ترقی کی خواہش تعلیم کے بغیرپوری نہیں ہو سکتی

مسلم ممالک کی ترقی کے لئے استاد کو بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا

سعودی ماہر تعلیم و پروچانسلر امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض پروفیسرسلیمان عبد اللہ ابا الخیل کالاہور میں خطاب۔ فوٹو: فائل

دنیا کے نقشے پر 52 مسلم ممالک اور ایک کونے سے دوسرے کونے تک تقریباً 2 ارب مسلمان بستے ہیں۔

مسلم ممالک تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن مجموعی طور پر جدید علوم سے دور ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ شاندار ماضی، اتنی بڑی افرادی قوت اور بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود ہم ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی ایک مذہب کے لوگ آپس میں اس طرح دست وگریبان نہیں ہیں جس طرح ایک خدا ایک رسولؐ اور ایک قرآن کو ماننے والی یہ امت باہم برسرجنگ ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے، امت مسلمہ کی ترقی کا راز کس نکتے میں پنہاں ہے اور مسلمان کس طرح موجودہ ذلت و رسوائی سے باہر نکل سکتے ہیں؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو طویل عرصہ سے زیربحث ہیں لیکن ان کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ ان سلگتے سوالات کا جواب گزشتہ دنوں لاہور میں عرب دانشوروں نے اس وقت دینے کی کوشش کی جب وہ یونیورسٹی اساتذہ، ماہرین قانون، علماء اور صحافیوں کے ایک منتخب فورم سے خطاب کر رہے تھے۔

سعودی عرب کے ممتاز سکالر، دانشور، ماہر تعلیم اور سعودی عرب کی سب سے بڑی یونیورسٹی امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض کے پروچانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان عبد اللہ ابا الخیل نے لاہور میں سعودی عرب کے اشتراک سے قائم ہونے والی لاہور انٹرنیشنل یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں نے ترقی کرنی ہے اور آج کی دنیا کا مقابلہ کرناہے تو مسلم ماہرین تعلیم ، اساتذہ اور دانشوروں کو اپنی علمی سطح بلند کرنا ہو گی اور میانہ روی کو اپنانا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میانہ روی اور اعتدال اسلامی تعلیمات کا تقاضا اور نبی آخر الزماں کی سنت ہے۔ اس مجلس میں ممتاز عالم دین اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سعودی نژاد پریذیڈنٹ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش، پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر عبد العزیز بن ابراہیم الغدیر، لاہور انٹرنیشنل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد جمال عباسی، انٹرنیشنل اسلامک جوڈیشل کونسل کے ڈائریکٹر جنرل جسٹس (ر)منیر اے شیخ، جسٹس (ر)تنویر احمد خان، جسٹس (ر) منیر اے مغل، جسٹس (ر) بشیر بھٹی، تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر پروفیسر میاں محمد اکرم، پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر خالد حمید، ماہر تعلیم عدنان رشید کے علاوہ بیس مختلف لہجوں میں قرآن عظیم کی قرآت محفوظ کرانے والے شہرہ آفاق قاری ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی شریک تھے۔




ڈاکٹر سلیمان عبد اللہ ابا الخیل نے اسی شام تنظیم اساتذہ پاکستان اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مشترکہ تعلیمی سیمینار میں شرکت کی۔ ''تعلیمی ثنویت اور عالم اسلام'' کے موضوع پر ہونے والے اس علمی سیمینارمیں سینکڑوں اساتذہ شریک تھے۔ سیمینار کی خوبی یہ تھی کہ اس میں جہاں جدید علوم کے ماہرین نے پاکستان میں دوہرے نظام کے نقصانات پر روشنی ڈالی وہیں دینی مدارس کے منتظمین اور اساتذہ نے بھی اس کی خرابیوں کا تفصیلی ذکر کیا۔ ڈاکٹر سلیمان ابا الخیل جو نہ صرف امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے پروچانسلر ہیں بلکہ عالم اسلام کی 280اسلامی جامعات کے بھی سربراہ ہیں۔انہوں نے یہاں اساتذہ پر پھر زور دیا کہ اسلام تحقیق، تسخیر اور غوروفکرکا دین ہے اس لیے مسلمان اساتذہ کی ذمہ داریاں آج بہت بڑھ گئی ہیں۔ انہیں نہ صرف جدید علوم میں تحقیق کا کام کرنا ہے بلکہ یہ علم نئی نسل میں منتقل بھی کرنا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر زور دیا کہ اساتذہ ، نوجوان نسل کی بہترین تربیت کے لیے خود کو جدید طریقوں سے آراستہ کریں اور اسے ایک دینی فریضہ سمجھ کر ادا کریں کہ نئی نسل ہی ہمارا اثاثہ ہے اور اس نسل ہی نے اگلی ایک دو دہائیوں کے بعد مسلم امہ کی قیادت سنبھالنی ہے۔ انہوں نے طلبا پر زور دیا کے ان جدید سائنسی علوم پر خصوصی توجہ دیں۔

اس سے قبل لاہور انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سالانہ جلسۂ تقسیم انعامات و اعزازات سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان ابا الخیل نے کہا کہ ترقی کی خواہش سب کو ہوتی ہے لیکن تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مسلم امہ کو اپنی ساری توانائیاں حصول تعلیم پر صرف کرنی چاہییں، مسلم دنیا میں تعلیم کی شرح بڑھے گی تو ترقی کی رفتار بھی تیز ہو گی۔ انہوں نے اشارتاً یہ بھی کہا کہ شاید آج کی مسلم دنیا اپنا کیس بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ہمیں مسلمانوں پر لگانے جانے والے الزامات اور مسلم دنیا پر ہونے والی سیاسی، ثقافتی، سفارتی یلغار کا دلائل اور اعتدال کے ساتھ جواب دینا ہو گا۔ اس موقع پر پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر عبد العزیز بن ابراہیم الغدیر نے کہا کہ ان کا ایک ملک سعودی عرب اور دوسرا پاکستان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج جدید دنیا کے سامنے جن الزامات اور مشکلات کا سامنا ہے انہیں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ پاکستان کو ان کا جواب زیادہ سائنسی انداز میں دینا چاہیے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے پریذیڈنٹ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلیمی میدان میں تعاون بڑھ رہا ہے جو آئندہ مزید بڑھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ علمی میدان کا تعاون دیرپا اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس موقع پر سعودی مہمانوں نے لاہور انٹرنیشنل یونیورسٹی کے انتظامی شعبے اور تدریسی بلاک کا معائنہ کیا۔ مہمانوں کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں ویڈیو کانفرنسنگ اور ملٹی میڈیا کی جدید سہولت موجود ہے جس کی وجہ سے لیکچرز کے موقع پر طالبات کو کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
Load Next Story