’’ہور کوئی حکم ساڈے لائق‘‘

سلیم خالق  منگل 13 ستمبر 2022
ورلڈکپ میں کسی غیرمعمولی کارکردگی کی توقعات نہ رکھیں۔ فوٹو: فائل

ورلڈکپ میں کسی غیرمعمولی کارکردگی کی توقعات نہ رکھیں۔ فوٹو: فائل

’’58 رنز پر 5سری لنکن کھلاڑی آؤٹ، اب تو جیت پکی ہو گئی، زبردست‘‘

فائنل میں جب پاکستانی بولرز نے ابتدا میں کامیابیاں سمیٹیں تو بیشتر شائق یہی سوچ رہے ہوں گے، انھیں لگتا ہو گا کہ ٹاپ آرڈر تو اڑا دی اب باقی بیٹرز پر قابو پانا مشکل نہیں لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا،سری لنکا نے 170 کا بڑا مجموعہ حاصل کر لیا، حیرت ہی ہوتی ہے کہ کیسے ایسا ہوگیا، بابر کی کپتانی میں خامیاں نظر آئیں، انھوں نے بولرز کا درست استعمال نہ کیا،محمد نواز سے صرف ایک اوور کرایا، فیلڈ پلیسنگ درست نہ تھی،فیلڈنگ بھی انتہائی غیرمعیاری رہی۔

شاداب خان جیسے ٹاپ فیلڈر نے 2 کیچز ڈراپ کیے، رن آؤٹ کے مواقع بھی ٹیم نے ضائع کیے،نسیم شاہ اور محمد حسنین بہت مہنگے ثابت ہوئے، دونوں نے بالترتیب40 اور41 رنز دے دیے، ہمیں لگ رہا تھا کہ ینگسٹرز شاہین شاہ آفریدی کی کمی پوری کر دیں گے لیکن کارکردگی میں تسلسل کے فقدان نے یہ تاثر غلط ثابت کر دیا۔

حسنین کی جگہ میرحمزہ کا حق بنتا تھا جو لیفٹ آرم پیسر ہونے کی وجہ سے کامیاب ثابت ہوتے مگر انھیں لفٹ نہیں کرائی گئی، البتہ حارث رؤف کی تعریف بنتی ہے،لاہور قلندرز کی دریافت اس پیسر نے تین وکٹیں لیں، ڈیل اسٹین بھی اس پر عش عش کر اٹھے،بیٹنگ میں بابر اعظم کا ناکامیوں نے پیچھا نہ چھوڑا،6اننگز میں وہ11 کی اوسط سے محض68 رنز بنا سکے، شاہنواز دھانی کی ایوریج ان سے بہتر رہی،بطور بیٹر اور کپتان ناکامیاں بابر کا اعتماد کم کر سکتی ہیں۔

ورلڈ کپ سے قبل یہ پاکستان ٹیم کیلیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا، اس لیے بابر کو جلد خود اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے انھیں دور کرنا ہوگا، فخرزمان بھی اس ٹورنامنٹ میں بجھے بجھے دکھائی دیے،16 کی اوسط سے 96 رنز ہرگز ان کے شایان شان نہیں تھے، محمد رضوان نے گو کہ سب سے زیادہ 281 رنز بنائے لیکن ان کی سست بیٹنگ ٹیم کیلیے مشکلات کا باعث بننے لگی ہے، وہ ففٹی تک محتاط انداز اپناتے اور بعد میں ہٹنگ سے اسٹرائیک ریٹ بہتر کر لیتے ہیں مگر فائنل میں ایسا نہ ہو سکا۔

اگر کوئی اوپنر 17 ویں اوور میں55 رنز بنا کر آؤٹ ہو تو کوئی ٹیم کیسے170 کا ہدف عبور کر سکتی ہے؟اوپنرز کی وجہ سے مڈل آرڈر پر دباؤ پڑ رہا ہے جس میں ویسے ہی ورلڈ کلاس کرکٹرز شامل نہیں ہیں،بابر اور رضوان کی جوڑی نے پاکستان کو کئی فتوحات دلائی ہیں اور اب ورلڈکپ سے قبل شائد پیئر میں تبدیلی ممکن نہ ہو لیکن انھیں اسٹرائیک ریٹ بہتر بنانا ہوگا۔

ایونٹ کے 6 میچز میں آصف علی نے 8 کی اوسط سے 41 رنز بنائے، خوشدل شاہ نے 14 کی ایوریج سے 58 رنز اسکور کیے،افتخار نے 105 رنز بنائے، ان کی اوسط 26 رہی، شاداب خان نے 18 کی ایوریج سے54 رنز بنائے،محمد نواز نے15 کی اوسط سے 79 رنز اسکور کیے،اس میں سے 42 بھارت کیخلاف تھے، یہ سب اعدادوشمار آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بیٹنگ لائن کی ’’قوت‘‘ کا اندازہ ہو جائے، ہم جیسے لوگ شور مچاتے رہ گئے کہ مڈل آرڈر کمزور ہے سلیکٹرز نے سنی ان سنی کر دی۔

شعیب ملک کو بہترین فارم اور فٹنس کے باوجود کیوں منتخب نہیں کیا جا رہا؟ شان مسعود اپنے آپ کو ثابت کرنے کیلیے اور کیا کرے، سب نے دیکھا کہ ٹورنامنٹ کے دوران رضوان کی فٹنس اچھی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود انھیں آرام دینے اور متبادل وکٹ کیپر بلانے سے گریز کیا گیا، یہ پاکستان کی ٹیم ہے یا چند انفرادی شخصیات کی بادشاہت ہے،حیدرعلی کو جب کھلانا نہیں تھا تو ساتھ کیوں لے کر گئے تھے؟

ایشیا کپ میں گرین شرٹس کو پہلے میچ میں بھارت نے شکست دی،پھر ہانگ کانگ کے بچوں کو آؤٹ کلاس کر دیا، بھارت سے دوسرے میچ میں ایک گیند قبل فتح ملی،افغانستان سے میچ فاسٹ بولر نسیم شاہ نے مسلسل 2 چھکے لگا کر آخری اوور میں جتوایا،پھر سری لنکا نے مسلسل 2 میچز میں زیر کر لیا، اگر مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اسے ہرگز غیرمعمولی قرار نہیں دیا جا سکتا، کئی شعبوں میں بہتری کی واضح ضرورت ہے،کمزور چیف سلیکٹر محمد وسیم پر بابر، رضوان سب حاوی ہو جاتے ہیں،عثمان قادر میں بابر کے بچپن کا دوست ہونے کے سوا کوئی سی قابلیت ہے؟

کوچ بس کپتان کو خوش رکھ کر کرسی بچانے کی پالیسی پر گامزن ہیں، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ پاکستان کیخلاف میچ سے قبل پاکستانی چینل کیلیے بطور ماہر کام کرے ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، مگر افسوس ثقلین مشتاق نے ایسا کیا اور ایک بھارتی ویب سائٹ کیلیے چند ہزار ڈالرز کی خاطر تبصرے کرتے رہے، ان کا دوسرا کام میڈیا کانفرنسز میں شرکت تھا،محمد یوسف بطور بیٹنگ کوچ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

مڈل آرڈر کی کمزوری تک تو وہ دور نہیں کر سکے،ان کی ٹیم کے ساتھ کوئی افادیت نہیں،انھیں ہائی پرفارمنس سینٹر میں نوجوان کرکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع دینا چاہیے،ویسے بھی ورلڈکپ میں میتھیو ہیڈن ساتھ ہوں گے، پاکستان ٹیم بھارت کیخلاف میچ سے قبل ’’دوستی مشن ‘‘ پر رہی، پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کہ ایسی ویڈیو بنائیں جو بھارت میں خوب دیکھی جائے تاکہ ویوز اور ڈالرز آئیں۔

ہر شکست کے بعد شائقین کو بے وقوف بناتے ہوئے توجہ بھٹکانے کیلیے سوشل میڈیا پر فضول ویڈیوز یا کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کی پوسٹس ہوتی ہیں، اب ایسا کرنے کے بجائے ناکامی کی وجوہات تلاش کریں تو بہتر ہوگا،چیئرمین رمیز راجہ پر فائنل میں جب کبھی کیمرہ گیا وہ سنجیدہ شکل بنائے الگ تھلگ بیٹھے نظر آئے، دوسری جانب سارو گنگولی سمیت دیگر بورڈز حکام ہنسی مذاق بھی کر رہے تھے، اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ہر جگہ اسی کی نقل کریں۔

رمیز ایک اہم شخصیت سے بیحد متاثر ہیں اور انہی کا انداز اپنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، انھوں نے جونیئر لیگ کے فلاپ پروجیکٹ پر تمام توانائیاں جھونکی ہوئی ہیں ٹیم کیا کر رہی ہے، پی ایس ایل کا کیا حال ہے اس کی پروا نہیں،وہ میچ کے بعد بھارتی صحافی سے بھی الجھ پڑے، اتنی بڑی پوزیشن پر آنے کے بعد آپ کو اپنے جذبات قابو میں رکھنا پڑتے ہیں،اب بھی وقت ہے ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ کیخلاف سیریز میں ہی غلطیاں سدھاریں، مستحق کھلاڑیوں کا انتخاب کریں، سلیکشن کمیٹی کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنے فیصلے کرے۔

ہیڈ کوچ دیگر سرگرمیوں کے بجائے ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کیلیے اقدامات کریں، کپتان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا چھوڑیں، اسی صورت میں کوئی فرق پڑے گا ورنہ ورلڈکپ میں کسی غیرمعمولی کارکردگی کی توقعات نہ رکھیں، بس کسی چھوٹی ٹیم کو ہرانے پر ’’ہور کوئی حکم ساڈے لائق‘‘ والی ویڈیو ہی جاری کر کے خوش ہو جائے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔