مہنگائی پر قابو پانا حکومت کی اولین ذمے داری
عام آدمی کے مسائل کاحل صرف حکومت کے پاس ہی ہے اورعوام کومہنگائی سے نجات دلانا جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری بنتی ہے۔
عام آدمی کے مسائل کاحل صرف حکومت کے پاس ہی ہے اورعوام کومہنگائی سے نجات دلانا جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری بنتی ہے۔ فوٹو: فائل
لاہور:
حکومت نے پندرہ روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے مطابق پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں چھ روپے فی لٹرکمی کا امکان تھا، خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کی بجائے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پرعائد پٹرولیم لیوی میں چار روپے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق نومبر میں افراط زر کی شرح 11.5 فی صد ریکارڈ کی گئی جو اکیس ماہ میں بلند ترین سطح ہے، کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) تین فیصد رہا جو پچھلے ساڑھے تیرہ سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح گزشتہ ماہ ہول سیل پرائس انڈیکس ستائیس فی صد تک پہنچ گیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں قیمتیں بدستور بلند رہیں گی۔
تازہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اشیاء کی قیمتوں پر سے حکومت کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے اور مختلف مافیاز اپنی من مانی کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی بحران پیدا کرکے منافع کما رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کے لیے گزر بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک میں مہنگائی میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اقتصادی پالیسیوں میں ملک کے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اس کے اثرات براہ راست غریب عوام پر پڑتے ہیں ،ملک میں اقتصادی پالیسیاں ایسی بنائی جا رہی ہیں کہ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا ،ملک کے طاقتور طبقے اپنے مفادات کو ان پالیسیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔یہ طبقے قومی دولت لوٹتے ، قرضے لیتے اور بعد میں پارلیمان میں اپنے ان قرضوں کو معاف کروا لیتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کار، مزدور، کاریگر سب کام چھوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جتنا سرمایہ اور محنت وہ لگاتے ہیں اتنا اس کا منافع حاصل نہیں ہوتا لہذا وہ کسی اور ذریعہ سے پیسہ کمانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے، اسی طرح روپے کی قدر میں تیزی سے ہوتی کمی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں حالیہ عرصے کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا۔
حکومتی وزرامہنگائی کے حوالے سے اپنی پریس کانفرنسوں میں دلائل بھی دیتے رہتے ہیں ، لیکن عام لوگ کیا کریں، کہاں جائیں؟ کس دروازے پر دستک دیں۔حکومت نے چینی پر کمیشن بٹھایا، بہت دعوے ہوئے، کسی ایک کا بھی محاسبہ نہیں ہوا اور چینی کی قیمت بڑھتی ہی چلی گئی۔
گندم اسکینڈل پر کمیٹی بنی، رپورٹ آئی،کسی کا محاسبہ نہیں ہوا اور آٹا عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا۔ ایل این جی پہ کمیٹی بنی۔پتہ نہیں اس کا کیا بنا لیکن بجلی کی قیمت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب تو اتنے بھاری بل آرہے ہیں کہ اچھی خاصی آمدنی رکھنے والوں کے لیے بھی ان کی ادائیگی مشکل ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر کمیٹی بنی، کوئی فرق نہ پڑا۔ اس دوران بے روزگاری کا سیلاب بھی بے قابو ہو چکا ہے۔ خود حکومت کی ایک تازہ رپورٹ نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق روزگار کے قابل 70 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، آپ انھیں ستر لاکھ کا خاندان سمجھیں۔ ان بے روزگاروں میں 12 فی صد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں بیس اور چوبیس سال کے درمیان رہیں۔
عالمی بینک کے مطابق اس وقت 40 فیصد پاکستانی، اس کے معیار کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں یعنی ان کی تعداد آٹھ کروڑ سے زائد ہے، گزشتہ حکومت کے دنوں میں یہ شرح 25 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
ہر طرف آٹا،چینی اور دوسری ضروریات زندگی نے غریب عوام کا بھرکس نکال دیا ہے، عوام کی زبان پر بس ایک ہی لفظ ہے مہنگائی مہنگائی۔ ہمارا ملک جو کہ ایک زرعی ملک کہلاتا ہے،جس کا دارومدار زراعت پر ہے، لیکن اس ملک کی زرعی پیداوار اتنی بھی نہیں ہے کہ عوام کی غذائی ضروریات پوری ہوسکیں، دوسری جانب ہماری زرعی پیداوار کا ایک بڑا حصہ افغانستان اسمگل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں اشیائے خورونوش کی قلت ملک میں پیدا ہوجاتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے۔
ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام اور زرخیز ترین زمین ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ کوئی بھی حکومت ایک کامیاب زرعی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے ، کیونکہ حکومت سرے سے زراعت کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے ۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے ختم نہ ہونے کے آثار نے ہر شخص کو مشکل میں ڈال رکھا ہے خاتون خانہ ہے تو وہ پریشان ہے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، علاج معالجے اور دیگر ضروریات زندگی سے لے کر باورچی خانے اور تعلیمی اخراجات حد سے بڑھ گئے ہیں۔ مزدور کی مزدوری گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔
غریب کا تو برا حال ہے ہی امیر بھی مہنگائی کے اثرات سے محفوظ نہیں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گاڑی مالکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر درمیانی طبقہ جوملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے، بری طرح پریشان ہے۔
بچوں کے تعلیمی اخراجات،گھریلو ضروریات، علاج معالجے کے اخراجات کا خرچ ایک تنخواہ میں کہاں سے پورا کریں۔آج کے دور میں دو دو نوکریاں کرکے بھی لوگوں کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے، پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ بھی مہنگائی کا سبب بنتی ہے، اس لیے ایسے معاشی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جن سے روپے کی ساکھ مضبوط ہو سکے، اس کے علاوہ ملک میں کرپشن بھی اقتصادی مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، حکومت اسے کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد قابو پالیا جائے گا کیونکہ جب تک معاشرہ کرپشن فری نہیں ہوتا، تب تک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
ہمیں بڑھتی آبادی کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، دولت کی غیر مساوی تقسیم پر قابو پانے کے لیے حکومت کو کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی اور اجتماعی مفادات کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔
ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اس میں حکومت کی بے حکمتی کا بڑا ہاتھ ہے، ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنا کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، اس کے پاس اپنی کوئی معاشی ٹیم ہی نہیں تھی، لہٰذا معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد سے ٹیکنو کریٹس آزمائے جانے لگے۔ عملاً نتیجہ وہی نکلا جو آئے دن نیا ڈاکٹر یا حکیم تبدیل کر لینے والے مریض کا ہوتا ہے۔
ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ توجہ احتساب کے عمل پر دی۔مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم یا صحت کے بجائے اس نے کرپشن کو اپنی سب سے بڑی اور پہلی ترجیح بنایااب مسئلہ یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ہر انسان کو چاہیے۔
اور کچھ بھی نہیں تو وہ یہ روٹی شاید پانی کے ایک دو پیالوں کے ساتھ نگل کر ہی پیٹ بھر لے، لیکن یہ روٹی بھی کروڑوں لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ جو چکی آٹا پچھلی حکومت کے خاتمے کے وقت 35 روپے کلو مل رہا تھا، آج اس کی قیمت 80 روپے کلو سے زائد ہو چکی ہے۔ عام درجے کے آٹے کا 20 کلو کا تھیلا اب 1200 روپے تک پہنچ گیا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں اس کی قیمت اور بھی زیادہ وصول کی جا رہی ہے۔ جب آٹا ہی دسترس میں نہ رہے تو غریب آدمی کہاں جائے؟
غربت میں اضافے کی ایک وجہ سماجی بے ایمانی اورعوام کا غیر ذمے دارانہ رویہ بھی ہے۔ ایک طبقہ بے ایمانی اور غیر منصفانہ طریقے سے دولت کے حصول کے لیے سرگرم ہے،معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے،اس بے یقینی کی کیفیت نے معاشرے میں منفی سوچ کو بڑھاوا دیا ہے،قوم اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہے،کام کرنے والے لوگ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے،ٹیکسوں کی ادائیگی نہ کرنے،مسلسل قانون کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھتے ہیں،یہ غیر ذمے دارانہ رویہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے،جو قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر مسائل کے حل پر مکمل طور پر غور ہی نہیں کیا جاتا اور ایک نئی پالیسی کا اعلا ن کر دیا جاتا ہے، بھاری ٹیکس لگا کر عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے،مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے، خصوصی طور پر صحت و علاج، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
حکومت نے پندرہ روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے مطابق پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں چھ روپے فی لٹرکمی کا امکان تھا، خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کی بجائے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پرعائد پٹرولیم لیوی میں چار روپے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق نومبر میں افراط زر کی شرح 11.5 فی صد ریکارڈ کی گئی جو اکیس ماہ میں بلند ترین سطح ہے، کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) تین فیصد رہا جو پچھلے ساڑھے تیرہ سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح گزشتہ ماہ ہول سیل پرائس انڈیکس ستائیس فی صد تک پہنچ گیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں قیمتیں بدستور بلند رہیں گی۔
تازہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اشیاء کی قیمتوں پر سے حکومت کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے اور مختلف مافیاز اپنی من مانی کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی بحران پیدا کرکے منافع کما رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کے لیے گزر بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک میں مہنگائی میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اقتصادی پالیسیوں میں ملک کے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اس کے اثرات براہ راست غریب عوام پر پڑتے ہیں ،ملک میں اقتصادی پالیسیاں ایسی بنائی جا رہی ہیں کہ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا ،ملک کے طاقتور طبقے اپنے مفادات کو ان پالیسیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔یہ طبقے قومی دولت لوٹتے ، قرضے لیتے اور بعد میں پارلیمان میں اپنے ان قرضوں کو معاف کروا لیتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کار، مزدور، کاریگر سب کام چھوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جتنا سرمایہ اور محنت وہ لگاتے ہیں اتنا اس کا منافع حاصل نہیں ہوتا لہذا وہ کسی اور ذریعہ سے پیسہ کمانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے، اسی طرح روپے کی قدر میں تیزی سے ہوتی کمی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں حالیہ عرصے کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا۔
حکومتی وزرامہنگائی کے حوالے سے اپنی پریس کانفرنسوں میں دلائل بھی دیتے رہتے ہیں ، لیکن عام لوگ کیا کریں، کہاں جائیں؟ کس دروازے پر دستک دیں۔حکومت نے چینی پر کمیشن بٹھایا، بہت دعوے ہوئے، کسی ایک کا بھی محاسبہ نہیں ہوا اور چینی کی قیمت بڑھتی ہی چلی گئی۔
گندم اسکینڈل پر کمیٹی بنی، رپورٹ آئی،کسی کا محاسبہ نہیں ہوا اور آٹا عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا۔ ایل این جی پہ کمیٹی بنی۔پتہ نہیں اس کا کیا بنا لیکن بجلی کی قیمت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب تو اتنے بھاری بل آرہے ہیں کہ اچھی خاصی آمدنی رکھنے والوں کے لیے بھی ان کی ادائیگی مشکل ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر کمیٹی بنی، کوئی فرق نہ پڑا۔ اس دوران بے روزگاری کا سیلاب بھی بے قابو ہو چکا ہے۔ خود حکومت کی ایک تازہ رپورٹ نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق روزگار کے قابل 70 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، آپ انھیں ستر لاکھ کا خاندان سمجھیں۔ ان بے روزگاروں میں 12 فی صد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں بیس اور چوبیس سال کے درمیان رہیں۔
عالمی بینک کے مطابق اس وقت 40 فیصد پاکستانی، اس کے معیار کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں یعنی ان کی تعداد آٹھ کروڑ سے زائد ہے، گزشتہ حکومت کے دنوں میں یہ شرح 25 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
ہر طرف آٹا،چینی اور دوسری ضروریات زندگی نے غریب عوام کا بھرکس نکال دیا ہے، عوام کی زبان پر بس ایک ہی لفظ ہے مہنگائی مہنگائی۔ ہمارا ملک جو کہ ایک زرعی ملک کہلاتا ہے،جس کا دارومدار زراعت پر ہے، لیکن اس ملک کی زرعی پیداوار اتنی بھی نہیں ہے کہ عوام کی غذائی ضروریات پوری ہوسکیں، دوسری جانب ہماری زرعی پیداوار کا ایک بڑا حصہ افغانستان اسمگل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں اشیائے خورونوش کی قلت ملک میں پیدا ہوجاتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے۔
ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام اور زرخیز ترین زمین ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ کوئی بھی حکومت ایک کامیاب زرعی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے ، کیونکہ حکومت سرے سے زراعت کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے ۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے ختم نہ ہونے کے آثار نے ہر شخص کو مشکل میں ڈال رکھا ہے خاتون خانہ ہے تو وہ پریشان ہے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، علاج معالجے اور دیگر ضروریات زندگی سے لے کر باورچی خانے اور تعلیمی اخراجات حد سے بڑھ گئے ہیں۔ مزدور کی مزدوری گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔
غریب کا تو برا حال ہے ہی امیر بھی مہنگائی کے اثرات سے محفوظ نہیں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گاڑی مالکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر درمیانی طبقہ جوملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے، بری طرح پریشان ہے۔
بچوں کے تعلیمی اخراجات،گھریلو ضروریات، علاج معالجے کے اخراجات کا خرچ ایک تنخواہ میں کہاں سے پورا کریں۔آج کے دور میں دو دو نوکریاں کرکے بھی لوگوں کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے، پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ بھی مہنگائی کا سبب بنتی ہے، اس لیے ایسے معاشی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جن سے روپے کی ساکھ مضبوط ہو سکے، اس کے علاوہ ملک میں کرپشن بھی اقتصادی مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، حکومت اسے کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد قابو پالیا جائے گا کیونکہ جب تک معاشرہ کرپشن فری نہیں ہوتا، تب تک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
ہمیں بڑھتی آبادی کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، دولت کی غیر مساوی تقسیم پر قابو پانے کے لیے حکومت کو کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی اور اجتماعی مفادات کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔
ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اس میں حکومت کی بے حکمتی کا بڑا ہاتھ ہے، ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنا کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، اس کے پاس اپنی کوئی معاشی ٹیم ہی نہیں تھی، لہٰذا معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد سے ٹیکنو کریٹس آزمائے جانے لگے۔ عملاً نتیجہ وہی نکلا جو آئے دن نیا ڈاکٹر یا حکیم تبدیل کر لینے والے مریض کا ہوتا ہے۔
ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ توجہ احتساب کے عمل پر دی۔مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم یا صحت کے بجائے اس نے کرپشن کو اپنی سب سے بڑی اور پہلی ترجیح بنایااب مسئلہ یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ہر انسان کو چاہیے۔
اور کچھ بھی نہیں تو وہ یہ روٹی شاید پانی کے ایک دو پیالوں کے ساتھ نگل کر ہی پیٹ بھر لے، لیکن یہ روٹی بھی کروڑوں لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ جو چکی آٹا پچھلی حکومت کے خاتمے کے وقت 35 روپے کلو مل رہا تھا، آج اس کی قیمت 80 روپے کلو سے زائد ہو چکی ہے۔ عام درجے کے آٹے کا 20 کلو کا تھیلا اب 1200 روپے تک پہنچ گیا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں اس کی قیمت اور بھی زیادہ وصول کی جا رہی ہے۔ جب آٹا ہی دسترس میں نہ رہے تو غریب آدمی کہاں جائے؟
غربت میں اضافے کی ایک وجہ سماجی بے ایمانی اورعوام کا غیر ذمے دارانہ رویہ بھی ہے۔ ایک طبقہ بے ایمانی اور غیر منصفانہ طریقے سے دولت کے حصول کے لیے سرگرم ہے،معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے،اس بے یقینی کی کیفیت نے معاشرے میں منفی سوچ کو بڑھاوا دیا ہے،قوم اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہے،کام کرنے والے لوگ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے،ٹیکسوں کی ادائیگی نہ کرنے،مسلسل قانون کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھتے ہیں،یہ غیر ذمے دارانہ رویہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے،جو قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر مسائل کے حل پر مکمل طور پر غور ہی نہیں کیا جاتا اور ایک نئی پالیسی کا اعلا ن کر دیا جاتا ہے، بھاری ٹیکس لگا کر عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے،مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے، خصوصی طور پر صحت و علاج، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
درحقیقت حکومت ایک بڑی طاقت ہے اگر متعلقہ حکام اور متعلقہ سرکاری محکمے ، اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہیں تو یہ کچھ بھی مشکل نہیں، کیونکہ عام آدمی کے مسائل کا حل صرف حکومت کے پاس ہی ہے، اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری بنتی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے مہنگائی پر قابو پانے کے فوری اورعملی اقدامات اٹھائے گی اور عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے گی۔