امریکا خطرناک ترین ملک

عثمان دموہی  جمعـء 28 اکتوبر 2022
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

سابق امریکی صدر بش جونیئر سے لے کر اب تک جتنے بھی امریکا میں صدور برسر اقتدار آئے ہیں تمام ہی دنیا کو تباہی و بربادی سے ہمکنار کرنے کا موجب بنتے رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے دنیا میں امن کو آگے بڑھانے کے بجائے بدامنی کی ہی ہمت افزائی کی ہے۔

صدر بش امریکا جیسے سیکولر ملک میں اپنے مذہبی اور متعصبانہ جذبات کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے۔ بش نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا پروپیگنڈا کیا جو بعد میں بالکل غلط ثابت ہوا اور پھر انھوں نے خود اعتراف کیا کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا غلط اطلاعات پر کیا گیا تھا۔ ان کے اس اعتراض سے خود ان کی اور سی آئی اے کی اسلام دشمنی سامنے آجاتی ہے ، چنانچہ بش نے بغیر کسی عذر کے عراق پر حملہ کیا اور اسے تباہ و برباد کردیا۔

نائن الیون کے وقت صلیبی جنگ کا اعلان کرکے اپنی متعصبانہ ذہنیت کا برملا اظہار کیا۔ اس کے بعد اوبامہ اپنی کالی رنگت کی وجہ سے ڈر ڈر کر کام کرتا رہا تاکہ انتہا پسند سفید فام امریکی جو اس کی بحیثیت امریکی صدر تعیناتی سے سخت ناراض تھے، اس کی حکومت کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کردیں۔ چنانچہ وہ بھی اسلام دشمنی پر مبنی پالیسی پر چلتا رہا۔

اوبامہ کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل نوازی کی انتہا کردی۔ اس نے تمام ہی مسلم ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مجبورکیا اورکچھ مسلم ملک اس کی دھمکیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اب بائیڈن ٹرمپ سے زیادہ عمر رسیدہ تو ہیں ہی ساتھ ہی قدامت پرست بھی ہیں۔ وہ اس نئے دورکو سرد جنگ والا دور بنانا چاہتے ہیں۔ روس اور چین کے خلاف بیانات دینا ان کا روز کا معمول ہے۔

حال ہی میں انھوں نے روس اور چین کے ساتھ پاکستان کو بھی بغیر سوچے سمجھے آڑے ہاتھ لے لیا اور پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کے ایٹمی اثاثوں کو بے قاعدہ قرار دے دیا۔ پاکستانی حکومت نے بائیڈن کے اس بیان کی سخت مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفتر خارجہ طلب کر کے انھیں احتجاجی مراسلہ تھمایا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بائیڈن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہے اور اس کے جوہری ہتھیار بین الاقوامی معیار کے مطابق محفوظ ہیں۔ انھیں یہ بات تو بھارت سے کرنا چاہیے کہ اس کے جوہری ہتھیار کبھی بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس کے ہاں تو کھلے عام یورینیم کی فروخت ہوتی رہتی ہے اور چند سال قبل اس کا ایک جوہری راکٹ پاکستان کی سرزمین پر گرا تھا جس سے بڑی تباہی ہو سکتی تھی مگر ایسا نہ ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو خطرناک ترین ملک قرار دینے سے پہلے جوبائیڈن کو اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ان کا اپنا ملک کتنا امن پسند ہے۔ دنیا کا خطرناک ترین ملک صرف امریکا کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے جو آئے دن چھوٹے ممالک پر چڑھائی کرتا رہتا ہے اور انھیں تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اس کی واضح مثالیں عراق شام لیبیا، صومالیہ، افغانستان اور یمن ہیں۔

زیادہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے پہلے ٹرمپ بھی بہکی بہکی باتیں کرتے تھے اور بائیڈن ان سے بھی زیادہ غیر ذمے دارانہ بیانات دے رہے ہیں جس سے نہ صرف ان کی وقعت کم ہو رہی ہے بلکہ امریکا کی بچی کچھی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے اکثر ریمارکس امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی سے ٹکراتے رہے ہیں اب بائیڈن بھی ویسے ہی بیانات دے رہے ہیں جن سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

بائیڈن نے پاکستان کے بارے میں جو بات کی ہے وہ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کی عکاس نہیں ہے چنانچہ ان کے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے 13 اکتوبر کو اپنے خطاب میں پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں جو بیان دیا تھا وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کمپین کمیٹی کے اجلاس میں دیا گیا تھا وہ کسی طرح بھی امریکی پالیسی کے مطابق نہیں تھا۔

امریکا پاکستان کے جوہری اثاثوں کو محفوظ سمجھتا ہے اور اسے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھنے کی پاکستانی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔ اس کے علاوہ امریکا پاکستان کے ساتھ برسوں سے جاری تعاون کی قدر کرتا ہے اور اسے جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان سے پتا چلا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ہی کا موقف اصل امریکی موقف ہے اور صدر بائیڈن یا ان سے قبل کے امریکی صدور کے بے ہنگم بیانات ان کی اپنی سوچ اور ضرورت کے مطابق تھے۔

یہ ماجرا ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ایم کیو ایم کے بانی ترنگ میں نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے تھے۔ ان کے ان بے ہنگم بیانات کی پھر پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو وضاحت کرنا پڑتی تھی۔ پھر ایک دن جب انھوں نے مردہ باد کا نعرہ بلند کیا تو اس کی پاداش میں انھیں اپنی پارٹی سے بے دخل ہونا پڑا اور پھر پارٹی کو سینئر رہنماؤں نے خود سنبھال لیا۔ دراصل ایم کیو ایم کے رہنما بانی متحدہ کے متنازعہ بیانات کی وضاحت اور صفائی پیش کرتے کرتے تنگ آ چکے تھے چنانچہ انھوں نے پھر اپنا راستہ الگ کرلیا۔

بائیڈن دراصل امریکا کے ایک ناکام صدر ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے دور میں ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا۔ ادھر تائیوان کے محاذ پر چائنا نے بائیڈن کی حکمت عملی کو ناکام بنا کر تائیوان کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے۔ تائیوان کے مسئلے پر عالمی برادری چین کے حق میں ہے کیونکہ جب اقوام متحدہ ایک چائنا کے فارمولے کو تسلیم کرچکی ہے تو پھر دو چین کیسے ہو سکتے ہیں۔

ادھر یوکرین کے مسئلے پر بھی امریکا کو روس کی جانب سے ایٹمی حملے کی دھمکی دی گئی ہے جس پر بائیڈن سخت پریشان ہیں۔ کیونکہ اس وقت امریکا اپنی داخلی تشویش ناک صورت حال اور معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے ایٹمی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ادھر عرب ممالک نے بھی بائیڈن سے دوری اختیار کرلی ہے چنانچہ اپنی ناکامیابیوں کو چھپانے کے لیے انھوں نے اپنی پارٹی کے ارکان کے سامنے جہاں روس اور چین کو تنقید کا نشانہ بنایا وہاں پاکستان کو بھی نہیں چھوڑا۔

پاکستان مخالف بیان کے ذریعے وہ اپنی پارٹی کے اسرائیل اور بھارت نواز ارکان کو خوش کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس وقت مڈٹرم الیکشن ہونے والے ہیں اور اس میں کامیابی کے لیے اپنے پارٹی ارکان کو خوش رکھنا ضروری ہے پھر ان کی اپنی صدارت جسے ٹرمپ نے چیلنج کر رکھا ہے خطرے میں ہے چنانچہ ایسے وقت میں پارٹی ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔