پاگل کتے اور Rabies

جمیل مرغز  جمعـء 23 ستمبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

پروفیسر ڈاکٹر لالہ رخ ‘ خیبر میڈیکل کالج اور حیات شہیدٹیچنگ اسپتال کی سابقہ ہیڈآف گائناکولوجی اینڈ Obstetrics ہیں‘ ان کا لکھا ہوا یہ کالم مجھے ڈاکٹر عبید‘ پلاسٹک سرجن نے بھیجا ہے ‘ڈاکٹر صاحب خود بھی سوشل اور میڈیکل مسائل کے اچھے رائٹر ہیں۔مفاد عامہ کے خیال سے میں نے اس کو چھاپنے کا ارادہ کیا ۔

’’رے بیز ایک مہلک بیماری ہے ‘جو انسانوں کو بعض پالتو اور جنگلی جانوروںکے کاٹنے سے ہو جاتی ہے ‘ اس کا سبب Rabies کا وائرس ہوتا ہے‘ یہ وائرس ان جانوروں کے منہ کے لعاب میں پایا جاتا ہے ‘جیسے کتے‘بلیاں‘گیدڑ‘بھیڑیا‘چمگادڑ‘رکون لومڑی اور کچھ دوسرے دودھ پلانے والے جانور ہیں ۔

ہر سال دنیا میں 55’000 سے زیادہ افراد اس بیماری سے مرتے ہیں۔ 99ٍِ فیصد لوگوں کو یہ مرض‘ پالتو جانوروں سے ہوتا ہے ‘جن کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہوتے ‘ایک معمولی خراش بھی اس کا باعث بن سکتا ہے ‘ایک دفعہ اس مرض کی علامات ظاہر ہوجائیں تو اکثر 72گھنٹوں کے اندر یقینی موت واقع ہوجاتی ہے۔جس جانور کو ’’رے بیز‘‘ ہوجائے وہ عموماً دس دن کے اندر مرجاتا ہے۔

اس لیے اگر ممکن ہو تو کاٹنے والے جانور کو دس دن تک نگرانی میں رکھا جائے۔ اگر اس دوران وہ مرجائے تو وہ رے بیڈ ہوگااور کاٹے جانے والے فرد کو ویکسین لگانی پڑے گی۔ نئی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کہ بعض دفعہ جانور کے تھوک میں وائرس ہوتا ہے ‘ مگر وہ خود بہت عرصے تک زندہ رہتے ہیں‘چنانچہ اب اگر کسی کوکوئی جانور کاٹے‘تو فوراً ویکسین لگانی چاہیے ‘چاہے جانور میں بیماری کی علامات نہ ہو‘جانورمیں رے بیز کی علامات میں اس کی عادت میں تبدیلی نمایاں ہوتی ہے‘یا تو وہ خاموش ہوجاتا ہے ‘یا خوراک نہیں کھاتا‘پانی سے ڈرتا ہے یا غضبناک ہوکر ہر ایک کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔

اس کی چال میں توازن نہیں رہتا‘ اور بعض دفعہ اس کے جسم کے بعض حصے مفلوج ہو جاتے ہیں‘جب بھی کسی جانور پر رے بیزکا شک ہو‘ تو اس کو کسی کم تکلیف دہ طریقے سے موت کی نیند سلادینا چاہیے ‘تاکہ وہ کسی کو کاٹ نہ سکے۔انسانوں میں علامات جانور کے کاٹنے سے ‘علامات کے ظاہر ہونے تک عموماً 2سے8ہفتے لگتے ہیں‘کبھی کبھی یہ دورانیہ دس دن سے دو سال تک بھی ہو سکتا ہے۔

زخم دماغ سے جتنا نزدیک ہوگا ‘علامات اتنی جلدی ظاہر ہوں گی ‘زخم بڑا ہو یا مریض بچہ ہو ‘تو بھی علامات کا ظہور جلدی ہوگا‘جب وائرس دماغ یا حرام مغز تک پہنچ جائے ‘تو بچنا ناممکن ہوتا ہے۔آج تک دنیا میں چند افراد ہی اس بیماری سے صحت یاب ہو سکے ہیں وہ بھی گزشتہ چند سالوں میں‘دماغ تک وائرس کو پہنچنے میں دس سے پچاس دن لگ سکتے ہیں۔علامات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔

1۔فلو کی قسم کے اثرات ‘گلے میں درد۔ 2۔ چڑچڑا پن اور مزاج میں سختی ‘غصیلہ پن۔ 3۔زیادہ ہلنا جلنا اور احتجاجی رویہ ۔ 4۔عجیب خیالات اور الجھن‘ غیر معمولی جسمانی حرکت 5۔ عضلات کی سختی ‘سخت تھکن 6۔ جسمانی اعضاء کی کمزوری یا فالج7۔لعاب دہن کی زیادتی 8۔ قے‘ سر درد اور بخار–9پانی اور ہوا سے ڈرنااور دورہ پڑجانا10۔کچھ نہ نگل سکنا ۔

یہ واقعہ 1984کا ہے ‘پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ہاسٹل کے میڈیکل ’’A‘‘یونٹ کے رجسٹرار اور ٹی ایم او‘ ڈاکٹر عبداللہ شاہ صاحب تھے ‘ان کو اپنے FCPSامتحان کے لیے ایک ریسرچ پرچہ لکھنا تھا‘ انھوں نے اپنے پروفیسر ڈاکٹر الف خان کے مشورہ سے فیصلہ کیا کہ وہ رے بیز کے مریضوں پر ریسرچ کرینگے چنانچہ انھوں نے ان مریضوں پر کام کرنا اور مواد اکھٹا کرنا شروع کیا ‘جو مریض بھی علامات شروع ہونے کے بعد آتے تھے۔

چاہے انھوں نے ویکسین کی ہو یا نہیں ‘وہ سب مر جاتے تھے ‘ان کی موت بہت خوفناک اور دردناک ہوتی ہے۔تب انھوں نے اخبارات اور محکمہ صحت کی مدد سے صوبہ سرحد کے تمام اضلاع میں خصوصاً ڈاکٹروں میں یہ اطلاع کرائی کہ جس شخص کو بھی پاگل کتا کاٹے ‘وہ جلد لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ڈریکل اے وارڈ میں پہنچے ‘اس کے علاوہ دوائیوں کی بڑی دکان میڈیکوز کے مالک ملک اختر سے رابطہ کیا گیا کہ وہ رے بیز کی امپورٹڈ ویکسین بڑی مقدار میں پاس رکھے۔

تب بڑی تعداد میں مریض آنے لگے اور ان کو باقاعدگی سے فرانس یا سوئیٹزر لینڈ کی بنی ہوئی ویکسین کا مکمل کورس لگایا جاتا ‘بہت جلد یہ معلوم ہو گیا کہ جو مریض باہر کے بنے ہوئے ویکسین وقت پر لگاتے لیتے تھے وہ بچ جاتے تھے۔آج کل ویکسین ہندوستان سے آرہی ہے۔ غریب مریضوں کی مدد یونٹ میں قائم کردہ فنڈ سے کی جاتی تھی۔

ایک اور بنوں سے آٹھ مریض ایک ساتھ آگئے‘ جن میں بچے بھی تھے ‘یہ لوگ گاؤں کی مسجد سے فجر کی نماز کے بعد نکلے ہی تھے کہ سامنے سے ایک بھیڑیا آتا دکھائی دیا‘اس جانور نے حملہ کرکے ان آٹھ لوگوں کو کاٹ لیا‘خوش قسمتی سے یہ لوگ وقت پر لیڈی ریڈنگ اسپتال آگئے اور ان کو ویکسین لگ گئی اور خدا کے فضل سے وہ سب زندہ بچ گئے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ اس بھیڑیے کو مار کر دفن کردیا گیا تھا‘ڈاکٹر شاہ صاحب نے ان سے پہلے روز کہہ دیا تھا کہ اس بھیڑیے کا سر منگوا لو‘ چنانچہ جلد ہی اس بات پر عمل ہوا‘معلوم کرنا تھا کہ وہ بھیڑیا ’’ رے بیڈ‘‘ تھا کہ نہیںچنانچہ اس کے سر کو بوری میں ڈال کرایک خط سمیت اسلام آباد کے ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کو بھیجا گیا ‘ رپورٹ کے مطابق بھیڑیے کا سر رے بیز سے بھراہوا تھا ‘یعنی اس کو رے بیز کا مرض تھا۔

احتیاط۔ رے بیز کے بارے میں ضروری معلومات تمام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں‘کیا معلوم آپ کی اس کوشش کی وجہ سے کسی کی جان بچ جائے ‘اپنے علاقے سے آوارہ کتے بلیوں کا خاتمہ کریں اپنے پالتو جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈالیں‘انھیں اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ باہر رکھیں‘اگر گھر سے باہر ساتھ لے جانا ہو تو زنجیر ڈال کر اس کو اپنے قابو میں رکھیں‘ اپنے پالتو جانوروں کو کسی اچھے ملک کی بنی ہوئی موثر ویکسین لگوائیں‘اگر آپ کی ملازمت ایسی ہوکہ جانوروں کے ساتھ کام کرنا پڑے تو ‘ خود کو بھی ویکسین لگائیں۔ خونخوار قسم کے کتے اکثر اپنے مالک کو بھی کاٹ لیتے ہیں۔

مردہ جانوروں کوچھونے سے بچیں ‘مردہ پرندوں کے چھونے سے بھی رے بیز کے واقعات ہوئے ہیںاگر کوئی مشکوک جانور کاٹ لے تو فوراً زخم کو صابن اور پانی سے اچھی طرح اورچند بار دھویں‘اس کے فوراً بعد ویکسین لگوائیں‘اگر چہ زخم کسی خراش کی شکل میں کیوں نہ ہو۔وائرس جانور کی تھوک میں ہوتا ہے ‘اس لیے اس کے چاٹنے سے بھی خطرہ ہوسکتا ہے‘ ویکسین جتنی جلدی لگائی جائے اتنا ہی زیادہ فائدہ ہو گالیکن اگر چند دن دیر بھی ہوجائے تو بھی لگوا لیں۔

رے بیڈ جانور کو بند رکھیں ‘اگر دس دن کے اندر مر جائے تو یقینی ریبڈ تھااگر بچ جائے تو بھی خطرہ ختم نہیں ہواکیونکہ نئی ریسرچ کے مطابق بعض ریبڈ جانور دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں‘اس لیے ہر کاٹنے والے جانورکوریبڈ سمجھ لیں اگر اس کو ویکسین نہیں لگی ہوئی۔

ویکسین ۔ملکی اور ہندوستانی ویکسین کی افادیت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘اس لیے صحیح درجہ حرارت پر رکھی ہوئی پورپ کی بنی ہوئی ویکسین ہی استعمال کریں‘بڑوں اور بچوںکے لیے مقدار یکساں ہے ‘بڑوں کو انجکشن بازو کے اوپری حصے میں لگتے ہیںاور بچوں کو ران کے سامنے اوربیرونی حصے میںعموماً چار انجکشن لگتے ہیں۔

پہلے دن ‘پھر ساتویں‘ اکیسویں اور اٹھائیسویں دن ‘پہلے دن امینو گلوبین کا انجکشن بھی لگتا ہے ‘جوزخم کے قریب آس پاس لگتا ہے‘ اگر اس سے کچھ بچ جائے ‘تو وہ بھی مسل میں لگا دیں‘ آخر میں میری تمام پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ ’’ رے بیز‘‘ کے بارے میں علم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیںاور حکومت ‘محکمہ صحت‘ انتظامیہ اور میڈیا سب مل کر کو شش کریںکہ آج کے بعد رے بیز سے کوئی انسانی جان ضایع نہ ہواور یہ بیماری ہمارے ملک سے ختم ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔