کولمبیا… خانہ جنگی کے بعد عوام طاقت وَروں کے نرغے میں

 تحریر: جورڈن سلاما

پہاڑی علاقے سے گزرتی شکستہ سڑک پر ایک سال خوردہ پک اپ ٹرک چلا جارہا تھا۔ ٹرک کی ظاہری حالت اور اس سے اٹھتے شور سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس کا انجر پنجر ڈھیلا ہوچکا ہے۔ ٹرک کے پچھلے کھلے حصے میں دیگر افراد کے علاوہ میرے ساتھ لوئس مینوئل سلامینکا سوار تھا۔ شکستہ سڑک پر ٹرک پر یوں جھومتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا کہ میرے لیے خود کو سنبھالے رکھنا دشوار ہوگیا تھا۔

کچھ یہی کیفیت لوئس کی بھی تھی۔ یہ 22 مئی 2018ء کی ایک کہرآلود صبح تھی۔ جنوب مغربی کولمبیا کے اس زرخیز پہاڑی علاقے میں زندگی بیدار ہورہی تھی جہاں ساتھ ساتھ بلندوبالا کئی پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ انگریزی زبان میں یہ علاقہ Colombian Massif کہلاتا ہے۔ (دنیا کا طویل ترین سلسلۂ کوہ، اندیز جن سات ممالک میں سے گزرتا ہے ان میں کولمبیا بھی شامل ہے)

دھیرے دھیرے کہر کی کثیف چادر چھٹ رہی تھی اور اردگرد کے مناظر واضح ہونے لگے تھے۔ تنگ سڑک پر اسکول کے بچوں سے لدی سرخ و سفید بسیں مسلسل ہارن بجاتے ہوئے گھوڑا گاڑیوں اور سامان بردار خچروں کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔

سڑک سے کچھ ہی پرے ایک احاطے میں ایک عورت فربہ گائے کا دودھ دوہ رہی تھی۔ ساڑھے چھے سو فٹ نشیب میں دریائے مگدالینا ایک ہموار گھاٹی میں سے برق رفتاری کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ اطراف کی پہاڑیوں سے گرتی آبشاریں یہ دریا تشکیل دیتی ہیں۔

ہماری منزل ہوئلا ڈپارٹمنٹ (صوبہ) کی حدود میں کہرآلود اور سرسبز پہاڑیوں کے درمیان آباد کوئنچانا نامی گاؤں تھا۔ یہ علاقہ کافی کی پیداوار اور تیل کی تلاش کی سرگرمیوں کے حوالے سے معروف ہے۔ متعدد بڑے دریاؤں کے منبع یا مآخذ بھی یہاں سے کچھ ہی دور ہیں۔

لا گائتانا نامی ایک مقامی قبیلے کی ابتدا بھی یہیں سے ہوئی تھی۔ کوئنچانا ایک تاریخی مقام بھی ہے اور یہاں آٹھویں صدی میں بنائے گئے دیوی دیوتاؤں کے سنگی مجسمے اور مقبرے موجود ہیں۔ 1942ء میں ان تاریخی نوادرات کی بازیافت کے بعد اس علاقے کو تاریخی اہمیت حاصل ہوئی تھی۔

کوئنچانا کے اس سفر میں میرا ہم سفر 64سالہ سلامینکا کولمبیا کا نام وَر ماہر بشریات تھا۔ اس نے اپنی زندگی اس علاقے کی تاریخ کے مطالعے اور اس کے تحفظ میں گزاری تھی۔ گول چہرے اور فربہ ناک والا سلامینکا نرم خُو اور کم گو تھا۔ دوران گفتگو وہ الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرتا تھا۔

سلامینکا سے میری ملاقات ان ایام میں ہوئی تھی جب نصف صدی سے خانہ جنگی میں گھرے کولمبیا میں تبدیلی نمودار ہورہی تھی۔ دوران سفر میری نگاہ مسلسل دریائے مگدالینا پر تھی۔ کولمبیا کے قلب میں بہتا ہوا یہ دریا ایک ہزار میل کی مسافت طے کرنے کے بعد بحیرۂ کیریبیئن میں جاگرتا ہے۔

کولمبیا میں نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی اور خونریز لڑائیوں کا یہ دریا ’عینی شاہد‘ ہے اور اپنے دونوں کناروں پر امن  قائم کرنے کی کوششوں میں معاون بھی رہا ہے۔ 2018ء کے اس وسط میں خونریز تصادم کے واقعات کسی حد تک تھم چکے تھے مگر…. یہ سکون تادیر قائم رہنے والا نہیں تھا۔

’’برسات ہونے سے پہلے ہمیں پہنچ جانا چاہیے‘‘ سلامینکا نے مجھ سے کہا۔ اس کی نگاہیں پہاڑی وادی کو ڈھانپتے بادلوں پر جمی تھیں۔ ہچکولے کھاتے ٹرک کو لگنے والے ہر جھٹکے کے ساتھ اس کا ہاتھ ڈالے پر مضبوطی سے جم جاتا تھا۔ اس نے مسافروں سے کھچا کھچ بھرے ٹرک کے ڈالے کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ میں اور سلامینکا ان کے درمیان بھنچ کر رہ گئے تھے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض اوقات سانس بھی رکتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

آخرکار ہم بہ دقت تمام حرکت کرتے ہوئے پیچھے آئے اور ٹرک کے پائیدان پر پاؤں جماکر کھڑے ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ یہاں ہم آسانی کے ساتھ سانس لے سکتے تھے مگر یہ بھی خدشہ تھا کہ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کہیں زوردار جھٹکا لگنے سے ٹرک کی آہنی سلاخ ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ نہ جائے۔ بہرحال ہم یہ خطرہ مول لے کر ہاتھ اور پاؤں مضبوطی سے جماکر کھڑے ہوئے تھے۔ ٹرک رکا تو ہم جگہ بناتے ہوئے اتر آئے۔

سلسلۂ کوہ اندیز کے اس حصے کے معروف ترین تاریخی نوادرسان آگسٹن قصبے کے پارک میں موجود قوی الجثہ سنگی مجسمے ہیں۔ یہ پارک یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔ عمودی طور پر ایستادہ ان مستطیل سنگی مجسموں پر انسانی شبیہہ تراشی گئی ہے۔ کچھ مجسموں کو بندر اور چھپکلی نما ہیئت میں بھی تراشا گیا ہے۔

سان آگسٹن کے اس پارک میں گھومنا ایسے ہی تھا جیسے آپ پتھروں کے ’چڑیا گھر‘ کی سیر کررہے ہوں۔ ’’اس کے مقابلے میں لا گائتا نا میں آپ کو قبل از کولمبیا کے آثار چہار سُو بکھرے ہوئے دکھائی دیں گے‘‘ سلامینکا نے مجھے بتایا۔ یہ تاریخی آثار ایک وسیع وعریض پہاڑی ڈھلوان پر پھیلے ہوئے ہیں۔ عشروں تک کوئنچانا منشیات کی اسمگلنگ کی راہ گزر ہونے کے باعث ایک ممنوعہ علاقہ رہا، جس پر حکومت مخالف گوریلاؤں کا مکمل کنٹرول تھا۔

نصف صدی سے زائد عرصے تک مارکسزم سے متاثر باغیوں کی فوج کولمبیئن ریاست سے برسرپیکار تھی جو ’ریولوشنری آرمڈ فورسز آف کولمبیا‘ یا FARC کے نام سے جانی جاتی ہے۔

ریاست کے ساتھ اس لڑائی میں بائیں بازو کی ملیشیا، دائیں بازو کے نیم فوجی گروہ، منشیات کے اسمگلروں کی طاقت وَر تنظمیں اور امریکی فوج بھی شامل ہوگئی تھی۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں جنگلات کا بڑا حصہ اور دیگر دورافتادہ علاقے مسافروں اور مقامی آبادی کے لیے یکساں طور پر خطرناک بن چکے تھے۔ دو لاکھ ستر ہزار افراد اس خانہ جنگی کی نذر ہوئے، اکیاسی ہزار لاپتا اور چوہتر لاکھ بے گھر ہوگئے۔

2016ء میں ایک امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد حالات کے بدلنے کی امید پیدا ہوگئی تھی۔ FARC کے جنگجو ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوگئے اور حکومت نے انھیں معاشرے میں خوش آمدید کہنے کا عہد کیا۔ امن معاہدے کے بعد حکومت نے گوریلوں کے زیرقبضہ علاقوں میں عوامی سہولیات کی فراہمی یا انھیں بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ امید تھی کہ سابقہ جنگ زدہ علاقے عوام کے لیے کُھل جائیں گے اور وہاں کی مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں گے۔

تاہم، بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہیں ہوسکی۔ باغی جنگجوؤں کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد معدنی وسائل سے تجوریاں بھرنے کے خواہش مندوں اور منشیات کے اسمگلروں نے جنگ زدہ علاقوں میں اپنا تسلط قائم کرنا شروع کردیا اور بااثر افراد مویشیوں کے باڑے قائم کرکے وسیع و عریض چراگاہوں پر قبضہ جمانے لگے۔ جن مقامی افراد نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی وہ ان کی بے رحمی کا نشانہ بن گئے۔

دارالحکومت بوگوٹا میں قائم غیرنفع بخش ادارے، انسٹیٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس اسٹڈیز (INDEPAZ) کے مطابق 2016ء میں طے پائے امن معاہدے کے بعد جنگلات اور اراضی پر قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والے 1297 مقامی باشندوں اور ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرنے والے رہنماؤں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ قتل کے ان واقعات کی تحقیقات میں قدرتی وسائل سے مالامال علاقوں پر قبضے کے لیے برسرپیکار مسلح گروپوں کے کارندوںکو گرفتار بھی کیا گیا مگر دس فیصد سے بھی کم مقدمات میں سزائیں ہوسکیں۔

انڈیپاز سے وابستہ لیونارڈو گونزلیز نے مجھے بتایا کہ جس انداز سے ان تمام راہ نماؤں کے قتل کی وارداتیں ہوئی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ یہ ہلاکتیں ایک تواتر سے ہوتی رہی ہیں۔ لندن میں قائم حقوق انسانی اور ماحولیات سے متعلق تحقیقاتی تنظیم ’’گلوبل وٹنس‘‘ کے مطابق 2019ء اور پھر 2020ء میں مسلسل دو برس کولمبیا ماحولیاتی کارکنان کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک رہا۔ سلامینکا بھی ایسے ہی کسی قبضہ گروپ کا نشانہ بن چکا تھا۔ سلامینکا سے میری پہلی ملاقات کو ایک برس گزر چکا تھا جب اسے گیارہ مئی 2019ء کو گھر کے دروازے پر گولی مار کر موت کی نیند سلادیا گیا۔

میں اور سلامینکا کوئنچانا کے قصبے کے نزدیک ٹرک سے اُتر گئے تھے۔ یہاں سے ہمیں چڑھائی پر پیدل سفر کرنا تھا۔ پہاڑی ٖ ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے ہمیں ہاتھ اور پاؤں دونوں اعضا سے کام لینا پڑ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم بلندی پر واقع ایک گھر کے سامنے کھڑے تھے۔

اس دو منزلہ گھر کی اوپری منزل پر رہائش تھی جبکہ نیچے جنرل اسٹور قائم کیا گیا تھا۔ اسٹور میں ٹیڈی بیئر اور رنگین کتابوں سے لے کر الکحل، ڈبّا بند خوراک تک مختلف اشیاء فروخت کے لیے رکھی گئی تھیں۔

یہاں صبح بہت پُرسکون تھی مگر میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب اس قصبے اور آس پاس کے پورے علاقے پر FARC کے گوریلے قابض تھے اور مسافروں کے لیے یہ پورا خطہ علاقۂ ممنوعہ تھا۔ غیرملکیوں اور متمول مقامی باشندوں کو تاوان کی غرض سے اغوا کرلیا جاتا تھا۔ اسی لیے جنگلاتی لکڑی کے تاجر اور تعمیرات سے وابستہ بلڈرز باغیوں کے زیر تسلط جنگلات کے قریب آنے سے بھی گریزاں رہتے تھے۔

کوئنچانا جیسے پہاڑی درّوں کے قریب واقع علاقے، جہاں صنعتی دور سے قبل نمک، چمڑے اور چینی کے تاجروں کی آمدورفت رہتی تھی، منشیات اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی اہم گزرگاہیں بن گئے تھے۔ ان دونوں اشیاء کی اسمگلنگ گوریلاؤں کی مالی ضروریات کی تکمیل کا اہم ترین ذریعہ تھی۔ ’’ گوریلا ہر ایک کی نقل وحرکت کو کنٹرول کرتے تھے۔ اس علاقے میں انسانی آمدورفت انھی کی منشا سے ہوتی تھی۔‘‘ سلامینکا نے مجھے بتایا۔

FARC کے زیرقبضہ جنگلات کی آزادی سے کولمبیا میں سائنس و تحقیق اور سیاحت کو زبردست فروغ ملا ہے۔ حیاتیاتی اعتبار سے کولمبیا دنیا کا دوسرا متنوع ترین ملک ہے۔ یہاں ہر لمحہ بدلتے ماحولیاتی نظام، دل کش ارضی مناظر اور ان گنت حیاتیاتی انواع پائی جاتی ہیں۔

کولمبیا کے ساحل کے ساتھ مونگے کی طویل چٹانیں اور اس کی سرزمین پر وسیع و عریض چراگاہیں اور گھنے بارانی جنگلات موجود ہیں۔ وسطی علاقوں کی گرم وادیاں، دریا اور دلدلی علاقے امریکی مگرمچھوں، دریائی گایوں اور معدومیت کے خطرے سے دوچار میٹھے پانی کے کچھووں کا مسکن ہیں۔ بحرالکاہل سے لگنے والے ساحل کے نمکیات سے بھرپور پانیوں کا ہر سال ہزاروں ہجرتی ہمپ بیک وھیل رُخ کرتی ہیں۔ یہیں آتش فشانی چٹانوں سے سیارہ ریتیلے ساحل پر آبشاریں بھی گرتی ہیں۔

یہاں امبیرا اور وونا کے قدیم افریقی کولمبیائی قبائل آباد ہیں جو صدیوں سے مینگرووز کے جنگلات اور پہاڑوں کی بھول بھلیوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی قدیم روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

ماہرین حیاتیات نے کولمبیا میں متعدد نئی انواع اور ان کے مساکن دریافت کیے ہیں اور معدومیت کے خطرے سے دوچار نباتات و حیوانات کے تحفظ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

2016ء میں امن معاہدے کے بعد سے 2019ء تک کولمبیا میں غیرملکی سیاحوں کی آمد دس لاکھ سالانہ سے بڑھ چکی تھی۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ کے دفتر برائے جرائم و منشیات کے مطابق 2018ء میں درختوں کی غیرقانونی کٹائی، بڑی تعداد میں اور وسیع رقبے پر باڑوں کے قیام، اور سونے کی کان کنی کے باعث جنگلات کے کٹاؤ میں برق رفتاری سے اضافہ ہوا، اور کوکین کے بنیادی جزو کوکا کی کاشت بھی بلندترین سطح پر پہنچ گئی۔

بڑے ترقیاتی منصوبوں جیسے سیرا نیواڈا ڈی سانا مارتا کی پہاڑیوں میں لوس بیسٹوس ڈیم کی تعمیر اور دریائے مگدالینا کے ساتھ ساتھ تیل کی تلاش کے لیے ’ فریکنگ‘ کا طریقہ اپنانے سے سیلاب، پانی کے آلودہ ہونے اور آبادیوں کی بے دخلی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر انحصار کرنے والی حیاتیاتی انواع کا وجود بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔

حکام قدرتی وسائل کے تحفظ پر مالی نفع کو ترجیح دینے والوں پر قابو پانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ اس کی وجہ علاقائی حکام کا بدعنوانی میں ملوث ہونا ہے جنھوں نے جنگلات کی کٹائی، کان کنی اور جنگلی حیات کی اسمگلنگ کی جانب سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ حکام کی رشوت خوری کے واضح ثبوت موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ان غیرقانونی سرگرمیوں کے تانے بانے بالادست طبقے سے بھی ملتے دکھائی دیتے ہیں۔

ملک میں اعلیٰ ترین سطح کے سیاستدانوں بشمول حکمران سینٹرو ڈیموکریٹک پارٹی، کا تعلق ان پُرتشدد پیراملٹری گروپوں سے سامنے آیا ہے جنھیں متعدد ہلاکتوں کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مقامی سطح پر یہ گروپ ’’پارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ گروپ 1970ء اور 80ء کی دہائی میں اس وقت اُبھرے تھے جب دولت مند زمین داروں، منشیات کے اسمگلروں، اور کچھ کاروباری افراد نے بائیں بازو کے حامیوں کے خاتمے کی غرض سے نجی ملیشیاؤں کے لیے رقوم فراہم کیں۔

سابقہ جنگ زدہ علاقوں میں اپنی مضبوط عملداری قائم کرنے میں ریاست کی ناکامی نے جرائم پیشہ گروہوں کو پھلنے پُھولنے کا موقع دیا جو قدرتی وسائل، اسمگلنگ کی گزرگاہوں، اور بندرگاہوں پر  اپنا اپنا تسلط جمانے کی کوشش میں ایک دوسرے کے خلاف پُرتشدد مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حقوق انسانی اور ماحولیاتی تحفظ کے علم بردار اپنی جانوں کی قیمت پر ان کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ جو لوگ اب تک ان متحارب گروہوں کا نشانہ بنے ان میں مقامی رہنما، اساتذہ، سائنس داں، جنگلات کے تحفظ کے کام کرنے والے ماہرین، کوکا کے بجائے قانونی فصلیں کاشت کرنے والے کسان، حقوق نسواں کے کارکنان اور 2016ء کے امن معاہدے کے حامی شامل ہیں۔ نومبر 2019ء میں صوبہ تولیما میں چوالیس سالہ کارلوس الدائرو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اندیز کے مخصوص نسل کے گِدھوں سے لگاؤ رکھنے والے باریش کارلوس نے جنگلات کی کٹائی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

50سالہ جوآنا پیریا ایک ماحول دوست سرائے کی مالکہ تھی۔ جوآنا نے بحرالکاہل کے ساحل سے لگنے والے چوکو ڈپارٹمنٹ ( صوبہ) میں اپنے رہائشی علاقے کے قریب صنعتی بندرگاہ کے قیام کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اکتوبر 2020ء میں اسے منشیات کے اسمگلروں کے بدنام زمانہ کارٹل Clan del Golfo نے قتل کردیا۔ ایک سال کے بعد کارٹل کے رکن نیستر لیونل لوزانو کو جوآنا کا قتل ثابت ہونے پر اٹھارہ سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اگست 2021ء میں سینتالیس سالہ استاد اور یونین لیڈر کارلوس فریڈی لونڈانو کو اس کے شاگردوں کی موجودگی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ میٹا ڈپارٹمنٹ میں امیزون کے دریائی جنگلات میں وہ مقامی روایات کے تحفظ کی سعی کررہا تھا۔ اپنے مفاد کے لیے بے قصور انسانوں کو بے رحمی سے ہلاک کردینے والے جرائم پیشہ کارٹل سے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

جنوری 2022ء میں کاؤکا ڈپارٹمنٹ میں ناسا برادری سے تعلق رکھنے والے چودہ سالہ برینر ڈیوڈ کوکونیم کو گوریلاؤں نے اس وقت زندگی سے محروم کردیا جب وہ مقامی باشندوں کی زمینوں کے تحفظ کے لیے کوشاں شہری دفاع کی تحریک Guardia Indígena کے اہلکاروں کے ساتھ گشت پر تھا۔ سوشل میڈیا پر فریکنگ اور کان کنی کے خلاف مہم چلانے والے گیارہ سالہ فرانسسکو ویرا کو بھی قتل کی دھمکیاں ملیں جس کے بعد حکومت نے اس کے لیے سرکاری محافظ فراہم کیے۔

انسانی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے ان سماجی راہ نماؤں کا مطالبہ ہے کہ حکومت محافظوں کی تعیناتی سے آگے بڑھ کر اقدام کرے۔ وہ دورافتادہ علاقوں میں تعلیم اور سماجی منصوبوں میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں تاکہ مقامی آبادی کو منشیات کی اسمگلنگ اور قدرتی وسائل کی تباہی کا متبادل دستیاب ہو۔ وہ اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ حکومت اس ماحولیاتی معاہدے کی توثیق کرے جس پر لاطینی امریکا اور کیریبیئن کے چوبیس ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت یہ ممالک ماحولیاتی کارکنوں کے تحفظ کے پابند ہیں۔

جولائی 2021ء میں کولمبین حکومت نے ایک قانون ضرور منظور کیا تھا جس کے مطابق ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات بشمول جنگلی حیاتیات کی اسمگلنگ اور اس مقصد کے لیے مالی معاونت اور درختوں کی کٹائی کو مجرمانہ فعل قرار دیا گیا تھا، مگر اعلیٰ ترین سطح پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کے باعث یہ قانون اپنی روح کے مطابق نفاذ کا ہنوز منتظر ہے۔

جنگلات کی کٹائی کے موضوع پر انٹرنیشنل کرائسزگروپ کے محققین کی نومبر 2021ء میں شایع شدہ تحقیق میں کولمبیا کے قانون نافذ کرنے والے حکام کا یہ بیان بھی شامل کیا گیا تھا جس سے  صورتحال کی صحیح عکاسی ہوتی ہے:’’گلہ بانی اور دیگر سرگرمیوں میں ملوث سیاست داں افسروں کو رشوت دیتے ہیں اور عدالتی تحقیقات میں ردوبدل کرواتے ہیں۔ درختوں کی غیرقانونی کٹائی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود معروف شخصیات سزا سے بچ جاتی ہیں۔ مخصوص مقدمات اور ان پر پیش رفت سے متعلق معلومات مسلح گروہوں تک پہنچ جاتی ہیں جو متعلقہ افسروں کو رشوت کی پیشکش کرتے ہیں یا پھر دھمکیاں دیتے ہیں۔‘‘

بہرحال 2019ء میں ایک برعکس مثال بھی سامنے آئی جب ایک گورنر، دو میئروں اور ایک مقامی زمین دار کو گوآویئر ڈپارٹمنٹ کی حدود میں امیزون کے جنگلات میں غیرقانونی طور پر پچاسی میل طویل پٹی پر سے درختوں کا صفایا کردینے کی پاداش میں مجموعی طور پر دس لاکھ ڈالر کا جرمانہ کیا گیا۔ اس اسکیم کے نتیجے میں ستاون ہزار ایکڑ اراضی نباتات سے محروم ہوگئی۔

اور باڑوں کے قیام اور پام آئل کے درختوں کی غیرقانونی کاشت کے لیے متعدد چھوٹے کاشت کاروں کو علاقہ بدر کردیا گیا۔ کئی معروف سینیٹروں کے عزیزواقارب زمینوں پر قبضے اور مویشی خانوں کے قیام کی اسکیموں کے لیے رشوت لینے میں ملوث پائے گئے۔

کچھ قدامت پسند سیاست دان انسانی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوشاں کارکنوں کو مارکسسٹ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں کولمبیا میں کوئی خطرات درپیش نہیں اور یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ قدامت پسند سیاسی طبقے کی یہ سوچ یقیناً حملہ آور کا حوصلہ بڑھاتی ہوگی۔

نومبر 2020ء سے قبل اور بعد میں اساتذہ تنظیم سے وابستہ دو اساتذہ کے قتل پر حکومتی سینیٹروں نے نیشنل ٹیچر یونین پر بچوں کے ذہنوں میں اپنے نظریات راسخ کرنے کے الزامات عائد کیے۔ 2017ء میں ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں اس وقت کے وزیردفاع لوئس کارلوس ولیگاس نے دعویٰ کیا کہ امن معاہدے کے بعد سے ہونے والی بیشتر ہلاکتیں ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے نہیں بلکہ زر، زن، زمین اور غیرقانونی منافع پر ہونے والے تنازعات کا شاخسانہ تھیں۔

کوئنچانا سے بلندی کی جانب مسلسل دو گھنٹے کے سفر کے بعد سلامینکا اور میں لاگائتانا کے تاریخی مقام پر پہنچ گئے۔ اس کے داخلی راستے کے دونوں جانب بندر کے چار فٹ اونچے سنگی مجسمے ایستادہ تھے۔ ان بندروں کے چہرے چوڑے اور کان گول تھے۔

ان کے دہانوں میں بڑے بڑے دانت تراشے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بندر، تاپیر (سور اور گینڈے سے مشابہ سیاہ و سرمئی چوپایا)، تیندوے اور پیوما (امریکی تیندوا) صدیوں پہلے اس علاقے میں انسانی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد رفتہ رفتہ دور افتادہ پہاڑیوں تک محدود ہوگئے تھے۔ پھر کسی زمانے میں یہاں ان کی موجودگی کو سنگی مجسموں میں ڈھال کر امر کردیا گیا تھا۔

سلامینکا اپنی راہ نمائی میں مجھے ایک نیم بلند ٹیلے کے پاس لے گیا تھا۔ ’’یہ بچوں کا قدیم قبرستان ہے‘‘ اس نے کائی سے ڈھکے سیاہ سنگی کتبوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا۔ 70  کے پیٹے میں ہونے کے باوجود سلامینکا خاصا چاق چوبند اور متحرک تھا۔ فرصت کے لمحات میں بھی وہ آرام کرنے کے بجائے پہاڑوں میں سائیکل چلانے کو ترجیح دیتا تھا۔ اُس روز بھی وہ شام کی واک (تیزقدمی) کا قصد کررہا تھا جب اسے سان آگسٹن میں گھر کے دروازے پر قتل کردیا گیا۔

سلامینکا کے قتل کی خبر نے شہ سرخیوں میں جگہ پائی تھی۔ قومی ذرائع ابلاغ نے سائنس اور ثقافت کی تفہیم میں اس کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ سلامینکا کی بیٹی ڈیلیلا نے اس واقعے کے بعد مجھ سے کہا تھا،’’ہم سب سکتے میں آگئے تھے‘‘

سلامینکا کے قتل کے پس پردہ اصل محرک ہنوز سامنے نہیں آسکا۔ تاہم اسے ایک ایسے بے خوف شہری کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو اپنی بات کہنے سے کسی صورت نہیں ہچکچاتا تھا۔ شاید سلامینکا کی اسی خوبی نے اسے کئی لوگوں کے لیے ناپسندیدہ بنادیا ہوگا۔ سلامینکا نے ہوئلا ڈپارٹمنٹ میں ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کی بھی مخالفت کی تھی۔

ایل کمبو نامی ڈیم کی تعمیر کے لیے ساڑھے چار سو خاندانوں کو ان کے آبائی علاقے سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ بیس ہزار ایکڑ رقبے کو بھی جنگلات سے محروم کردیا گیا تھا۔ سلامینکا نے ڈیموں کی تعمیر کے کولمبیا اور چین کے مشترکہ منصوبے ’’ مگدالینا ماسٹر پلان‘‘ پر بھی کڑی تنقید کی تھی۔ اس منصوبے کی تکمیل کی صورت میں کئی تاریخی مقامات ڈیموں کی نذر ہوجاتے اور وسیع رقبے پر پھیلے جنگلات اور حیاتیاتی مساکن صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے۔

سلامینکا کی موت کے بعد سان آگسٹن میں ہزاروں افراد احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے اور انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔ سان آگسٹن کے میئر نے قتل کی تحقیقات میں معاون اطلاع کی فراہمی پر ستائیس سو امریکی ڈالر کے مساوی رقم دینے کا اعلان بھی کیا۔

تقریباً تین برس گزرچکے ہیں، تاحال اس مقدمے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی۔ آثار یہی ہیں کہ اس نوع کے دیگر مقدمات کی طرح سلامینکا کے قتل کی تحقیقات بھی طاقت وَروں کے مفادات اور حکومتی نظام میں سرایت کردہ بدعنوانی کی گرد تلے دب جائیں گی۔ بعض اوقات حکام گولی چلانے والے ہاتھوں میں تو ہتھکڑیاں پہنادیتے ہیں مگر قتل کے اصل ذمے دار شاذ ہی قانون کی گرفت میں آپاتے ہیں۔

دسمبر 2021ء میں کولمبین اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری رپورٹ کے مطابق 2016ء کے بعد پانچ سو سے زائد انسانی حقوق کے کارکنوں کے قتل کے مقدمات میں سے صرف ایک سو گیارہ کے اصل ذمے داروں کا سراغ لگایا جاسکا اور ان میں سے بھی صرف پندرہ میں سزا ہوپائی۔ دور افتادہ علاقے جو پہلے FARC کے زیرنگیں تھے وہاں عدالتی نظام عملاً وجود نہیں رکھتا۔

کولمبیا کے انسانی حقوق کے ممتاز ترین کارکنوں میں سے ایک فرانسیا مارکوئز مینا ہیں۔ وہ کاؤکا ڈپارٹمنٹ کی افریقی کولمبیائی آبادیوں میں سونے کی غیرقانونی کان کنی کے خاتمے کے لیے گراں قدر جدوجہد کے حوالے سے شناخت رکھتی ہیں۔ فرانسیا مارکوئز کی جدوجہد کے اعتراف کے طور پر 2018ء میں انھیں ’’گولڈ مین انوائرنمنٹل پرائز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ حقوق انسانی کے دیگر معروف کارکنان کی طرح فرانسیا بھی مخالفین کی نفرت کا نشانہ بنیں۔

انھیں کان کنی کی مخالفت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مسلسل خطرناک نتائج کی دھمکیاں ملنے پر 2014ء میں وہ اپنے آبائی قصبے کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوگئیں۔ چار مئی 2019ء کو ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ سینتاندر دی قصبے میں اپنی جدوجہد کے سلسلے میں مصروف تھیں۔ کئی مسلح افراد نے ان پر بندوقوں اور گرینیڈ سے حملہ آور کردیا تھا۔ خوش قسمتی سے فرانسیا اس جان لیوا حملے میں محفوظ رہی تھیں مگر ان کے تینوں سرکاری محافظ شدید زخمی ہوگئے تھے۔

قتل کے واقعات پر فرانسیا جو مئی 2022ء میں ہونے والے انتخابات میں صدارت کی امیدوار بھی ہیں، اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں،’’بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ سلسلہ روکنے کے لیے درحقیقت کچھ نہیں کیا جارہا۔ ہم ایک ایسی ریاست کے شہری ہیں جس نے ہمارے قتل کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘

ان انتہائی ناموافق حالات کے باوجود بیشتر سماجی راہ نما محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ خطرات کے باوجود اپنا کام جاری رکھیں چاہے اس کے لیے انھیں اپنے معمولات روزانہ تبدیل کرنے پڑیں یا ہر چند ہفتے بعد نقل مکانی کرنی پڑے۔ ’’لوگوں کو استحصال سے بچانے کی ذمے داری ہم پر ہے۔ اگر ہم اس ذمے داری سے روگردانی کریں گے تو پھر تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔‘‘ فرانسیا نے مجھ سے کہا۔

سماجی راہ نماؤں، حقوق انسانی کے علم برداروں اور ماحولیاتی تحفظ کے کارکنان کو درپیش سنگین حالات پر ملک بھر میں احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود ان کے قتل کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ انسٹیٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس اسٹڈیز کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ برس 170 سماجی رہنماؤں کو زندگی سے محروم کردیا گیا۔ دوسری جانب کولمبیا کے دیہی علاقے، جہاں دنیا کے متنوع ترین حیاتیاتی نظام پائے جاتے ہیں، جرائم پیشہ افراد اور ڈیولپرز کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہورہے ہیں۔

2018ء میں سبزے سے ڈھکی بلند پہاڑی چوڑی پر کھڑے ہوکر میں اور سلامینکا نیچے دریائی وادی پر چھائے بادلوں کو دیکھ رہے تھے۔ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے زمین سے دھویں کے بادل نکل کر وادی پر چھا گئے ہوں۔ ’’سابقہ جنگ زدہ علاقوں میں آبادیوں اور قدرتی وسائل کا تحفظ کرتے ہوئے معیارزندگی کو بہتر بنانا ایک طویل مدتی ذمے داری ہے‘‘ سلامینکا نے نیچے وادی پر تیرتے بادلوں پر نگاہیں جماتے ہوئے مجھ سے کہا تھا،’’یہ کسی بنجر زمین کو خرید نے جیسا ہی ہے جسے کارآمد بنانے کے لیے آپ رقم خرچ کرنے کے ساتھ محنت بھی کرتے ہیں، اور پھر مثبت نتائج برآمد ہونے کا انتظار بھی کرتے ہیں۔‘‘

(بہ شکریہ نیشنل جیوگرافک میگزین)