ رہے ہیں‘ اندرون سندھ میں تو پہلے ہی معاملہ یہ ہے کہ گدی نشینوں اور جاگیرداروں نے ڈاکو پال رکھے ہیں‘ وہاں تو عام کاشتکار کے لیے اپنے مال مویشی بچانا مشکل ہو رہا ہے چہ جائیکہ کوئی کارخانے دار وہاں اپنا سرمایہ لگائے۔ آج حکومت طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کے جس مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے اس کے تانے بانے بھی اسی ڈنگ ٹپائو پالیسی سے ملتے ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے کی حکمت عملی ہمیں اس مقام تک لے آئی ہے جو حکومت  نئی قومی سلامتی پالیسی تشکیل نہ دے سکے وہ ہمارے دیگر مسائل کیسے حل کر سکتی ہے۔ ماضی کی حکومتیں کسی نہ کسی طرح اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہیں مگر اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب دفاعی حکمت عملی نہیں چلے گی۔ جارحانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ جارحیت کو بہتر دفاع بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستان کا یہ حال اس لیے ہوا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جو ترجیحات بنائیں‘ ان میں ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور امن‘ آپشن موجود ہی نہیں تھا‘ ہمارے حکمرانوں کے ویژن میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنا پہلے نمبر پر تھا تو سٹرسٹھ سال تک تو وہ کسی نہ کسی طرح اسے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے لیکن اب کھیل ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے‘ بالکل ایسے ہی جیسے شارجہ  میں کھیلے جانے والے پاک سری لنکا تیسرے ٹیسٹ کے آخری روز انجیلو میتھیوز کے ہاتھ سے کھیل نکل گیا‘ مصباح الحق نے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرکے فتح حاصل کی اور سیریز ہارنے کی شرمندگی سے بچ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔