ون ویلرز کے نام
قوم افراد کے مرنے سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ تب ختم ہوتی ہے جب نوجوان اپنی حیثیت، شناخت، اور احساسِ ذمہ داری کھو دیتے ہیں۔
لاہور میں ایک نوجوان ون ویلنگ کے ذریعے اپنا کرتب دکھا رہا ہے۔ فوٹو: پی پی آئی
قوم افراد کے مرنے سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ تب ختم ہوتی ہے جب نوجوان اپنی حیثیت، شناخت، اور احساسِ ذمہ داری کھو دیتے ہیں۔ جب یہ چیزیں نوجوانوں سے ختم ہونے لگتی ہیں توفطرت ان سے دور ہوتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے قوم کے معما ر اوچھے ہتھکنڈوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔آج ہمارے نوجوان ان چیزوںکو اپنے ہاتھوںسے گنوا رہے ہیں اور جن فضول کاموں کو فروغ مل رہا ہے اُن میں ایک جان لیوا کھیل ون ویلنگ بھی شامل ہے۔
ایک ٹائر ہوا میں لہرا کر دوسرے ٹائر پر موٹر سائیکل چلانے کے پُر خطر کھیل کو ون ویلنگ کہتے ہیں۔ ون ویلر وہ کام کرتے ہیں جو عام شخص سوچ کرڈرتا ہے۔ اُن کی بہادری کو داد، کیوں کہ وہ کسی کی فرمائش اور کسی انعام ولالچ کے بغیر یہ ساراکرتب کرنے کے بعد مڑ کر داد بھی وصول نہیں کرتے۔ون ویلر بلا معاوضہ لوگوں کو انٹرٹین کرتے پُرہجوم سڑک سے پُر سکون مسافروں کے درمیان سے گزرجاتے ہیں اور کوئی اُن کو دادرسّی کے دولفظ بھی نہیں کہتا۔اِس سارے تناظر کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں آپ کو ایک واقع بتانا چاہتا ہوں۔
ایک دفعہ میں دوستوں کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہا تھا کہ اچانک دو نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوا سی تیزی سے ہمارے پاس سے گزرے۔تقریباً تمام لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوے۔گوہ کام توبُرا تھالیکن ہر شخص پَل بھر کے لیے مخظوظ ضرور ہوا۔ وقتی طور پرہر کوئی اپنی اپنی ذاتی اُلجھنیں، پریشانیاں چھوڑ کراُن کی جانب متوجہ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں لڑکے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ابھی ہم لوگوں کی احساس ذمہ داری اور اُن لڑکوں کی لا پرواہی پر بات ہی کر رہے تھے کہ تھوڑی آگے جا کر دیکھاکہ سڑک پر دو لڑکے خون میں لت پت پڑے تھے۔میں نے فورا گاڑی سے اتر کر دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ وہی لڑکے تھے جو ابھی ابھی بہت سے لوگو ں کی لعن دھن کے سائے میںآگے بڑھے تھے۔
دونوں لڑکے اپنی موٹرسائیکل بے قابو ہو جانے کی وجہ سے فٹ پاتھ سے ٹکرا گئے تھے، موٹر سائیکل ایک طرف اور دونوں سڑک کے بیچ و بیچ زخمی پڑے تھے، میرا ایک دوست نے آگے بڑھ کر ایک لڑکے کو تھاما اور میں دوسرے کی طرف لپکا جو فٹ پاتھ کے اوپر پڑا تھا، اُس کے منہ سے مسلسل دوسرے دوست کا نام نکل رہا تھا،میں نے اُس کا سر اپنی گود میں رکھا، تو وہ دوسرے کو آواز دینے لگا کہ اُسے جگائو،اُسے اٹھاؤ، پانی دو اُس کو۔ چند لمحوں میں ہی بہت سے لوگ وہا ں جمع ہوئے۔انسانی ہمدردی کے باعث سب پریشان تھے۔کسی نے 1122 پر کال کی،کچھ لوگوں نے سڑک پر رکنے والی گاڑیوں کو ایک طرف کر کے ریسکیو کی گاڑی کے لیے راستہ بنوایا، اتفاقیہ طور پر ریسکیو کی گاڑی بھی 5منٹ میں وہاں پہنچ گئی۔
اُن دونوں لڑکوں کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی ، ریسکیو کے عملے نے فورا انہیں گاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی جانب لے گئے۔ ہم بھی اُن کے پیچھے اسپتال پہنچ گئے۔وہاں پتہ چلا کی اُن میں سے ایک کا شناختی کارڈ ملا ہے جس کی عمر 19 سال ہے جب کہ دوسرا بھی اسی عمر کا تھا۔ دل پر ایسی کرب ناک چوٹ لگی کہ وہاں سے ہٹنے کو مان ہی نہیں رہا تھا۔
آئی سی یو کے دروازے کے باہر کھڑے میرا ذہن ان دونوں لڑکوں کے گھر والوں کا خیال آیا کہ اِن میں سے کسی ایک لڑکے کی ماں کھانا پکا کر بیٹے کا انتظار کر رہی ہو گی اور جب اسے اس حادثے کا علم ہوگا تو اس پر کیا گزرے گی؟ ہوسکتا کہ دوسرے لڑکے کی بہن اپنے کسی کام میں مدد کے لئے بھائی کا راہ تک رہی ہو گی اب اُس کا کام کون کرے گا۔باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو اِس حالت میں دیکھے گا تو اُس پر کیسی دکھ کی گھڑی ہو گی۔ کہا ں گیا اِن کا فن؟ کوئی مہارت کام نہ آسکی۔وہ گرفت، شاتردماغی، بہادری، خوداعتمادی سب کی سب خون میں بہ کر ون ویلنگ کے منہ پر تمانچہ مار رہی تھی۔
گوہ کہ یہ کام دیدودلیروں کا ہے لیکن سمت غلط ہے۔ ہزاروں موٹر سائیکل ڈرایوروں میںصرف چند ایک ون ویلر ہوتے ہیں۔اگر یہ اپنی سمت درست کر لیں تو اِن نوجوانوں کا مقابلہ مشکل ہو۔ ایسے جوشیلے نوجوانوں کی ملک و قوم کو بہت ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے بہادر جوان ملک کی عزت، شان، وقار کی سلامتی کے لیے صفِ اوّل میںدشمن کی انکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت رکھتے ہیں اور اگر یہ صحیح سمیت کا تعین کریں تو انہیں دنیا انہیں اپنا نام روشن کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک ٹائر ہوا میں لہرا کر دوسرے ٹائر پر موٹر سائیکل چلانے کے پُر خطر کھیل کو ون ویلنگ کہتے ہیں۔ ون ویلر وہ کام کرتے ہیں جو عام شخص سوچ کرڈرتا ہے۔ اُن کی بہادری کو داد، کیوں کہ وہ کسی کی فرمائش اور کسی انعام ولالچ کے بغیر یہ ساراکرتب کرنے کے بعد مڑ کر داد بھی وصول نہیں کرتے۔ون ویلر بلا معاوضہ لوگوں کو انٹرٹین کرتے پُرہجوم سڑک سے پُر سکون مسافروں کے درمیان سے گزرجاتے ہیں اور کوئی اُن کو دادرسّی کے دولفظ بھی نہیں کہتا۔اِس سارے تناظر کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں آپ کو ایک واقع بتانا چاہتا ہوں۔
ایک دفعہ میں دوستوں کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہا تھا کہ اچانک دو نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوا سی تیزی سے ہمارے پاس سے گزرے۔تقریباً تمام لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوے۔گوہ کام توبُرا تھالیکن ہر شخص پَل بھر کے لیے مخظوظ ضرور ہوا۔ وقتی طور پرہر کوئی اپنی اپنی ذاتی اُلجھنیں، پریشانیاں چھوڑ کراُن کی جانب متوجہ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں لڑکے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ابھی ہم لوگوں کی احساس ذمہ داری اور اُن لڑکوں کی لا پرواہی پر بات ہی کر رہے تھے کہ تھوڑی آگے جا کر دیکھاکہ سڑک پر دو لڑکے خون میں لت پت پڑے تھے۔میں نے فورا گاڑی سے اتر کر دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ وہی لڑکے تھے جو ابھی ابھی بہت سے لوگو ں کی لعن دھن کے سائے میںآگے بڑھے تھے۔
دونوں لڑکے اپنی موٹرسائیکل بے قابو ہو جانے کی وجہ سے فٹ پاتھ سے ٹکرا گئے تھے، موٹر سائیکل ایک طرف اور دونوں سڑک کے بیچ و بیچ زخمی پڑے تھے، میرا ایک دوست نے آگے بڑھ کر ایک لڑکے کو تھاما اور میں دوسرے کی طرف لپکا جو فٹ پاتھ کے اوپر پڑا تھا، اُس کے منہ سے مسلسل دوسرے دوست کا نام نکل رہا تھا،میں نے اُس کا سر اپنی گود میں رکھا، تو وہ دوسرے کو آواز دینے لگا کہ اُسے جگائو،اُسے اٹھاؤ، پانی دو اُس کو۔ چند لمحوں میں ہی بہت سے لوگ وہا ں جمع ہوئے۔انسانی ہمدردی کے باعث سب پریشان تھے۔کسی نے 1122 پر کال کی،کچھ لوگوں نے سڑک پر رکنے والی گاڑیوں کو ایک طرف کر کے ریسکیو کی گاڑی کے لیے راستہ بنوایا، اتفاقیہ طور پر ریسکیو کی گاڑی بھی 5منٹ میں وہاں پہنچ گئی۔
اُن دونوں لڑکوں کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی ، ریسکیو کے عملے نے فورا انہیں گاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی جانب لے گئے۔ ہم بھی اُن کے پیچھے اسپتال پہنچ گئے۔وہاں پتہ چلا کی اُن میں سے ایک کا شناختی کارڈ ملا ہے جس کی عمر 19 سال ہے جب کہ دوسرا بھی اسی عمر کا تھا۔ دل پر ایسی کرب ناک چوٹ لگی کہ وہاں سے ہٹنے کو مان ہی نہیں رہا تھا۔
آئی سی یو کے دروازے کے باہر کھڑے میرا ذہن ان دونوں لڑکوں کے گھر والوں کا خیال آیا کہ اِن میں سے کسی ایک لڑکے کی ماں کھانا پکا کر بیٹے کا انتظار کر رہی ہو گی اور جب اسے اس حادثے کا علم ہوگا تو اس پر کیا گزرے گی؟ ہوسکتا کہ دوسرے لڑکے کی بہن اپنے کسی کام میں مدد کے لئے بھائی کا راہ تک رہی ہو گی اب اُس کا کام کون کرے گا۔باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو اِس حالت میں دیکھے گا تو اُس پر کیسی دکھ کی گھڑی ہو گی۔ کہا ں گیا اِن کا فن؟ کوئی مہارت کام نہ آسکی۔وہ گرفت، شاتردماغی، بہادری، خوداعتمادی سب کی سب خون میں بہ کر ون ویلنگ کے منہ پر تمانچہ مار رہی تھی۔
گوہ کہ یہ کام دیدودلیروں کا ہے لیکن سمت غلط ہے۔ ہزاروں موٹر سائیکل ڈرایوروں میںصرف چند ایک ون ویلر ہوتے ہیں۔اگر یہ اپنی سمت درست کر لیں تو اِن نوجوانوں کا مقابلہ مشکل ہو۔ ایسے جوشیلے نوجوانوں کی ملک و قوم کو بہت ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے بہادر جوان ملک کی عزت، شان، وقار کی سلامتی کے لیے صفِ اوّل میںدشمن کی انکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت رکھتے ہیں اور اگر یہ صحیح سمیت کا تعین کریں تو انہیں دنیا انہیں اپنا نام روشن کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔