فارمولا فلموں پراصرار کرنے والوں کا کوئی مستقبل نہیں
انڈسٹری کی بحالی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور نئے چہروں پر انحصار کرنا ہوگا
انڈسٹری کی بحالی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور نئے چہروں پر انحصار کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل
پاکستان فلم انڈسٹری کی کشتی جدید ٹیکنالوجی کے گہرے سمندرمیں ڈولتی ڈولتی اب ایک نئی سمت کی طرف گامزن ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے شدید بحران کے بھنورمیں پھنسی ہماری فلم انڈسٹری کی کشتی کونوجوان فنکاروں اورہدایتکاروں نے اپنی صلاحیتوں اورجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنا کربچانے کی کوشش توکی ہے ، لیکن اس کشتی کوشدید بحران کے طوفانوں میں پھنسانے والا ایک گروپ تاحال بہانے بہانے سے کشتی کوکنارے پرپہنچانے کی بجائے اس کودوبارہ بھنورکے قریب لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایک طرف تویہ گروپ امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی بالی وڈ سٹارز کی فلموں کی نمائش کی مخالفت کررہا ہے تودوسری جانب جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنا کرگزشتہ برس پاکستانی سینما کی تاریخ میں ریکارڈ کاروبارکرنے والی فلموں کے ہدایتکاروں کو بھی اپنا حصہ ماننے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ خبروں کی حد تک تومجبوری کے تحت بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے ، مگرحقیقت میں یہ گروپ امپورٹ فلموں کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نوجوان فلم میکرزکا بھی مخالف ہے۔
ان کا مطالبہ توبس اتنا ہی ہے پاکستان کی غیرمعیاری فارمولا فلموںکوزبردستی سینما گھروں میں دکھایا جائے اوروہ فلم بین جوان کی ''شاہکار'' فلمیں دیکھنے کے بعد ہی سینما گھروں سے دورہوئے تھے ان کو دوبارہ سینماگھروں سے دورکرنے کیلئے ان کی ہی فلموں کا ''سہارا'' لیا جائے ۔ ''واضح رہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک سینئر ہدایتکارتواکثر مختلف پلیٹ فارمز پریہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم فارغ بیٹھے ہیں ، اگر سینما گھرتباہ ہوجاتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ''۔ کیونکہ رواں برس جدید ٹیکنالوجی سے بنائی جانیوالی فلمیں سینماگھروں کی زینت بننے کا شیڈول میڈیا کے پاس پہنچ چکا ہے۔ اب باتیں نہیں بلکہ عملی طورپرفلم میکنگ کرنا ہوگی۔
اس سلسلہ میں پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین اورمعروف ہدایتکارسیدنور نے بھی رواں برس چارفلمیں بنانے کااعلان کردیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر فلمسازی کا عمل شروع ہونے جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب سید نورنے اپنی چارفلموںکا اعلان کیا تواس میں انہوں نے اپنی گزشتہ کئی برسوں سے زیرتکمیل فلم ''پرائس آف آنر'' کی ریلیز کے شیڈول کابھی بتایا۔ اس فلم کا لوگوںکو برسوں سے انتظارہے ۔ کیونکہ سیدنور اکثرنجی محفلوں میں میڈیا نمائندگان اورفلمی محفلوں میں بھی اپنی اس فلم کاتذکرہ کرتے رہتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی مزید تین فلموں کی شوٹنگ اورنمائش کے شیڈول سے بھی آگاہ پریس کانفرنس میں میڈیا کو تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فلم میں نوجوان فنکاروں کوکام کرنے کا موقع دینگے۔ لیکن ان کی فلموں میں اداکارہ صائمہ نہ ہوں یہ توممکن نہیں ہے۔ ایک طرف توصائمہ باصلاحیت فنکارہ ہیں اوردوسری جانب سیدنور کی شریک حیات بھی ۔'' اس لئے ان کو میرٹ سے استثنیٰ حاصل ہے''۔ دیکھا جائے تو گزشتہ برس سینما گھروں پرریکارڈ بزنس کرنے والی پاکستانی فلموں میں فلمسٹارشان کے علاوہ ٹی وی کے متعدد فنکاروں کے علاوہ نوجوان فنکاروں نے اداکاری کے جوہردکھائے تھے اور ان فلموں کوتمام عمر کے لوگوں نے سینما گھروں میں دیکھا تھا۔ دوسری جانب سیدنورجن کی گزشتہ چند برسوں کے دوران فلمیں باکس آفس پرکامیاب بزنس نہیں کرسکی تھیں ، انہوں نے ایک مرتبہ پھر صائمہ پراعتماد کا اظہارکیا ہے۔
سیدنور کی پریس کانفرنس کے بعد فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوںکا کہنا تھا کہ جس طرح ہدایتکار شہزاد رفیق نے اپنی فلم ''عشق خدا'' میں پاکستان فلم کے معروف فنکاروں کے علاوہ مراکش سے تعلق رکھنے والی خوبرواداکارہ وائم عمار دھامنی کومتعارف کروایا تھا اسی طرح سیدنورکوبھی اپنی فلموں میں نوجوان فنکاروںکوکام کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ صائمہ ہمارے ملک کی بہترین اداکارہ ہیں لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہیں کہ وہ فلم کی ہیروئن کے طورپرکام کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ نوجوان ہیرواورہیروئنوںکو متعارف کروایا جائے۔ ہدایتکار شہزاد رفیق اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے بطورہدایتکاراپنی فلموں کے ذریعے بہت سے نوجوان فنکاروںکو کام کرنے کا موقع دیا ہے۔ اب وہ نئی فلم بنانے جارہے ہیں جس میں وہ ایک مرتبہ پھر سینئر فنکاروںکے ہمراہ نوجوان فنکاروں کوبھی متعارف کروائینگے جوپاکستان فلم انڈسٹری کی اولین ضرورت ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے بحران میں جانے کی وجوہات میں جہاں کہانیوں اورجدید ٹیکنالوجی کافقدان تھا وہیں فلموں میں معمول کے چہروںکودیکھ کربھی فلم بین سینما گھروں سے دورہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان سینما انڈسٹری تیزی کے ساتھ ملک بھر میں پھیل رہی ہے۔ بہت سے جدید طرز کے سینما گھر بن رہے ہیں اوربہت سے ویران سینماگھروں کی تزئین وآرائش کا عمل شروع ہوچکاہے۔ یہ ہر لحاظ سے خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ملک میں جس تیزی کیساتھ سینماکلچرتباہ ہوا تھا اب اسی تیزی کے ساتھ اس کی بحالی کا عمل جاری ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اب سینما گھروں کے کاروبار میں سرمایہ کاری کررہی ہے جبکہ فلمسازی کے شعبے میں بھی حیرت انگیزتبدیلی رواں برس میں ہم دیکھ سکیںگے۔ ایسے میں ہمارے ملک کے باصلاحیت سینئرفلم میکرز پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بقاء کیلئے ماضی کی غلطیوںکو دوبارہ نہ دہرائیں بلکہ ایسی فلمیں بنائیں جوموجودہ دورکے مطابق ہوں ۔ فلموں کے موضوعات اورمیوزک پرخاص توجہ دی جائے ۔
اگراب اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی ان بنیادی چیزوں پرتوجہ نہ دی گئی توپھرہمارے معروف سینئر ہدایتکاروںکی بقاء ممکن نہیں رہے گی۔ اس وقت ضروری ہے کہ پاکستانی فلم اورسینماانڈسٹری کی بحالی کیلئے آپسی اختلافات بھلا کرفلمساز، ہدایتکاراورفنکارمل کرکام کریں۔ ایک دوسرے پرتنقید کرنے کی بجائے اگر ایک دوسرے کے بہترکام کوسراہیں بلکہ ایک دوسرے دوسرے کی سپورٹ کریں ۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو پھرایک طرف توامپورٹ قوانین کے تحت بالی وڈسٹارز کی فلمیں سینماگھروں کی زینت بنتی رہیں گی اوردوسری جانب ہمارے نوجوان فلم میکرز جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بناتے ہوئے برسوں تک پاکستان فلم انڈسٹری پرراج کرنے والوں کوماضی کا حصہ بنا دینگے۔ اب یہ ذمہ داری سیدنوراور شہزادرفیق سمیت ان سب فلم میکرزپرآتی ہے کہ وہ ایسی فلمیں بنائیں جوموجودہ دورمیں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوں اورلوگوںکوانٹرٹین بھی کریں۔ وگرنہ نتائج کس قدرخوفناک ہونگے یہ آنیوالا وقت خود بتادے گا۔
گزشتہ کئی برسوں سے شدید بحران کے بھنورمیں پھنسی ہماری فلم انڈسٹری کی کشتی کونوجوان فنکاروں اورہدایتکاروں نے اپنی صلاحیتوں اورجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنا کربچانے کی کوشش توکی ہے ، لیکن اس کشتی کوشدید بحران کے طوفانوں میں پھنسانے والا ایک گروپ تاحال بہانے بہانے سے کشتی کوکنارے پرپہنچانے کی بجائے اس کودوبارہ بھنورکے قریب لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایک طرف تویہ گروپ امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی بالی وڈ سٹارز کی فلموں کی نمائش کی مخالفت کررہا ہے تودوسری جانب جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنا کرگزشتہ برس پاکستانی سینما کی تاریخ میں ریکارڈ کاروبارکرنے والی فلموں کے ہدایتکاروں کو بھی اپنا حصہ ماننے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ خبروں کی حد تک تومجبوری کے تحت بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے ، مگرحقیقت میں یہ گروپ امپورٹ فلموں کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نوجوان فلم میکرزکا بھی مخالف ہے۔
ان کا مطالبہ توبس اتنا ہی ہے پاکستان کی غیرمعیاری فارمولا فلموںکوزبردستی سینما گھروں میں دکھایا جائے اوروہ فلم بین جوان کی ''شاہکار'' فلمیں دیکھنے کے بعد ہی سینما گھروں سے دورہوئے تھے ان کو دوبارہ سینماگھروں سے دورکرنے کیلئے ان کی ہی فلموں کا ''سہارا'' لیا جائے ۔ ''واضح رہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک سینئر ہدایتکارتواکثر مختلف پلیٹ فارمز پریہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم فارغ بیٹھے ہیں ، اگر سینما گھرتباہ ہوجاتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ''۔ کیونکہ رواں برس جدید ٹیکنالوجی سے بنائی جانیوالی فلمیں سینماگھروں کی زینت بننے کا شیڈول میڈیا کے پاس پہنچ چکا ہے۔ اب باتیں نہیں بلکہ عملی طورپرفلم میکنگ کرنا ہوگی۔
اس سلسلہ میں پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین اورمعروف ہدایتکارسیدنور نے بھی رواں برس چارفلمیں بنانے کااعلان کردیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر فلمسازی کا عمل شروع ہونے جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب سید نورنے اپنی چارفلموںکا اعلان کیا تواس میں انہوں نے اپنی گزشتہ کئی برسوں سے زیرتکمیل فلم ''پرائس آف آنر'' کی ریلیز کے شیڈول کابھی بتایا۔ اس فلم کا لوگوںکو برسوں سے انتظارہے ۔ کیونکہ سیدنور اکثرنجی محفلوں میں میڈیا نمائندگان اورفلمی محفلوں میں بھی اپنی اس فلم کاتذکرہ کرتے رہتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی مزید تین فلموں کی شوٹنگ اورنمائش کے شیڈول سے بھی آگاہ پریس کانفرنس میں میڈیا کو تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فلم میں نوجوان فنکاروں کوکام کرنے کا موقع دینگے۔ لیکن ان کی فلموں میں اداکارہ صائمہ نہ ہوں یہ توممکن نہیں ہے۔ ایک طرف توصائمہ باصلاحیت فنکارہ ہیں اوردوسری جانب سیدنور کی شریک حیات بھی ۔'' اس لئے ان کو میرٹ سے استثنیٰ حاصل ہے''۔ دیکھا جائے تو گزشتہ برس سینما گھروں پرریکارڈ بزنس کرنے والی پاکستانی فلموں میں فلمسٹارشان کے علاوہ ٹی وی کے متعدد فنکاروں کے علاوہ نوجوان فنکاروں نے اداکاری کے جوہردکھائے تھے اور ان فلموں کوتمام عمر کے لوگوں نے سینما گھروں میں دیکھا تھا۔ دوسری جانب سیدنورجن کی گزشتہ چند برسوں کے دوران فلمیں باکس آفس پرکامیاب بزنس نہیں کرسکی تھیں ، انہوں نے ایک مرتبہ پھر صائمہ پراعتماد کا اظہارکیا ہے۔
سیدنور کی پریس کانفرنس کے بعد فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوںکا کہنا تھا کہ جس طرح ہدایتکار شہزاد رفیق نے اپنی فلم ''عشق خدا'' میں پاکستان فلم کے معروف فنکاروں کے علاوہ مراکش سے تعلق رکھنے والی خوبرواداکارہ وائم عمار دھامنی کومتعارف کروایا تھا اسی طرح سیدنورکوبھی اپنی فلموں میں نوجوان فنکاروںکوکام کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ صائمہ ہمارے ملک کی بہترین اداکارہ ہیں لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہیں کہ وہ فلم کی ہیروئن کے طورپرکام کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ نوجوان ہیرواورہیروئنوںکو متعارف کروایا جائے۔ ہدایتکار شہزاد رفیق اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے بطورہدایتکاراپنی فلموں کے ذریعے بہت سے نوجوان فنکاروںکو کام کرنے کا موقع دیا ہے۔ اب وہ نئی فلم بنانے جارہے ہیں جس میں وہ ایک مرتبہ پھر سینئر فنکاروںکے ہمراہ نوجوان فنکاروں کوبھی متعارف کروائینگے جوپاکستان فلم انڈسٹری کی اولین ضرورت ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے بحران میں جانے کی وجوہات میں جہاں کہانیوں اورجدید ٹیکنالوجی کافقدان تھا وہیں فلموں میں معمول کے چہروںکودیکھ کربھی فلم بین سینما گھروں سے دورہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان سینما انڈسٹری تیزی کے ساتھ ملک بھر میں پھیل رہی ہے۔ بہت سے جدید طرز کے سینما گھر بن رہے ہیں اوربہت سے ویران سینماگھروں کی تزئین وآرائش کا عمل شروع ہوچکاہے۔ یہ ہر لحاظ سے خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ملک میں جس تیزی کیساتھ سینماکلچرتباہ ہوا تھا اب اسی تیزی کے ساتھ اس کی بحالی کا عمل جاری ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اب سینما گھروں کے کاروبار میں سرمایہ کاری کررہی ہے جبکہ فلمسازی کے شعبے میں بھی حیرت انگیزتبدیلی رواں برس میں ہم دیکھ سکیںگے۔ ایسے میں ہمارے ملک کے باصلاحیت سینئرفلم میکرز پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بقاء کیلئے ماضی کی غلطیوںکو دوبارہ نہ دہرائیں بلکہ ایسی فلمیں بنائیں جوموجودہ دورکے مطابق ہوں ۔ فلموں کے موضوعات اورمیوزک پرخاص توجہ دی جائے ۔
اگراب اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی ان بنیادی چیزوں پرتوجہ نہ دی گئی توپھرہمارے معروف سینئر ہدایتکاروںکی بقاء ممکن نہیں رہے گی۔ اس وقت ضروری ہے کہ پاکستانی فلم اورسینماانڈسٹری کی بحالی کیلئے آپسی اختلافات بھلا کرفلمساز، ہدایتکاراورفنکارمل کرکام کریں۔ ایک دوسرے پرتنقید کرنے کی بجائے اگر ایک دوسرے کے بہترکام کوسراہیں بلکہ ایک دوسرے دوسرے کی سپورٹ کریں ۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو پھرایک طرف توامپورٹ قوانین کے تحت بالی وڈسٹارز کی فلمیں سینماگھروں کی زینت بنتی رہیں گی اوردوسری جانب ہمارے نوجوان فلم میکرز جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بناتے ہوئے برسوں تک پاکستان فلم انڈسٹری پرراج کرنے والوں کوماضی کا حصہ بنا دینگے۔ اب یہ ذمہ داری سیدنوراور شہزادرفیق سمیت ان سب فلم میکرزپرآتی ہے کہ وہ ایسی فلمیں بنائیں جوموجودہ دورمیں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوں اورلوگوںکوانٹرٹین بھی کریں۔ وگرنہ نتائج کس قدرخوفناک ہونگے یہ آنیوالا وقت خود بتادے گا۔