کراچی ادبی میلے میں دوسرے دن مجالس اور تقاریب کا انعقاد
غازی صلاح الدین، احفاظ الرحمن، پرویز ہود بائی، اے ایچ نئیر، کشور ناہید کی تقاریب میں گفتگو
کراچی ادبی میلے میں انگریزی میں پاکستانی ناول کے حوالے سے مجلس میں بینا شاہ، عظمیٰ اسلم خان، شندھنا منہاس، میڈیلین شریک ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس
کراچی ادبی میلہ دوسرے دن بھی اہل کراچی کی توجہ کا مرکز رہا،آکسفورڈیونیورسٹی پریس کے تحت جاری کراچی ادبی میلے میں عوام کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔
میلے میں فنون لطیفہ اورادب سے متعلق تقاریب میں مقررین نے کہاکہ اس طرح کے میلوں سے عوام میں کتاب بینی کا شوق بڑھے گا، تفصیلات کے مطابق ادبی میلے کے دوسرے دن مختلف عنوانات پر مشتمل 30 مجالس ہوئیں، دوسرے دن میلے میں فکشن کے عنوان سے مونی محسن، نکیتا لالوانی،منیزہ شمسی،نکیش شکلانے گفتگو کی، دوسری مجلس میں اعلیٰ تعلیم کے موضوع پر پرویزہودبائی کا کہنا تھا کہ ہماری جامعات نے لاتعداد ڈاکٹر اور پروفیسرز متعارف کرائے لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں کتنے لوگ واقعی علم جانتے ہیں،تیسری مجلس میں رضارومی کی کتاب ''دہلی بائے ہٹ'' کی رونمائی ہوئی جبکہ انگریزی شاعری پر گفتگو کی گئی، شہناز احسن الدین نے کہا کہ شاعر مصور ہوتا ہے وہ اپنے الفاظ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔
میلے میں تاریخی حریف اورموجودہ دوست کے موضوع پر سیمینار سے خطاب میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان اوربھارت کے مسائل کاحل سفارت کاروں کے پاس نہیں بلکہ قلمکاروں کے پاس ہے، فیسٹول میں مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کی کتاب ''پنجاب تاریخ کے آئینے میں اورنگزیب سے مائونٹ بیٹن تک'' کی تقریب پذیرائی میں راج موہن گاندھی نے کہاکہ میرا کتاب لکھنے کامقصدکسی کی حمایت یا تنقید نہیں بلکہ لوگوں کو تاریخ کے اصل حقائق سے آگاہ کرناہے، میلے میں ''پاکستان میں قوم پرستی اورانتہا پسندی کا خاتمہ'' کے عنوان سے سیمینار سے خطاب میں جاویدجبار نے کہا کہ دو قومی نظریہ ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ 2 ریاستوں کے نظریے ناکام ہوگئے ہیں، انتہاپسندی کے خاتمے کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے،میلے میں قوالی موسیقی اورصوفی شاعری کی روایت کے عنوان سے مجلس ہوئی جس میں محمود جمال اور ثروت محی الدین نے حضرت امیر خسروسے لیکردورحاضرتک قوالی کی تاریخ پرروشنی ڈالی گئی۔
انگریزی زبان میں پاکستانی ناول بین الاقوامی نمائندگی اورمقامی قبولیت کے عنوان سے مجلس سے اعظمی اسلم خان، ایچ ایم نقوی، بیناشاہ اور دیگرنے خطاب کیا،معاشرتی اقدارکے خدوخال درسی کتابوں کاکردارکے عنوان سے مجلس میں اے ایچ نئیر نے کہاکہ ہمارانصاب فرسودہ ہوچکا ہے اسے دورجدیدکے مطابق وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان روشن خیال بن سکیں اورانکی تخلیقی صلاحیتیں اجاگرہوں، میلے کی ایک مجلس میں ایکسپریس کے میگزین ایڈیٹراحفاظ الرحمن نے کہاکہ صحافتی سرگرمیوں کوجبرسے دبایا نہیں جاسکتا، ہم اپنے احساسات کوشاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نوجوان قلم کار خرم سہیل کی رضا علی عابدی پر تحریر کتاب ''قلم سے آواز تک'' کی تقریب رونمائی ہوئی، خرم سہیل نے کتاب غازی صلاح الدین اوررضاعلی عابدی کو پیش کی،دوسرے دن کی تقاریب کا اختتام آپ بیتی جگ بیتی خواتین اورخودنوشت کے عنوان سے سیمینار پر ہوا، کشور ناہید، عطیہ دائود اور عذرا عباس نے سیمینار میں گھریلواورملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پرروشنی ڈالی، ادبی میلے میں ادیبوں کی سیکڑوں بیش بہا کتابوں کا خزانہ موجود ہے جس نے ادب کے دلدادہ افرادکے چہروں پرخوشیاں بکھیردی ہیں، میلے میں امریکی قونصل جنرل مائیکل ڈاڈ مین اور کئی ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی، سفارت کاروں نے ادبی میلے کوشہر کے موجودہ ماحول میں تفریح کااہم ذریعہ قراردیا۔
میلے میں فنون لطیفہ اورادب سے متعلق تقاریب میں مقررین نے کہاکہ اس طرح کے میلوں سے عوام میں کتاب بینی کا شوق بڑھے گا، تفصیلات کے مطابق ادبی میلے کے دوسرے دن مختلف عنوانات پر مشتمل 30 مجالس ہوئیں، دوسرے دن میلے میں فکشن کے عنوان سے مونی محسن، نکیتا لالوانی،منیزہ شمسی،نکیش شکلانے گفتگو کی، دوسری مجلس میں اعلیٰ تعلیم کے موضوع پر پرویزہودبائی کا کہنا تھا کہ ہماری جامعات نے لاتعداد ڈاکٹر اور پروفیسرز متعارف کرائے لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں کتنے لوگ واقعی علم جانتے ہیں،تیسری مجلس میں رضارومی کی کتاب ''دہلی بائے ہٹ'' کی رونمائی ہوئی جبکہ انگریزی شاعری پر گفتگو کی گئی، شہناز احسن الدین نے کہا کہ شاعر مصور ہوتا ہے وہ اپنے الفاظ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔
میلے میں تاریخی حریف اورموجودہ دوست کے موضوع پر سیمینار سے خطاب میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان اوربھارت کے مسائل کاحل سفارت کاروں کے پاس نہیں بلکہ قلمکاروں کے پاس ہے، فیسٹول میں مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کی کتاب ''پنجاب تاریخ کے آئینے میں اورنگزیب سے مائونٹ بیٹن تک'' کی تقریب پذیرائی میں راج موہن گاندھی نے کہاکہ میرا کتاب لکھنے کامقصدکسی کی حمایت یا تنقید نہیں بلکہ لوگوں کو تاریخ کے اصل حقائق سے آگاہ کرناہے، میلے میں ''پاکستان میں قوم پرستی اورانتہا پسندی کا خاتمہ'' کے عنوان سے سیمینار سے خطاب میں جاویدجبار نے کہا کہ دو قومی نظریہ ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ 2 ریاستوں کے نظریے ناکام ہوگئے ہیں، انتہاپسندی کے خاتمے کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے،میلے میں قوالی موسیقی اورصوفی شاعری کی روایت کے عنوان سے مجلس ہوئی جس میں محمود جمال اور ثروت محی الدین نے حضرت امیر خسروسے لیکردورحاضرتک قوالی کی تاریخ پرروشنی ڈالی گئی۔
انگریزی زبان میں پاکستانی ناول بین الاقوامی نمائندگی اورمقامی قبولیت کے عنوان سے مجلس سے اعظمی اسلم خان، ایچ ایم نقوی، بیناشاہ اور دیگرنے خطاب کیا،معاشرتی اقدارکے خدوخال درسی کتابوں کاکردارکے عنوان سے مجلس میں اے ایچ نئیر نے کہاکہ ہمارانصاب فرسودہ ہوچکا ہے اسے دورجدیدکے مطابق وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان روشن خیال بن سکیں اورانکی تخلیقی صلاحیتیں اجاگرہوں، میلے کی ایک مجلس میں ایکسپریس کے میگزین ایڈیٹراحفاظ الرحمن نے کہاکہ صحافتی سرگرمیوں کوجبرسے دبایا نہیں جاسکتا، ہم اپنے احساسات کوشاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نوجوان قلم کار خرم سہیل کی رضا علی عابدی پر تحریر کتاب ''قلم سے آواز تک'' کی تقریب رونمائی ہوئی، خرم سہیل نے کتاب غازی صلاح الدین اوررضاعلی عابدی کو پیش کی،دوسرے دن کی تقاریب کا اختتام آپ بیتی جگ بیتی خواتین اورخودنوشت کے عنوان سے سیمینار پر ہوا، کشور ناہید، عطیہ دائود اور عذرا عباس نے سیمینار میں گھریلواورملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پرروشنی ڈالی، ادبی میلے میں ادیبوں کی سیکڑوں بیش بہا کتابوں کا خزانہ موجود ہے جس نے ادب کے دلدادہ افرادکے چہروں پرخوشیاں بکھیردی ہیں، میلے میں امریکی قونصل جنرل مائیکل ڈاڈ مین اور کئی ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی، سفارت کاروں نے ادبی میلے کوشہر کے موجودہ ماحول میں تفریح کااہم ذریعہ قراردیا۔