اجزائے ترکیبی

ایم قادر خان  اتوار 19 ستمبر 2021

دنیا کی ہر چیز بدلتی ہے ادب بھی حالات و ثقافت کے ساتھ بدلتا ہے، زمانے کی کروٹوں کے ساتھ فکشن نے بھی روپ بدلے۔ قصہ کہانی والی اصناف نے بھی کئی روپ دھارے، فکشن کے سفرکے تین حصے ہیں اور تینوں کی ایک خصوصیت مشترک ہے۔

قصہ کی فکشن کا انداز اس طرح ہونا چاہیے کہ قاری کی توجہ اس پر جمی رہے اور ہر لمحہ وہ یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ داستان سے ناول نے جنم لیا۔ ناول وسیع ہوتا ہے، تخلیق کار اور قاری دونوں سے اس کے مطالبے سخت ہیں۔ لہٰذا فکشن کے ایسے رخ کی تلاش ہو جس کے لکھنے اور پڑھنے میں کم جگریابی کرنی پڑے۔ اس تلاش کے نتیجے میں مختصر افسانہ وجود میں آیا ، اس میں پوری زندگی پیش کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس میں زندگی کے کسی رخ اور ایک پہلو سے سروکار ہوتا ہے۔

افسانے کے اجزائے ترکیبی ناول سے ملتے جلتے ہیں مگر افسانے کا پیمانہ چھوٹا ہوتا ہے۔ اس میں ایک لفظ بھی غیر ضروری نہ ہو کیونکہ اس سے افسانے میں جھول پیدا ہوجاتا ہے اور قاری کی توجہ مرکزی خیال پر مرکوز نہیں رہ پاتی۔ انتشار اور پراگندہ بیانی سے اعتراض افسانہ کی اثر پذیری کے لیے ضروری ہے۔ اچھے افسانے کی یہی شناخت ہے۔

چونکہ ناول کے مقابلے میں افسانے کا پیمانہ چھوٹا ہوتا ہے تو ایسا ہونے کے سبب افسانہ نگاری کی دشواریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ ناول نگار کو مختلف زاویوں سے کردار پر روشنی ڈالنے اور اجاگرکرنے کا موقع ملتا ہے ، جب کہ افسانہ نگار کردار کا کوئی ایک پہلو ہی کامیابی کے ساتھ پیش کرسکتا ہے۔ افسانہ نگار کو بڑی محنت کرکے کردارکو اس طرح تراشنا پڑتا ہے کہ وہ قاری کے دل میں گھر کرسکے۔ ناول کے مقابلے میں افسانہ میں کردار کی ارتقا دکھانے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ منشی پریم چند کے افسانے زیور کا ڈبہ،نمک کا داروغہ اور سعادت حسن منٹو کا ’’نیا قانون‘‘ اور ‘‘’بابو گوپی ناتھ‘‘اس کی اچھی مثالیں ہیں۔

اجزائے ترکیبی وہ نقطہ نظر ایک اچھا فنکار اپنا نقطہ نظر قاری پر تھوپتا نہیں ہے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کھل کر کچھ اپنی تخلیق کو اس طرح پیش کرے کہ فنکار کے دل کی بات خود بخود قاری کے دل میں آجائے۔ مثلاً سعادت حسن منٹو نے ہندو مسلم کش فسادات سے متعلق افسانے ’’سیاہ ہاشیے‘‘ اس طرح پیش کیے کہ قاری کو فرقہ پرستی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ منشی پریم چند کا ’’ نمک کا داروغہ ‘‘ پڑھ کر دل میں دیانت داری اور اصول پرستی کی قدریں بڑھ جاتی ہیں۔

اجزائے ترکیبی میں ماحول ، فضا مختصر افسانے میں اس کی بڑی اہمیت ہے فضا آخر یہی کامیاب افسانہ نگاری کے لیے اشد ضروری ہے، اس سے کہانی کے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ کرشن چندر نے اس تکنیک سے بہت کام لیا اپنے افسانوں میں اس سے مراد ماحول کی ایسی منظرکشی کی جائے کہ قاری کے دل پر اس کی کیفیت طاری ہو جائے۔

اگلا اجزائے ترکیبی ہے اسلوب۔ مختصر افسانہ کا فن غزل سے خاص ہم آہنگ ہے۔ جیسے غزل میں غیر ضروری الفاظ نہیں استعمال کرسکتے ، اسی طرح افسانے میں بھی بلامصرف بے معنی ایک لفظ کی بھی گنجائش نہیں، یہ کفایت لفظی کا فن ہے۔افسانے میں کفایت لفظی کا مطلب ہے کہ ہر غیر ضروری لفظ اور غیر ضروری قلم زد کردینا چاہیے۔ ایسے الفاظ و جملے جوافسانے کے آگے بڑھنے میں معاون نہ ہوں غیر ضروری ہیں۔ افسانے کا اسلوب موضوع کے مطابق ہونا چاہیے افسانہ کی زبان کو سادہ اور رواں ہونا چاہیے۔

آغاز و اختتام پر افسانہ کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہے آغاز ایسا ہو کہ قاری فوراً متوجہ ہو جائے اور جب کہانی ختم ہو تو اس طرح کہ پڑھنے والا اس کو مدتوں بھول نہ سکے۔ وحدت تاثر قاری پر افسانہ پر ایک کیفیت طاری ہو یہ نہ ہو کہ ابھی خوشی کی کیفیت اور تھوڑی دیر بعد ساری فضا سوگوار ہوگئی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔عالمی شہرت حاصل کرنے والوں میں ڈاکٹر جان گلکرائسٹ نے قصص مشرق نامی چھوٹی کتاب میں عوام میں مقبول چھوٹے قصوں کو جمع کیا۔

مولوی نذیر احمد نے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو ازسر نو لکھ کر ’’سخت الحکایات‘‘ کے نام سے پیش کیا مگر ان قصوں کو افسانہ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض لوگ راشدالخیری اور سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار کہا گیا ہے، اگر فنی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو منشی پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار قرار پاتے ہیں انھوں نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی۔ دھات کی زندگی اور مسائل حقیقت کو آسان زبان میں بیان کیا ، اسی زمانے میں نیاز فتح پوری، سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری نے بھی افسانے قلم بند کیے مگر ان میں رومانویت کا غلبہ تھا۔

افسانہ دراصل مغرب کی پیداوار ہے انیسویں صدی کے آغاز میں امریکا کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے اسکیچ بک لکھ کر افسانے کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد سیتھلن اتھان کے ہاتھوں افسانے نے فروغ پایا۔ ایڈیگریلین کا تیسرا اہم نام انھوں نے وحدت تاثر اور ہم آہنگی کو افسانے کے لیے لازم ٹھہرایا۔جلد ہی یہ ادبی تصنیف ہر طرف مقبول ہوگئی۔ امریکا، فرانس، انگلستان، روس میں بڑے بڑے افسانہ نگار پیدا ہوئے انھوں نے عالمگیر شہرت پائی۔

1936 میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوگیا تھا مولوی عبدالحق جیسے مدبر بزرگ اور منشی پریم چند جیسے عظیم فن کار کی حمایت حاصل تھی۔ اسی زمانے میں افسانے کا ایک مجموعہ ’’انگارے‘‘ شایع ہوا، اس میں رشید جہاں، احمد علی، سجاد ظہیر اور محمود ظفر کے افسانے شامل تھے چونکہ یہ فنکار حقیقت نگار تھے اور سماج میں تبدیلی کے خواہاں تھے لیکن فرنگی کو یہ تبدیلی پسند نہ تھی۔ اسی لیے ’’انگارے‘‘ جو افسانوں کا مجموعہ شایع ہوا تھا اس کو فرنگیوں نے ضبط کرلیا۔ حالانکہ فنی نقطہ نظر سے ان کہانیوں کو افسانہ نہیں کہا جاسکتا مگر اس کتاب کے اثرسے لوگوں کے دلوں میں عالمی سطح کے افسانہ نگاروں کی دلچسپی پیدا ہوئی اور اردو افسانہ میں موضوعات کا دائرہ وسیع ہوا۔

مختلف اصالیب یعنی طریقہ کار وجود میں آئے۔کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت بیگ چغتائی، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، حسن عسکری اور غلام عباس نے بہترین افسانے رقم کیے۔ افسانہ نگاروں کی دوسری نسل نے میدان میں قدم رکھا، ان میں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، حاجرہ مسرور اور خدیجہ منظور نے شہرت پائی۔ کرشن چندر نے ایسے افسانوں میں ترقی پسندی اور اشتراکیت کو فروغ دیا۔

راجندر سنگھ بیدی نے نفسیاتی افسانے لکھے، سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی نے جنسی موضوعات پر افسانے قلم بند کیے۔ ممتاز مفتی بین الاقوامی افسانہ نگاری سے متاثر ہوئے ، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس نے پنجاب کی علاقائی زندگی اور سماجی موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ بٹوارے نے افسانہ نگاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ان حالات نے افسانہ نگاروں کو بدل دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔