- مسلح ملزمان نے سابق ڈی آئی جی کے بیٹے کی گاڑی چھین لی
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
- کراچی ایئرپورٹ پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کا افتتاح،پہلی پرواز عازمین حج کو لیکر روانہ
- شمسی طوفان سے پاکستان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے، سپارکو
- سیاسی جماعتیں آپس میں بات نہیں کریں گی تو مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلاول
- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- جماعت اسلامی کا اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار
- بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکسز چھوٹ ختم کرنے کی تجویز
- پیچیدہ بیماری اور کلام پاک کی برکت
- آزاد کشمیر میں مظاہرین کا لانگ مارچ جاری، انٹرنیٹ سروس متاثر، رینجرز طلب
پی آئی اے؛ تلخ فیصلوں کی ضرورت
’’پی آئی اے کا رابطہ نمبر ہوگا آپ کے پاس؟‘‘ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔
’’خیریت عمران صاحب پی آئی اے کا رابطہ نمبر کیوں چاہیے؟‘‘
’’بھائی میری سالانہ چھٹی ہے اور سیٹ بک کروانی ہے۔‘‘
’’آپ پی آئی اے سے جائیں گے؟‘‘ میرے ساتھی نے حیرت سے پوچھا۔ ’’جی۔‘‘ میں نے مختصر جواب دے کر بات ختم کردی اور گوگل کی مدد سے پی آئی اے کا رابطہ نمبر حاصل کیا۔ مگر وہ نمبر کام نہیں کررہا تھا۔ میں نےایک ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کرکے نمبر حاصل کیا اور ٹکٹ کی بابت معاملات طے کیے۔ ڈیوٹی سے واپسی پر پی آئی اے آفس جانے کےلیے جس ٹیکسی میں سوار ہوا اس ڈرائیور نے بھی اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے مجھے اپنے ارادوں سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر میں پی آئی آفس کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب کو میں نے فون پر ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا اور ٹکٹ دینے کی درخواست کی لیکن میرے دوستوں کے خدشات درست ثابت ہوئے اور میں باہر سے ٹکٹ لینے پر مجبور ہوگیا۔
یہ 2019 کا واقعہ ہے۔ دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان کا سفر درپیش ہوا اور میرے اند چونکہ حب الوطنی کا کیڑا ابھی تک زندہ ہے اس لیے میں ایک بار پھر پی آئی اے کے دفتر کی جانب گامزن تھا۔ لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ سیلز آفس کا عملہ ہر کسی سے اچھے طریقے سے پیش آرہا تھا۔ میری باری آنے پر کاؤنٹر پر موجود اسٹاف نے نہ صرف فون پر ہونے والی گفتگو کو قبول کیا بلکہ اچھے طریقے سے تمام معلومات بھی فراہم کیں۔
آپ عمران خان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ایک بات بہرحال تسلیم کریں گے کہ انہوں نے تجربہ نہ ہونے کے باوجود اداروں کو ٹھیک کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ضرور کی ہے۔ پی آئی اے اس کی بہترین مثال ہے۔ عین ممکن ہے کہ موجودہ پی آئی اے سربراہ کی تعیناتی میں قانونی تقاضے نظر انداز کیے گئے ہوں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ سربراہ کے آنے سے تبدیلی آئی ہے۔ اگر انہیں بھی ماضی طرح نئی حکومت نے تبدیل نہ کیا تو تبدیلی کا یہ عمل جاری رہے گا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کی نمبر ون ایئر لائن ایمریٹس کے موجودہ چیئرمین اور صدر ان دس افراد میں شامل تھے جنہوں نے 1985 میں ادارے کی بنیاد رکھی۔ ایمریٹس کا زیادہ تر عملہ ان افراد پر مشتمل ہے جو ابتدا سے ادارے کا حصہ ہیں یا جن کی تربیت بنیاد رکھنے والوں نے کی تھی۔ جبکہ ہمارے ہاں سربراہ اور اسٹاف تیزی سے بدلتے رہے اور رزلٹ آپ کے سامنے ہے کہ وہ ایئرلائن جس نے دنیا کی کامیاب ترین ایئرلائنز کو کھڑا کیا، آج اپنی بقا کےلیے قوم کے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کی محتاج ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی آئی اے کی بحالی کےلیے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے۔ پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنے کےلیے قابل افراد کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ بار بار تبدیلی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ادارے کی بہتری کےلیے عملے میں کمی، یونینز کا خاتمہ، معیار پر سمجھوتہ نہ کرنا، ادارے کو پارٹی ورکروں کی آماجگاہ بنانے کے بجائے قابل افراد کی بھرتی جیسے اقدامات کے ساتھ ادارے کو نجی ادارے کی طرز پر چلایا جائے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سنہرے دن لوٹ آئیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔