آزاد خیالی کی منطق…

عمران شاہد بھنڈر  ہفتہ 29 مارچ 2014
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

آزاد خیال لوگ جب الٰہیات کا انکار کرتے ہیں تو وہ خود کو عقلیت اور منطق کے اصولوں کا پیرو کار بتاتے ہیں، لیکن جب اپنی آزاد خیالی کی وضاحت کرتے ہیں تو سب سے پہلے انھی منطقی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں جن کا سہارا وہ اپنے افکار کو تقویت دینے کے لیے لیتے ہیں۔وہ مختلف فلسفیوں کے افکار کا ملغوبہ تیار کرتے ہیں، جس میں کہیں بھی کوئی باطنی ربط موجود نہیں ہوتا۔تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو عقلیت کا الٰہیات کے ساتھ انتہائی پیچیدگی میں نفی و اثبات کا تعلق رہا ہے۔علمیات یا منطق کا مسئلہ ہو یا پھر اخلاقیات کا کوئی قضیہ،عقل اس کے بارے میں حکم ضرور صادر کرتی ہے۔عقل اپنی سرشت میں آزاد خیال ہرگز نہیں ہے۔ منطق کے اصول آہنی اور منظم ہیں۔ منطق کے اصولوں کو دریافت کیا جاتا ہے، تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ ان کو دریافت کرنے کے بعد ان کی حرکت کی سمت کو محض آزاد خیالی کا لبادہ اوڑھ کر تبدیل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جونہی ہم ایک بار منطق کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو پھر ہم منطقی اصولوں کی رہنمائی نہیں کرتے ، بلکہ انتہائی محتاط انداز میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔ منطق تفکری عمل کا ایک ایسا نظام پیش کرتی ہے جو انسانی تعقل پر انتہائی سخت پابندیاں عائد کرتا ہے، مگر اسے سمجھ کرہی انسان آزادی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔بصورتِ دیگر وہ پھر انھی مراحل پر بھٹکتا رہتا ہے کہ جن کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ ان کو طے کر کے آگے بڑھ چکا ہے۔ منطق ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔منطق تعقل کو اپنی امیج پر تخلیق کرتی ہے۔ تضاد و کشمکش،متناہی ولامتناہیت اورنفی اور اثبات جیسے تصورات و اقدار منطق کے اندر سے جنم لیتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے سے انسان لاشعوری طور پر غیر منطقی ، عدم تعقلی اور نام نہاد ’’آزاد خیالی‘‘ میں جکڑا جاتا ہے۔ لہذا آزاد خیال لوگوں کا خود کو آزاد خیال کہنا اور اس کے ساتھ ہی منطقی اور عقلی بھی کہنا ایک ایسا تضاد ہے جسے آزاد خیال دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

منطق کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ جسے محض خیالات کی سطح پر ہی جانا جاتا ہے۔ منطق کی سچائی کو اس وقت ہی پرکھا جاسکتا ہے جب سماج پر اس کا اطلاق کیا جائے اور یہ سماجی تضادات کی تحلیل میں معاون ہو۔تاہم اس سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سماج کی اپنی کوئی باطنی منطق یا اس کا کوئی میکنزم ہے کہ جس کے تحت یہ رواں دواں رہتاہے یا یہ محض غیر منطقی قوتوں کی آماجگاہ ہے کہ جس کے تحت حکمران اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں؟ علمیات اور منطق کے نقطۂ نظر سے سماجی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سماج محض بے ہنگم ،انتشار پذیر اور اندھی قوتوں سے عبارت نہیں ہے۔ سماج کا اپنا ایک میکنزم ہے ۔ یہ ہماری خواہشوں سے بالا اپنے ہی قوانین کے تابع ہوتا ہے۔ ان قوانین کو دریافت کرکے سماج کو ایک بہتر شکل میں استوار کیا جاسکتا ہے۔ منطقی اصول محض سوچ کے ذریعے اور سوچ کے اندر ہی اختراع نہیں ہوتے، یہ سماج کی باطنی حرکت اور سماجی میکنزم کے انسانی ذہن میں انعکاس ہی سے متشکل ہوتے ہیں۔

حکمران عام طور پر علم دشمن اور مفادات پرست ہوتے ہیں اور سماج کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں، محض اس لیے کہ سماج پر ان کی مطلق العنانیت کا سلسلہ چلتا رہے۔ لالچ، طمع، بددیانتی، بداعمالی، ظلم و استبداد سرمایہ داری نظام کی سرشت میں پیوست ایسے عناصر ہیں کہ جب یہ نظام اپنے ہی پیدا کردہ گہرے اور پیچیدہ تضادات کی گرفت میں آجاتا ہے، جن کی نظری و عملی سطح پر تحلیل ممکن نہیں رہتی ، تو نظری سطح پر اس کے نظریہ ساز تضادات کو حتمی تسلیم کرلیتے ہیں اور عملی سطح پر اس کے محافظ اس نظام کو برقرار رکھنے اور اسے توسیع دینے کے لیے جنگیں برپا کرتے ہیں۔یہ ’دانشور‘ جدید جنگوں اور دہشت و بربریت کی وجوہ کو سرمائے کے بحران کی بجائے کسی اورآئیڈیالوجی کا بحران قرار دیتے ہیں،جب کہ حقیقت میں جنگیں سرمایہ داری نظام اور اس کو چلانے والی آئیڈیالوجی کا غیر منطقی اظہار ہوتی ہیں۔جنگ حقیقت میں منطق کے غیر منطق اور روشن خیالی کے عدم روشن خیالی میں تبدیل ہونے سے عبارت ہوتی ہے۔ طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر اس غیر انسانی نظام کو تقویت دی جاتی ہے۔

الٰہیات یا منطق میں توسیع کا عمل حقائق کے اثبات اور نفی سے عبارت ہوتا ہے، یعنی نہ ہی کلی نفی ہوتی ہے کہ جو بنیادی مقدمات سے مکمل علیحدگی کی عکاسی کرے اور نہ حتمی اثبات ہی ہوتا ہے کہ جو صرف ایک ہی بار ہو اور بعد ازاں اس میں توسیع کی گنجائش ختم ہوجائے۔ ہمارے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ عہد حاضر میں اس غیر انسانی سرمایہ دارانہ نظام کی کونسا فلسفہ و فکر بہتر سطح پر تفہیم کراتے ہیں،اس کے تضادات کو سامنے لاتے ہیں اور ان کی تحلیل کا طریقۂ کار بتاتے ہیں۔ اس کے لیے ذاتی نوعیت کے تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معروضی طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا۔کسی بھی نظام کی تفہیم کا عمل صرف اس کے ارتقائی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاسکتا، اس نظام میں مضمر ارتقا اور تخریب و تباہی جیسے پہلوؤں کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کی حاصلات کے ساتھ اس کی پھیلائی گئی تباہیوں کا بھی ادراک کرنے سے ہی اس نظام کی حقیقی قدر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کی برپا کی گئی جنگوں اور تباہیوں کا عمل اس کی نفی کے قضیے کو سامنے لاتا ہے اور فکری سطح پر روشن خیالی کے اندر اس کے محدود کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

کسی بھی نظریے کی توسیع اس نظریے کے انہدام سے عبارت نہیں ہوتی۔ روشن خیالی کے عہد میں جو نظریے اور فلسفے پروان چڑھے ان میں سے کوئی بھی اپنی ’اصل‘ شکل میں موجود نہیں ہے۔ خیالات کے رد و نمو (Sublation) کا عمل مسلسل جاری ہے۔ جن نظریوں اور فلسفوں میں ’تخالف‘ یا ’نفی‘ جیسے تصورات کو ضم کرنے کی اہلیت ہوتی ہے، ان کی مخالفت اور نفی کے باوجود ان کی متعین کردہ حدود سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ ژاک دریدا اپنی کتاب ’’تحریر اور افتراق‘‘ میں جرمن فلسفی جارج ہیگل کے حوالے سے ایک دلچسپ نکتہ یہ اٹھاتا ہے کہ جو مفکر ہیگل کی زیادہ ’مخالفت‘ کرتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ ہیگل کے فلسفے کے حصار میں جکڑے جاتے ہیں، کیونکہ اختلاف ہیگل کے فلسفے کا ایک بنیادی مقولہ ہے، جو بآسانی مخالف کو خود میں تحلیل کرلیتا ہے۔الٰہیاتی مفکرین کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہ الٰہیات کے بنیادی مقدمات کو ذہن میں رکھ کراسے توسیع دینے کے عمل سے خوف زدہ ہیں۔ہر اصول کا سماجی حرکت سے تضاد میں آکر غیر متعلقہ ہونا ایک فطری عمل ہے، جس سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اس سے نبرد آزما ہونا ضروری ہوتا ہے۔ نفی و اثبات جیسے تصورات کو کسی بھی آئیڈیالوجی کا بنیادی جزو سمجھ لینے سے وسعت آشنا آئیڈیالوجی کی محض نفی نہیں ہوتی، اس کا اثبات بھی عمل میں آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔