غلطی کب کہاں اور کیسے سرزد ہوئی

وہ تاخیر کے ساتھ یہ سیاسی داؤ کھیل رہے ہیں جو انھیں پہلے کھیلنا چاہیے تھا

اقتدار ملنے کے کچھ عرصے بعد سے ہی سابق وزیراعظم اورچیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے شکوے، شکایات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، کبھی انھیں دو تہائی اکثریت نہ ملنے کی شکایت تھی، کبھی وہ ٹیم اچھی نہ ملنے کا شکوہ کرتے نظر آتے تھے جب کہ ہم ان کے بقول یہ بھی سن چکے ہیں کہ وہ بہترین ٹیم کے تخلیق کار رہ چکے ہیں،قومی کرکٹ ٹیم میں وسیم اکرم ان ہی کا تراشہ ہوا ہیرا تھے ، اس بات میں شک نہیں ہے۔

دوسری جانب تخت لاہور کے لیے وسیم اکرم پلس یعنی عثمان بزدار بھی عمران خان کا ہی انتخاب تھے، جن کی کارگردگی کا نہ تو وہ کریڈٹ لیتے ہیں نہ کسی پر الزام دیتے ہیں، اورنہ ہی تاحال اپنی غلطی مانتے ہیں، ہم نے دیکھا جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دور کرنے کا عندیہ دیا تو تحریک انصاف کے '' ڈیجیٹل مجاہدین '' نے ہرزہ سرائی شروع کر دی، تاہم عمران خان کے اعترافات پر وہ اس قسم کی جرات نہیں کرسکتے ہیں ایسا کیوں ہے؟

مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ میں تو بس یہ جانتی ہوں ''ہم غلام نہیں ہیں'' صراط مستقیم پر چلتے ہوئے سچ اور حق کہنے سے عار نہیں، مجھے آج تک ان ڈیجیٹل مجاہدین میں سے کسی ایک کی جانب سے یہ سننے یا دیکھنے کو نہیں ملا کہ آخر کیسے عمران خان غلطیاں کرتے چلے گئے جب کہ وہ جو جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جان سکتا ہے، وہ جو کہتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کہہ سکتا ہے، اس تناظر میں ایک بات تو طے ہے جیسی غلطیاں خان صاحب کرسکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ہے۔

خان صاحب اور ان کے پیروکار کا کہنا ہے کہ ہم نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دیکرسب سے سے بڑی غلطی کی، جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس بھیجنا ہماری بہت بڑی غلطی تھی، متحدہ قومی موومنٹ کے فروغ نسیم نے ہمیں گمراہ کیا، انھیں وزیر قانون بنانا ہماری بہت بڑی غلطی تھی،نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا بہت بڑی غلطی تھی، یوکرین جنگ کے دوران روس جانا ایک اور بہت بڑی غلطی تھی، اتحادیوں کے ساتھ ملکر حکومت بنانا بہت بڑی غلطی تھی، سکندر سلطان کو چیف الیکشن کمشنر بنانا بہت بڑی غلطی تھی، ریحام سے شادی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

یعنی خان صاحب کا پونے چار سالہ دور اقتدار غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، مگر ڈیجیٹل سچا مجاہد اس پر خاموشی کا مثالی مظاہرہ کیے، قومی اداروں کی تضحیک میں مصروف عمل ہے، تحریک انصاف اپنے خلاف لکھنے اوربولنے والی صحافت کو لفافہ کہتی ہے، اگر کوئی صحاٖفی ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ نظر آئے تو اس کی ڈیجیٹل میڈیا پر پگڑی اچھالنے کو قومی فرض سمجھا جاتا ہے جب کہ جو صحافی عمران خان کے سامنے جھکے ان کی عقیدت کو غلامانہ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ عمران خان کے سامنے جھکے ہیں اور اس اقدام کو پی ٹی آئی والے امر بالمعروف کہتے ہیں، خان صاحب یوٹرن لینے والوں کو بڑا لیڈر کہتے ہیں، اس لیے گاہے بگاہے یوٹرن لیتے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلان کے باعث سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دورہ پاکستان ملتوی کیا، اس سے قبل بھی عمران خان کے دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا، پروٹوکول نہ لینے کا درس دینے والے عمران خان کی سیکیورٹی کے اخراجات ماہانہ 2.19 ملین اور سالانہ 26.30 ملین سے زیادہ ہیں، جب کہ خان صاحب سادہ زندگی کا درس دیتے ہیں ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ موت سے بھی نہیں ڈرتے ہیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزوں کو سب سے زیادہ سمجھنے والے خان صاحب سی این این کی صحافی کے سوال کو گول مول کرجاتے ہیں۔امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو کے دوران میزبان عمران خان سے بار بار پوچھتی رہی کہ'' آپ حملے میں تین افراد کے نام لے کر سنگین الزامات لگا رہے ہیں ،اس کے شواہد کیا ہیں؟''

اینکر کے سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی واقعات کا پس منظر بتاتے رہے، انھوں نے کہا کہ پہلے میں اس کیس کا پس منظر بتا دوں،اس پر اینکر نے کہا کہ'' پس منظر تو معلوم ہے، بڑے احترام سے آپ سے الزامات کے شواہد کا پوچھا ہے ''امریکی ٹی وی کی خاتون اینکر کے بار بار اصرار پر بھی عمران خان انھیں شواہد پیش نہ کر سکے۔مزے کی بات یہ بھی ہے،اب سابق وزیراعظم سائفر کے معاملے سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

عمران خان نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں کہا کہ'' میں جس پاکستان کی قیادت کرنا چاہتا ہوں اس کے سب کے ساتھ بالخصوص امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں''اپنی حکومت گرائے جانے میں امریکی سازش سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ''جہاں تک میرا تعلق ہے تو یہ معاملہ اب ختم ہوچکا، اب یہ بات میں نے پس پشت ڈال دی ہے۔''

عمران خان نے مزید کہا کہ'' امریکا سے ہمارے تعلقات آقا اور غلام یا آقا اور نوکر جیسے رہے ہیں، اور ہمیں کرائے کی بندوق کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن اس پر میں امریکا سے زیادہ اپنی حکومتوں کو ذمے دار سمجھتا ہوں۔''

سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل مجاہدین ملکی سلامتی اور بقا کے ضامن ادارے اور عدلیہ ان ملک دشمن عناصر کا معمول کا نشانہ بن چکے ہیں،بغیر ثبوت کے زہر اور بغض پھیلانے کا مقصد صرف اور صرف بلیک میلنگ کے ذریعے سیاسی اور ذاتی فوائد حاصل کرنا ہیں۔

عمران خان لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب پنجاب اورکے پی کے کی اسمبلیوں کی تحلیل کرنا چاہ رہے ہیں، وہ تاخیر کے ساتھ یہ سیاسی داؤ کھیل رہے ہیں جو انھیں پہلے کھیلنا چاہیے تھا، یوں لگتا ہے وہ فیس سیونگ چاہ رہے ہیں، شاید انھیں مقدمات کا سامنا کرنے کا خوف ہے کیونکہ جب وہ حکومت میں تھے تو انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ بہت سختی کا برتائو کیا تھا، شاید اسی وجہ سے ان کا لانگ مارچ اور دھرنا جلسے میں بدل جاتا ہے، بہرحال یہ آنے والا وقت بتائے گا، عمران خان دوبارہ وزیراعظم بنتے ہیں؟ جیل جاتے ہیں یا لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہیں۔
Load Next Story