خوشونت سنگھ،ایک عہد کی موت

نصرت جاوید  جمعـء 21 مارچ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کسی اور موضوع پر لکھنے کا ارادہ باندھ کر قلم اُٹھایا ہی تھا کہ خوشونت سنگھ کے مرنے کی خبر آگئی۔ میں ان سے پوری زندگی میں صرف ایک بار ملا ہوں۔ 1984ء میں اسلام آباد کے جس انگریزی اخبار میں جونیئر رپورٹر کی حیثیت میں کام کر رہا تھا اس نے ان دنوں ایک پاک بھارت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس تین روزہ کانفرنس کے زیادہ تر سیشنز کی کارروائی اخبار کے لیے لکھنے کے علاوہ میری ذمے داری یہ بھی تھی کہ میں خوشونت سنگھ کو ان کے ہوٹل کے کمرے سے نکال کر کانفرنس ہال میں ’’وقت‘‘ پر لائوں۔ جب کانفرنس ختم ہوجائے تو ان کی خدمت میں اردلیوں کی طرح حاضر رہوں اور انھیں کہیں جانے کے لیے ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ضرورت ہو تو اس کا فوراً بندوبست کروں۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے پہلے میں نے خوشونت سنگھ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔

ہمارے دفتر میں البتہ ڈاک کے ذریعے ان دنوں ایم۔جے۔اکبر کی ادارت میں شایع ہونے والا کلکتہ کا انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف بڑی باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ مجھے اس اخبار کی زبان اور لے آئوٹ نے بہت متاثر کیا۔ اس کا باقاعدہ قاری ہوتے ہوئے مجھے خوشونت سنگھ کے ہفتہ وار کالم کی لت بھی لگ گئی۔ ان کالموں کی وجہ سے میں نے یہ فرض کرلیا کہ موصوف ایک پھڈے باز اور پھکڑباز لکھاری ہیں جو شراب کے عادی اور گندے لطیفوں کو جمع کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی لگن میں مبتلا ہیں۔ مجھے شک ہے کہ میرے اخبار کی انتظامیہ کے میری ذات کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات تھے۔ خوشونت سنگھ پر میری ڈیوٹی لگاتے ہوئے شاید کچھ لوگوں نے سوچا ہو کہ ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘۔

بہرحال میں جب خوشونت سنگھ کی ڈیوٹی کے لیے پہلے روز حاضر ہوا تو موصوف خاصے شفیق مگر انگریزی میڈیم والے Snobنظر آئے۔ میں نے انگریزی میں اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے صرف یہ جاننا چاہا کہ میرا تعلق کس شہر سے ہے۔ لاہور کا ذکر سنا تو بڑی گرم جوشی سے صرف اتنا کہا کہ اس شہر سے تعلق کا دعوے دار ہوتے ہوئے مجھے انگریزی میں ایک ’’سردار‘‘ سے اپنا تعارف کروانے پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ پھر میرے محلے اور کالج کے بارے میں پوچھا۔ گورنمنٹ کالج کا سنا تو فرض کرلیا کہ میں نے صرف ان کی کتابیں ہی نہیں سارا اُردو اور انگریزی ادب بھی پڑھ رکھا ہوگا۔ فارسی کا ایک شعر انھوں نے اس حوالے سے پڑھا جس کا مفہوم تو میں سمجھ پایا مگر اس شعر سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہ ہوسکا۔

اسلام آباد میں ان کے قیام کے دوران جنرل ضیاء الحق نے اس کانفرنس کے شرکاء کو اپنے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر بُلا رکھا تھا۔ میں انھیں لینے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ پوری طرح تیار مگر غروبِ آفتاب کے بعد والے شغل میں مصروف تھے۔ ڈرتے ہوئے میں نے انھیں جنرل ضیاء الحق کی ’’پارسائی‘‘ یاد دلانا چاہی۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جو وقت انھوں نے اس دعوت میں جانے کے لیے اپنے طور پر طے کر رکھا تھا اسی پر گھڑی دیکھ کر اُٹھے اور میرے گندھے پر ہاتھ رکھ کر لفٹ میں سوار ہوکر نیچے آئے۔ سرکاری دعوت تک پہنچنے کے بعد جب سرکاری پروٹوکول والوں نے انھیں اپنی نگرانی میں لے لیا تو میں خوف کے مارے خوشونت سنگھ سے کنی کتراکر بہت دور لگی ایک میز پر دبک کر بیٹھ گیا۔ خوشونت سنگھ کی مگر ضیاء الحق نے بڑی آئو بھگت کی۔ اپنے ساتھ والی کرسی پر مرکزی میز پر بٹھایا اور دانت نکوس نکوس کر ان کے فقروں پر زور دار ہنسی ہنستے رہے۔ اس دعوت کے اختتام پر خوشونت سنگھ نے ’’انگور کی بیٹی‘‘ کی شان میں صحافیوں کے ایک گروہ کے سامنے بہت سارے اشعار پڑھے جو زاہد اور ملا کی مذمت پر مرکوز رہے۔ ہمارے اُردو اخباروں نے اپنے صفحاتِ اوّل پر انھیں جھلکیوں کی صورت نمایاں انداز میں چھاپا۔ پھر وہ بھارت لوٹ گئے۔

ان کے چلے جانے کے بعد میں نے ان کی کتابیں ڈھونڈیں اور انھیں پڑھنے کے بعد ان کی ہر نئی کتاب کا انتظار کرتا رہا۔ خوشونت سنگھ نے بے تحاشہ لکھا ہے۔ لوگ ان کے “A Train to Pakistan”والے ناول کی بہت تعریفیں کرتے ہیں۔ مجھے لیکن وہ اتنا پسند نہیں آیا۔ تخلیقی اعتبار سے میری ناقص رائے میں ان کا شکاہکار دلی پر لکھا ہوا ناول ہے جو اس شہر کی تاریخ کو بھی حیرت انگیز انداز میں بیان کردیتا ہے۔ موصوف نے ایک سکھوں کی تاریخ بھی لکھی ہے لیکن ایک صحافی کے انداز میں ۔رنجیت سنگھ ان کا ہیرو نظر آتا ہے۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ مگر خوشونت سنگھ کو پڑھ کر میں رنجیت سنگھ کی شخصیت، سیاست اور ماہرانہ سفارت کاری کو ٹھوس علمی اور تحقیقی انداز میں ہرگز نہیں سمجھ پایا۔

خوشونت سنگھ اعلیٰ پائے کی کتابیں شاید اس لیے نہیں لکھ پائے کہ وہ ایک کل وقتی لکھاری تھے جنھیں زندہ رہنے کے لیے اخباروں میں بھی تسلسل سے لکھنا ہوتا تھا۔ اتنا کچھ لکھنا ہرگز ممکن نہیں تھا اگر ان کی زندگی میں لگن کے ساتھ ساتھ ایک سخت گیر ڈسپلن پر ہر صورت عمل کرنے کی عادت نہ ہوتی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد ایک مخصوص وقت پر سوجانے کے بعد علی الصبح اُٹھنے والا خوشونت سنگھ حقیقی زندگی میں اپنے بارے میں پھیلے اس عام تاثر کے بالکل برعکس تھا کہ وہ ایک ہمہ وقت نشے میں دھتDirty Old Man ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ مرتے دم تک اپنی ’’پنجابیت‘‘پر قائم رہے۔ یہ ’’پنجابیت‘‘ تعصب اور سامراجی ذہنیت والی ہرگز نہیں تھی۔یہ تورانی،فارسی، ہندوستانی اور بعدازاں انگریزی تہذیب کا ایک خوب صورت آمیزہ تھی۔ اس ’’پنجابیت‘‘ کا پیروکار خود کو عقلِ کُل نہیں جانتا اور نہ ہی پارسائی کا دعوے دار بنا وعظ فروشی میں مصروف رہتا ہے۔ ایسا شخص زندگی سے بھرپور ہوتا ہے جو عام انسان کے اندر موجود کمینگیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے۔ خوب صورت چیزوں کو سراہتا ہے اور ہر اس شخص کو کافی شک وشبے سے دیکھتا ہے جو خود کو اخلاقی حوالوں سے عام انسانوں سے کہیں بالاتر سمجھتا ہے۔ کھلے ڈلے انداز میں سیاسی، انتظامی اور دانشوری کی بنیاد پر قائم اشرافیہ میں چھپے عام انسان ڈھونڈ کر بے نقاب کردیں تو پڑھنے والوں کو کچھSadistic Pleasureمل جاتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے ’’گنجے فرشتے‘‘ میں یہی تو کیا تھا۔ وہ بدنصیب مگر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔ خوشونت سنگھ ایک خوش حال گھرانے کا فرد تھا۔ آسودگی میں پلے اس شخص کو معاشی محرومیوں کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس نے جو چاہا کھل کر لکھا اور اپنی بات پر ڈٹے رہتے ہوئے زندہ رہنے کا گُر بھی سیکھ لیا۔

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بھارت جیسے ایک بہت بڑی آبادی والے ملک میں انگریزی زبان میں Dirty Old Manبنے رہنا شاید پاکستان کے مقابلے میں زیادہ آسان تھا جہاں منٹو صرف اُردو میں ہی لکھ سکتا تھا۔ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ اسلام کے نام پر قائم ہوئے ملک میں برداشت کرنا ویسے بھی بہت مشکل تھا۔ اس اعتراف کے بعد مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ نریندرمودی کی محبت میں مبتلا ہوتے ہوئے بھارت میں بھی اب بتدریج ایسا ماحول بن رہا ہے جو شاید ایک اورخوشونت سنگھ کو گوارا نہ کرسکے۔ خوشونت سنگھ کی موت اسی لیے مجھے ایک پورے عہد کی موت نظر آرہی ہے۔ وہ عہد جس میں لوگ آپ کی ’’ہمتِ کفر‘‘ کو صرف برداشت ہی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اسے کبھی کبھار ہنس کر سراہ بھی دیا کرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔