سیاسی منظر نامہ
وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے
وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو : فائل)
سیاسی رہنما ایک ہی جست میں سیاسی اور انتخابی جوڑ توڑ میں مصروف ہوگئے ہیں، ایک طرف حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کوششوں میں رابطے ، ملاقاتیں اور عہد و پیمان میں تیزی آگئی ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے آزمائے ہوئے کنگ میکرزکو مذاکراتی عمل کے میدان میں بھیج دیا ہے، اتحادیوں کو منوانے اور اپنے ساتھ ملانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کے لیے سیاسی جادوگری کا سارے گر آزمائے جانے لگے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ارکان کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں ، ظہرانے اور ڈنر دیے جارہے ہیں، سیاسی دشمنیوں کو یاد کرنے یا بھلانے کے لیے سیاسی بیٹھکیں لگائی جا رہی ہیں ، یوں لگتا ہے کہ مہنگائی ، بھوک ، غربت اور بیروزگاری سے نڈھال عوام کا چیپٹرکلوز ہونے کے بعد اب سیاسی سرگرمیوں کے نئے راؤنڈ کے لیے سیاسی کارکنوں کی ضرورت پڑے گی۔
سیاسی جغادریوں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست دو نیم تو ہو چکی ہے ،کیونکہ سیاسی مرکزیت منقسم ہوچکی ہے، معیشت کسی منزل پر پہننے سے پہلے تھک ہارکر بیٹھ گئی، عوام کو روزگار، ریلیف دینے والے اپنی نئی ذمے داریوں کے لیے وقت نکالیں گے، عوام کا کوئی والی وارث نہیں ہے، ایک سسٹم سے جڑی قوم ہوتی توکبھی بھی ٹکڑوں میں منقسم ہوکر بے منزل اور بے مراد نہ ہوتی۔ یہ اس قوم کا المیہ ہے کہ اسے ابھی تک اپنے رہنما اور رہبر سے شناسائی کا موقع نہیں ملا۔ بقول شخصے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز روکے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
قوم مہنگائی ، بیروزگاری، بے نام سی ملکی اقتصادیات ، تجارت، کاروبار، اسٹاک ایکسچینج، کورونا کیسز ، اومیکرون کے خطرات وغیرہ کو بھلا کر کرکٹ کے میچز اور ٹی وی ڈراموں میں مشغول ہوگئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام کے بارے میں اکثرکہا جاتا تھا کہ حکومت کو نہ معلوم کیوں یہ قلبی اطمینان تھا کہ لاکھ اپوزیشن جلسے جلوس کر لے، لانگ مارچ کی دھمکیاں دے، عدم اعتماد کی تحریک لے آئے، لیکن عوام کو سڑکوں پر لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
حکمرانوں اور وزرا کے اطمینان ، بے نیازی اور ملکی سیاست کے نشیب وفراز سے بے خبری کے ماہرین کئی اسباب بتاتے ہیں۔ عوام کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سیاسی مسائل اور اندوہ ناک صورتحال سے بیگانگی اور سنگدلانہ لاتعلقی پر تجزیہ کاروں نے ہمیشہ اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ عوام سیاست ، حکمرانوں اور ملکی معاملات سے بیزاری کی حد تک خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا انداز نظر عموماً سسٹم سے بیزاری، اکتاہٹ اور برہمی سے پیدا کردہ فکری، نفسیاتی، سیاسی سراسیمگی اور بے حسی کے معنوں میں لیا جانے لگا تھا، سیاسی طور پر ایسی صورتحال کو کسی بھی ملک کی سیاست ، معیشت، تجارت ، سفارت اورمعمولات حیات کے لیے ہولناک سمجھا جاتا ہے، بلاشبہ ملکی سیاست اور معیشت نے جتنی کروٹیں لی ہیں۔
ان میں زندگی کی رمق نہ ہونے کے برابر تھی، چنانچہ ملک کے سنجیدہ حلقوں نے قومی زندگی کے بارے میں یاسیت، پژمردگی، مایوسی اور بحرانی صورتحال کے بارے میں شدید تشویش ظاہر کی ہے لیکن حکمرانوں نے قوم کو ایک پرامید مستقبل ، توانا سیاسی صورتحال اور مستحکم معیشت کی آرزو سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا ، اور اسی میں تقریباً چار سال گزر گئے۔
حکومت نے کوئی بریک تھرو نہیں کیا ، عوام منتظر فردا رہے، فہمیدہ نظر لوگ ملکی سیاسی صورتحال پر مضطرب نظر آئے، انھیں اس بات پر رنج بھی ہوا کہ ملکی رہنماؤں کو ایک بنیادی تبدیلی کے لیے اپنے وعدہ کا خیال بھی نہیں آیا اور پلوں کے نیچے سے پانی بہتا ہی رہا۔
وقت اسی طرح کب تک چلتا رہے گا، ملک کو کوئی سسٹم ، نظام خیال اور فکر و نظر کی سربلندی بام ثریا تک لے جاتی ہے، ایک انقلاب قوم کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے، عوام سوچتے ہیں اور اقوام عالم میں اپنا مقام ڈھونڈ لیتی ہے ، لیکن حکمران کسی بند گلی میں پھنس گئے شاید اس سوال کا جواب قوم سیاست دوراں سے معلوم کرنا چاہتی ہے، سیاست دان ملکی صورتحال کی گھمبیرتا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میںکرپٹ ٹولہ ذاتی مفاد کی سیاست کر رہا ہے۔ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے اوپن اینڈ شٹ کیسز ہیں، ان کی کرپشن پر خاموش رہنا جرم ہے۔
وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے، تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت ہے عوام کے پاس پی ٹی آئی کے سوا کوئی بہتر آپشن نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور پارٹی ترجمانوں کے الگ الگ اجلاس ہوئے۔ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو دورہ چین پر اعتماد میں لیا۔
سی ای سی اجلاس میں پنجاب اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا، بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے طریقہ کار پر بھی مشاورت ہوئی، بڑے شہروں میں میئرز کے لیے ناموں کی تجاویز پر غورکیا گیا ساتھ ہی وزیر اعظم نے عوامی جلسوں کا شیڈول تیارکرنے کی ہدایت دی۔
عمران خان نے کہا بلدیاتی انتخابات کے لیے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو منظم کیا جائے، ہمارے کارکنان پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں، بلدیاتی انتخابات میں میرٹ پر ٹکٹیں تقسیم کی جائیں گی۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ قائد اعظم (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور قائم مقام گورنر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے تحریک عدم اعتماد کے لیے حمایت مانگ لی۔ آصف زرداری نے چوہدری برادران سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ وفاقی وزراء طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، ایم این اے سالک حسین، شافع حسین اور رخسانہ بنگش بھی شریک تھے۔
اس دوران ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ آصف زرداری کا استقبال چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور سالک حسین نے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقعے پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ہمارے پرانے تعلقات ہیں، یہ تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔
آصف علی زرداری نے کہا حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث تمام اپوزیشن عدم اعتماد پر متفق ہے، اس پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ سیاسی معاملات پر آیندہ بھی مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ آصف زرداری نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کمال سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ چوہدری برادران وضع دار سیاستدان ہیں جو درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے میاں نوازشریف کی قیادت پر واضح اور غیر مشروط اعتماد کا اظہار کیا ہے اور انھیں تمام فیصلوں کا اختیار دے دیا ہے ، میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پی ڈی ایم کا اجلاس فوری بلانے اور حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتمادسمیت تمام ممکنہ آپشنز کے استعمال کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت کر دی۔
(ن) لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ورچوئل اجلاس کی صدارت لندن سے قائد نوازشریف اور لاہور سے پارٹی صدر شہباز شریف نے کی، اجلاس میں پارٹی کی سینئر قیادت، مرکزی عہدیدار، صوبائی صدور، جنرل سیکریٹری اور سی ای سی کے اراکین شریک ہوئے۔
اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سمیت تمام قانونی،آئینی راستے بنانے کے لیے فیصلوں کا اختیار نواز شریف کو دے دیاگیا ، اجلاس میں حکومت کو ہٹانے کے لیے تمام ممکنہ آپشنز پر غور کرتے ہوئے پارٹی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہارکیا گیا، نوازشریف نے شہباز شریف کو پی ڈی ایم کا اجلاس فوری بلانے اور حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد سمیت قانونی راستے اختیار کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت کی۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جب بھی بیساکھیاں ہٹیں گی عدم اعتماد آ جائے گا۔
سعودی وزیر داخلہ پرنس عبدالعزیز بن سعود بن نائف اپنا دورہ پاکستان مکمل کرکے وطن واپس روانہ ہوگئے ۔سعودی وزیر داخلہ نے اپنے دورے کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، سعودی وزیر داخلہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عوام کی سطح پر رابطے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سعودی عرب کی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے، انھوں نے پاکستان کو دی جانے والی حالیہ مالیاتی امداد پر بھی سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔
سعودی عرب کے خلاف حوثی ملیشیا کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ بعد ازاں سعودی وزیر داخلہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔
علاوہ ازیں گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹررضا باقر نے کہا کہ حکومت کے لیے مہنگائی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنا دو اہم چیلنجز ہیں، فہمیدہ عناصر کو دکھ اس بات کا ہے کہ چیلنجز کے بیچ منجدھار میں اب عوام کو منزل کا پتا کون دے گا؟
سیاسی مبصرین کے مطابق ارکان کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں ، ظہرانے اور ڈنر دیے جارہے ہیں، سیاسی دشمنیوں کو یاد کرنے یا بھلانے کے لیے سیاسی بیٹھکیں لگائی جا رہی ہیں ، یوں لگتا ہے کہ مہنگائی ، بھوک ، غربت اور بیروزگاری سے نڈھال عوام کا چیپٹرکلوز ہونے کے بعد اب سیاسی سرگرمیوں کے نئے راؤنڈ کے لیے سیاسی کارکنوں کی ضرورت پڑے گی۔
سیاسی جغادریوں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست دو نیم تو ہو چکی ہے ،کیونکہ سیاسی مرکزیت منقسم ہوچکی ہے، معیشت کسی منزل پر پہننے سے پہلے تھک ہارکر بیٹھ گئی، عوام کو روزگار، ریلیف دینے والے اپنی نئی ذمے داریوں کے لیے وقت نکالیں گے، عوام کا کوئی والی وارث نہیں ہے، ایک سسٹم سے جڑی قوم ہوتی توکبھی بھی ٹکڑوں میں منقسم ہوکر بے منزل اور بے مراد نہ ہوتی۔ یہ اس قوم کا المیہ ہے کہ اسے ابھی تک اپنے رہنما اور رہبر سے شناسائی کا موقع نہیں ملا۔ بقول شخصے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز روکے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
قوم مہنگائی ، بیروزگاری، بے نام سی ملکی اقتصادیات ، تجارت، کاروبار، اسٹاک ایکسچینج، کورونا کیسز ، اومیکرون کے خطرات وغیرہ کو بھلا کر کرکٹ کے میچز اور ٹی وی ڈراموں میں مشغول ہوگئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام کے بارے میں اکثرکہا جاتا تھا کہ حکومت کو نہ معلوم کیوں یہ قلبی اطمینان تھا کہ لاکھ اپوزیشن جلسے جلوس کر لے، لانگ مارچ کی دھمکیاں دے، عدم اعتماد کی تحریک لے آئے، لیکن عوام کو سڑکوں پر لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
حکمرانوں اور وزرا کے اطمینان ، بے نیازی اور ملکی سیاست کے نشیب وفراز سے بے خبری کے ماہرین کئی اسباب بتاتے ہیں۔ عوام کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سیاسی مسائل اور اندوہ ناک صورتحال سے بیگانگی اور سنگدلانہ لاتعلقی پر تجزیہ کاروں نے ہمیشہ اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ عوام سیاست ، حکمرانوں اور ملکی معاملات سے بیزاری کی حد تک خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا انداز نظر عموماً سسٹم سے بیزاری، اکتاہٹ اور برہمی سے پیدا کردہ فکری، نفسیاتی، سیاسی سراسیمگی اور بے حسی کے معنوں میں لیا جانے لگا تھا، سیاسی طور پر ایسی صورتحال کو کسی بھی ملک کی سیاست ، معیشت، تجارت ، سفارت اورمعمولات حیات کے لیے ہولناک سمجھا جاتا ہے، بلاشبہ ملکی سیاست اور معیشت نے جتنی کروٹیں لی ہیں۔
ان میں زندگی کی رمق نہ ہونے کے برابر تھی، چنانچہ ملک کے سنجیدہ حلقوں نے قومی زندگی کے بارے میں یاسیت، پژمردگی، مایوسی اور بحرانی صورتحال کے بارے میں شدید تشویش ظاہر کی ہے لیکن حکمرانوں نے قوم کو ایک پرامید مستقبل ، توانا سیاسی صورتحال اور مستحکم معیشت کی آرزو سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا ، اور اسی میں تقریباً چار سال گزر گئے۔
حکومت نے کوئی بریک تھرو نہیں کیا ، عوام منتظر فردا رہے، فہمیدہ نظر لوگ ملکی سیاسی صورتحال پر مضطرب نظر آئے، انھیں اس بات پر رنج بھی ہوا کہ ملکی رہنماؤں کو ایک بنیادی تبدیلی کے لیے اپنے وعدہ کا خیال بھی نہیں آیا اور پلوں کے نیچے سے پانی بہتا ہی رہا۔
وقت اسی طرح کب تک چلتا رہے گا، ملک کو کوئی سسٹم ، نظام خیال اور فکر و نظر کی سربلندی بام ثریا تک لے جاتی ہے، ایک انقلاب قوم کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے، عوام سوچتے ہیں اور اقوام عالم میں اپنا مقام ڈھونڈ لیتی ہے ، لیکن حکمران کسی بند گلی میں پھنس گئے شاید اس سوال کا جواب قوم سیاست دوراں سے معلوم کرنا چاہتی ہے، سیاست دان ملکی صورتحال کی گھمبیرتا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میںکرپٹ ٹولہ ذاتی مفاد کی سیاست کر رہا ہے۔ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے اوپن اینڈ شٹ کیسز ہیں، ان کی کرپشن پر خاموش رہنا جرم ہے۔
وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے، تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت ہے عوام کے پاس پی ٹی آئی کے سوا کوئی بہتر آپشن نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور پارٹی ترجمانوں کے الگ الگ اجلاس ہوئے۔ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو دورہ چین پر اعتماد میں لیا۔
سی ای سی اجلاس میں پنجاب اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ وزیر اعظم نے بلدیاتی انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا، بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے طریقہ کار پر بھی مشاورت ہوئی، بڑے شہروں میں میئرز کے لیے ناموں کی تجاویز پر غورکیا گیا ساتھ ہی وزیر اعظم نے عوامی جلسوں کا شیڈول تیارکرنے کی ہدایت دی۔
عمران خان نے کہا بلدیاتی انتخابات کے لیے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو منظم کیا جائے، ہمارے کارکنان پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں، بلدیاتی انتخابات میں میرٹ پر ٹکٹیں تقسیم کی جائیں گی۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ قائد اعظم (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور قائم مقام گورنر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے تحریک عدم اعتماد کے لیے حمایت مانگ لی۔ آصف زرداری نے چوہدری برادران سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ وفاقی وزراء طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، ایم این اے سالک حسین، شافع حسین اور رخسانہ بنگش بھی شریک تھے۔
اس دوران ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ آصف زرداری کا استقبال چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور سالک حسین نے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقعے پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ہمارے پرانے تعلقات ہیں، یہ تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔
آصف علی زرداری نے کہا حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث تمام اپوزیشن عدم اعتماد پر متفق ہے، اس پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ سیاسی معاملات پر آیندہ بھی مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ آصف زرداری نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کمال سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ چوہدری برادران وضع دار سیاستدان ہیں جو درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے میاں نوازشریف کی قیادت پر واضح اور غیر مشروط اعتماد کا اظہار کیا ہے اور انھیں تمام فیصلوں کا اختیار دے دیا ہے ، میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پی ڈی ایم کا اجلاس فوری بلانے اور حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتمادسمیت تمام ممکنہ آپشنز کے استعمال کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت کر دی۔
(ن) لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ورچوئل اجلاس کی صدارت لندن سے قائد نوازشریف اور لاہور سے پارٹی صدر شہباز شریف نے کی، اجلاس میں پارٹی کی سینئر قیادت، مرکزی عہدیدار، صوبائی صدور، جنرل سیکریٹری اور سی ای سی کے اراکین شریک ہوئے۔
اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سمیت تمام قانونی،آئینی راستے بنانے کے لیے فیصلوں کا اختیار نواز شریف کو دے دیاگیا ، اجلاس میں حکومت کو ہٹانے کے لیے تمام ممکنہ آپشنز پر غور کرتے ہوئے پارٹی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہارکیا گیا، نوازشریف نے شہباز شریف کو پی ڈی ایم کا اجلاس فوری بلانے اور حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد سمیت قانونی راستے اختیار کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت کی۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جب بھی بیساکھیاں ہٹیں گی عدم اعتماد آ جائے گا۔
سعودی وزیر داخلہ پرنس عبدالعزیز بن سعود بن نائف اپنا دورہ پاکستان مکمل کرکے وطن واپس روانہ ہوگئے ۔سعودی وزیر داخلہ نے اپنے دورے کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، سعودی وزیر داخلہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عوام کی سطح پر رابطے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سعودی عرب کی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے، انھوں نے پاکستان کو دی جانے والی حالیہ مالیاتی امداد پر بھی سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔
سعودی عرب کے خلاف حوثی ملیشیا کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ بعد ازاں سعودی وزیر داخلہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔
علاوہ ازیں گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹررضا باقر نے کہا کہ حکومت کے لیے مہنگائی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنا دو اہم چیلنجز ہیں، فہمیدہ عناصر کو دکھ اس بات کا ہے کہ چیلنجز کے بیچ منجدھار میں اب عوام کو منزل کا پتا کون دے گا؟