تھر کا نوحہ

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 20 مارچ 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

تھر پارکر پاکستان کا سب سے بڑا ریگ زار جہاں ہر حد نگاہ ریت پر جا کر رک جاتی ہے۔ جہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ، نہ زندگی کی گہما گہمی۔ ہر طرف سناٹوں کا راج رہتا ہے۔ لُو کے تھپیڑے جہاں گرمیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ ایسے جہنم میں بھی ہزاروں بہادر انسان وہاں رہتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو تھر صرف انتخابات کے موقعے پر یاد آتا ہے اور ووٹ لینے کے بعد اپنی موروثی روایت کے مطابق اس علاقے کو اس طرح بھول جاتے ہیں جس طرح امریکا روس کی واپسی کے بعد افغانستان کو بھول گیا تھا۔ تھر پارکر کے غریب باسیوں کو تھر میں جن مشکلات کا سامنا ہے اس سے ملک کا ہر شخص واقف ہے ۔

تھر کے رہنے والوں پر کیا کیا قیامتیں گزر جاتی ہیں اس کا تصور بھی وہ عمائدین نہیں کر سکتے جو ووٹ لینے تک اس جہنم کو جنت بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس بار تھر کے باسیوں کو قحط نے گھیر لیا ہے۔ چھوٹے اور معصوم بچے زیادہ دیر بھوک برداشت نہیں کر سکتے سو اس بار تھر کے قحط نے تازہ اطلاعات کے مطابق 127 معصوم بچوں کی بھینٹ لے لی ہے اور ان انسانیت سوز اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے شہریوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ تھر میں انسان نما حیوانوں کی مجرمانہ بے اعتنائیوں اور بے حسی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا نے والے ان سیکڑوں معصوم بچوں کو شہید کہا کہا جانا چاہیے یا نہیں اور ان کی موت کے ذمے داروں کو غازی کہہ کر ان کا مان بڑھانا چاہیے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا بہتر جواب تو ہمارے محترم علماء ہی دے سکتے ہیں لیکن ان بچوں کی شہادت کے ذمے داروں کو کیا سزا ملنا چاہیے؟ اس کا جواب ہم قانون اور انصاف کے رکھوالوں سے طلب کر سکتے ہیں۔

میں تھر کے المیے کے بعض گوشوں پر نظر ڈالنے سے پہلے اس حوالے سے احفاظ الرحمٰن کا وہ مذمتی نوحہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس ملک کی وڈیرہ شاہی کی درست تصویر کشی کرتا ہے، اس نوحے میں وڈیرہ شاہی کی عوام سے محبت کے علاوہ وہ حیوانیت بھی اجاگر ہوتی ہے جس نے انسان کے نام کو رسوا کردیا ہے۔

مصیبت کی گھڑی میں ہم تمہیں تنہا نہ چھوڑیں گے
ملائی بوٹی کھائیں گے
چکن تکا بھی کھائیں گے
فرائیڈ فش بھی کھائیں گے
جو بریانی ہے، وہ تو خاص ہمارے دل کی رانی ہے
اور اس کے ساتھ یہ جو قورمہ ہے من کو بھا تا ہے
مٹن کی ڈش نہ کھائیں گے تو بکرے شاد نہ ہوں گے
اور اس کے ساتھ چاول کاشمیری ہیں، سبحان اﷲ
پلاؤ ہے، کباب ریشمی بھی ہے، جزاک اﷲ
اجی، خاطر جمع رکھیے، کوئی بھی ڈش نہ چھوڑیں گے
مصیبت کی گھڑی میں ہم تمہیں تنہا نہ چھوڑیں گے
جو بچے مر رہے ہیں، اس پہ ہم بھی غم سے بوجھل ہیں
مگر یہ ماجرا بیماریوں کا شاخسانہ ہے
اگرچہ اس وبا میں بھوک کا بھی تھوڑا حصہ ہے
(محض تھوڑا سا حصہ ہے)
ہمارے مہرباں افسانے گھڑ نے پر ہیں آمادہ
مگر ان کے یہ افسانے بھلا کیا ہم کو زک دیں گے
ہمارا عزم پختہ ہے، شکستہ دل نہ ہم ہوں گے
یہ فنگر فش کی جو ڈش ہے، مری جانب بڑھا دینا
تسلی سے سنو پیارے، تمہیں تنہا نہ چھوڑیں گے
مصیبت کی گھڑی میں ہم تمہیں تنہا نہ چھوڑیں گے
یہ فنگر فش کی جو ڈش ہے …!!

احفاظ الرحمٰن کا یہ مذمتی نوحہ ان لوگوں کی مذمت میں پیش کیا گیا ہے جو تھر کے شہیدوں کی داد رسی کے لیے گئے تھے اور اس ریگ زار میں راستہ بھول گئے اور راستہ بھولنے کا غم غلط کرنے کے لیے راستے میں ایک محفل سجائی جس کا ذکر میڈیا میں آ گیا اور ان غریبوں کے جانثاروں کی جانثاری سے دنیا واقف ہو گئی۔ ہمارے حکمران فرما رہے ہیں کہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا کہ میڈیا نے اسے بنا دیا ہے۔ یعنی 127 معصوم بچوں کا بھوک سے جان دینا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جہاں 50 ہزار انسان انتہائی بے دردی سے شہید کر دیے گئے ہوں وہاں 127 بچوں کی بھوک سے شہادت بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے۔
ایک خاتون از طبقہ حکمران فرماتی ہیں کہ یہ ہلاکتیں بھوک سے نہیں بیماری سے ہوئی ہیں۔ مختصر جہاں ایک طرف 127 بچے بھوک سے جان کی بازی ہار گئے ہیں اسی تھر کے ایک علاقے میں وہ محفل سجتی ہے جس کا منظر نامہ احفاظ الرحمن نے پیش کیا ہے۔

اس مسئلے نے اتنا زور باندھا ہے کہ ہمارے سیاسی فرعون یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’’تھر کے مسئلے میں ہم سے کوتاہی ہو گئی ہے‘‘ مسئلہ یہ کوئی رضائے الٰہی کی موت نہیں کہ اسے روتے پیٹتے برداشت کر لیا جائے یہ 127 معصوم بچوں کا قتل عمد ہے جس پر دفعہ 302 لاگو ہونی چاہیے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم نے تھر میں 127 معصوم بچوں کے لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اتنی اموات کے ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے‘‘ ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس المیے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’’تھر میں جتنے بچے مرے ہیں اس کی ذمے دار حکومت سندھ ہے‘‘ بظاہر یہ المیہ چند لوگوں کی مجرمانہ غفلت نظر آتا ہے لیکن در حقیقت یہ اس پورے طبقے، اس پوری کلاس کا سنگین جرم ہے جو اس ملک پر 66 سالوں سے قبضہ جمائے بیٹھی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔