کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 5 دسمبر 2021
آئنہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو؛
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو۔ فوٹو : فائل

آئنہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو؛ اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو۔ فوٹو : فائل

غزل
آئنہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو
ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے، رحم نہیں
اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے، بھیک نہ ہو
مجھے تم ایسے اجاڑو، کہ کئی نسلوں تک
آنے والوں کو مرے عشق کی تحریک نہ ہو
تجھ کو اک شخص ملے، جو کبھی تجھ کو نہ ملے
تجھ کو اک زخم لگے اور کبھی ٹھیک نہ ہو
پھونک اس دل پہ کوئی ذکر کہ تاعمرِ تمام
روشنی دیتا رہے بجھ کے بھی تاریک نہ ہو
چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے
دل سے کچھ ایسے نکالو مری تضحیک نہ ہو
(آزاد حسین آزاد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے
جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے
ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا
ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے
تری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے
مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے
پھر ایک عمر سزا کاٹنی پڑی مجھ کو
نظر ملائی تھی سورج سے لمحہ بھر میں نے
سخن وری بھی تو اک انت ذمہ داری ہے
میں سوچتی ہوں لیا کیوں یہ دردِ سَر میں نے
بھگت رہی ہوں نئی زندگی کا خمیازہ
کہ اپنے ہاتھوں سے کاٹے ہیں اپنے پَر میں نے
میرے لیے تو وہ سایہ بھی دھوپ تھا بلقیسؔ
تلاش جس کو کیا تھا شجر شجر میں نے
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل
وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی
اور خبر اس بار بھی اک حاشیہ ہو جائے گی
اپنے گہنے بیچ کر جو ماں نے سونپی تھی مجھے
کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہو جائے گی
اُن چراغ آنکھوں کے آگے ایک دن تم دیکھنا
میری ہستی ایک بھجتا سا دیا ہو جائے گی
ہم تو سمجھے تھے کہ تیری فرقتیں احساس ہیں
اب یہ جانا عمر ساری اک خلا ہو جائے گی
پھر پکاریں گے صحیفے بے بصر انصاف کو
پھر حیات ِ مضمحل اک سانحہ ہو جائے گی
پھر سلاسل بج اُٹھیں گے منصفوں کے درمیاں
پھرسزا کچھ ملزموں کو بے خطا ہو جائے گی
بھوک کی فصلیں اُگانے والو اک دن دیکھنا
یہ زمیں خلد ِ بریں کا آئینہ ہو جائے گی
تو اسیری میں تھی ایماں جس طلسم ِ ذات کی
تہنیت اب اُس فسوں سے تو رہا ہو جائے گی
(ایمان قیصرانی ۔ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی
اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی
ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے
ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی
زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں
مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی
اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے
اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی
ان جھیلوں میں پریاں روز اترتی ہیں
آنکھوں میں تالاب نہیں ہوتے بھائی
سوچیں ہیں جو دوڑ دوڑ کے تھکتی ہیں
تھکے ہوئے اعصاب نہیں ہوتے بھائی
(مستحسن جامی، خوشاب)

۔۔۔
غزل
فرازِ دار کو ذوقِ جنوں تلاش کرے
یہ دل کہ تیری نظر کا فسوں تلاش کرے
سکون کے لیے پہلے نظر نظر سے ملے
نظر ملا کے یہ دل پھر سکوں تلاش کرے
کسی نے زہد کیا اور تو کوئی مست ہوا
جسے تو یوں نہیں ملتا وہ یوں تلاش کرے
لو آج رمزِ نہاں کو عیاں کروں کہ بشر
بروں پہ ثبت ہے تختی دروں تلاش کرے
تمام شہر شجر بھیڑیوں کے جیسا ہے
ہر ایک پیاس بجھانے کو خوں تلاش کرے
(مزمل عباس شجر۔اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
کمبخت پہلے آنکھ کو سپنے دکھاتی ہے
پھر دل لگی نصیب کو سولی چڑھاتی ہے
حیرت کا ہے مقام یہ دوشیزہ ننگے سر
چادر چڑھانے پیر کی تربت پہ جاتی ہے
پنجرے میں بیٹھی چڑیا سے لیتا ہوں درس میں
مجھ کو ہوا کے دوش پہ اڑنا سکھاتی ہے
جب بھی میں سوچتا ہوں کہ میں خود کشی کروں
غصے سے زندگی مجھے آنکھیں دکھاتی ہے
کرتا ہوں جب سوال کہ مجھ کو دیا ہے کیا
شرمندگی سے زندگی آنکھیں چراتی ہے
درشن کی اک سبیل کا کچھ اہتمام ہو
اب تشنگیٔ چشم تو بڑھتی ہی جاتی ہے
(ظفراقبال عدم۔ کروڑ لعل عیسن)

۔۔۔
غزل
مت پوچھ فقیروں سے کہ کیا دیکھ رہے ہیں
ہم چشم تصور میں خدا دیکھ رہے ہیں
آنکھوں کو کیے بیٹھے ہیں ہم بند مگر دوست
نظارہ زمانے سے جدا دیکھ رہے ہیں
ملاں کے فتاوی سے پریشان نہیں ہیں
ہم صوفی ہیں یزداں کی ادا دیکھ رہے ہیں
ان آنکھوں پہ اللہ کی ہے خاص عنایت
ہر روز کوئی جلوہ نیا دیکھ رہے ہیں
دعوی نہیں ہرگز یہ شریعت کے منافی
من جانب اللہ بجا دیکھ رہے ہیں
کیا سمجھیں گے سرکارؔ تصرف کی حدیں آپ
جو ہو گا یہاں اور جو ہوا دیکھ رہے ہیں
(روفی سرکار۔ ملتان)

۔۔۔
غزل
خوشی قرار سکوں سب گنوائے بیٹھے ہیں
تمھارے نام پہ سب کچھ لٹائے بیٹھے ہیں
تمھارے ظلم و ستم کے ستائے بیٹھے ہیں
امید نظرِ کرم کی لگائے بیٹھے ہیں
خوشی نہیں نہ سہی غم ہی ڈال جھولی میں
ترے فقیر ترے در پہ آئے بیٹھے ہیں
یہاں پر اپنے سوا کوئی بھی کسی کا نہیں
ہر ایک شخص کو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
گلہ نہیں ہے کسی سے ہمیں کوئی واسخ
خود اپنے ہاتھوں گھر اپنا جلائے بیٹھے ہیں
(وسیم اکرم سیمی۔ ہری پور ہزارہ)

۔۔۔
غزل
خونِ دل ہوتا رہا تلخیٔ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ؟
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں ترے انکار کے ساتھ
کون پونچھے گا مری آنکھ سے بہتے آنسو؟
کون سینے سے لگائے گا مجھے پیار کے ساتھ
روزِ اوّل سے غلامی کا شرف بخشا گیا
روزِ اوّل سے ہے نسبت مری سرکار کے ساتھ
میری فطرت میں وفا رکھی گئی ہے امجد
کس طرح ہاتھ ملاتا کسی غدار کے ساتھ
(حسین امجد۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
یہ جو آہٹیں ہیں ادھر ادھر سبھی کُن کا دائمی ساز ہے
وہی جاودانِ جہاں جسے ذرا فہمِ سوز و گداز ہے
ہے جو لاشعور کا آئینہ کبھی کر تو اس کا بھی سامنا
کبھی جان لا کا یہ مرحلہ، ترا عکس عکسِ مجاز ہے
نہ ہو منحرف ارے بے خبر کبھی اپنی ذات پہ غور کر
یہ وجودِ خاک ہے لمحہ بھر، یہاں کس کی عمر دراز ہے
یونہی دربدر کی صعوبتیں تری اپنی سوچ کی ظلمتیں
اسی دَر پہ کھول یہ کلفتیں جو ازل سے بندہ نواز ہے
یہاں ہر بشر ہے تماش بیں، کوئی نکتہ داں کوئی نکتہ چیں
جو خلوصِ دل سے ہو کچھ قریں ترا ہر عمل وہ نماز ہے
یہ سجیل زیست کا مرحلہ ہے تغیرات کے زاویہ
تھا جو خط کبھی ہوا دائرہ، جو نشیب تھا وہ فراز ہے
(سجیل قلزم۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
مل کے خود سے نہ ہم رہے تنہا
اب نہ کوئی ہمیں کہے تنہا
چاند کا درد تم نہ سمجھو گے
تم ہمیشہ نہیں رہے تنہا
وقت اچھا کٹے گا دونوں کا
ویسے رہنا ہے تو، رہے تنہا
بند کمروں میں بھی سکون نہیں
اور کتنا کوئی رہے تنہا
بات دل کی نہیں ہے کہتا وہ
ایسے رہنا ہے تو رہے تنہا
آدمی ایسا کوئی ہو سالمؔ
بات دل کی جسے کہے تنہا
(سالِم احسان۔ گوجرانولہ)

۔۔۔
غزل
جو پوچھا عشق کا بولا ،’’کروں گی‘‘
وفا ہے شرط تو وعدہ، کروں گی
بھلا کب سانس پہ پہرے لگے ہیں
تجھے ہر وقت ہی سوچا کروں گی
اثاثے بانٹ لیتے ہیں برابر
تم ہنسنا اور میں رویا کروں گی
گھڑی اوقات میں رکھا کرے گی
میں گجرے، چوڑیوں کا کیا کروں گی؟
بس اک تصویر ہی شافی رہے گی
مصیبت میں جسے دیکھا کروں گی
بھلے سندیس تو بھیجے نا بھیجے
ہواؤں سے ترا پوچھا کروں گی
تری تکمیل سے مشروط ہے تو
میں اپنے آپ کو آدھا کروں گی
انہیں میں خامشی سے مات دوں گی
جنہیں لگتا تھا میں جھگڑا کروں گی
(ثروت مختار ۔بھکر)

۔۔۔
’’ویرانی‘‘
مگر اے دل
مگر اے شہرِ دل
تُو کیوں فصیلِ درد سے
باہر نہیں آتا
بتا مجھ کو
تری یہ خستہ حالی کیوں نہیں جاتی
تجھے جتنا سنواروں
تیری ویرانی نہیں جاتی
مگر اے دل
مگر اے شہرِ دل
(سارہ خان، راولپنڈی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔