پاکستانی معاشرہ اور گلابی اردو

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف  بدھ 21 دسمبر 2022
مختلف علاقوں میں نہ صرف مختلف لہجے ملیں گے بلکہ الفاظ کی ساخت کو ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مختلف علاقوں میں نہ صرف مختلف لہجے ملیں گے بلکہ الفاظ کی ساخت کو ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کےلیے مختلف صلاحیتیں دی ہیں، مثلاً، ہاتھوں کے اشاروں اور جسم (جسم کی حرکات) کے ذریعے سے کسی کی رائے یا کسی کے فعل پر اختلاف یا اتفاق کرنا۔ آنکھوں کے ذریعے انسان کسی رائے پر اختلاف یااتفاق کرسکتا ہے۔ لیکن ان دونوں میڈیم میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن بہت ہی محدود۔ اسی طرح اپنے جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ ’تحریر‘ بھی ہے، جس میں انسان اپنے خیالات کا اظہار ’کھل‘ کر لکھتا ہے۔ لیکن ان سب کے علاوہ سب سے اہم ذریعہ ’زبان‘ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’نطق‘ یعنی بات کرنے کی صلاحیت دی ہے اور یہ صلاحیت دوسری تمام صلاحیتوں میں سب سے بڑھ کر ہے۔ انسان کو لکھنا آئے نہ آئے، لیکن اپنی خوشی، غم، غصہ اور جذبات کا اظہار بذریعہ زبان کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ’عَلَّمَهُ الْبَيَانَ‘ (الرحمٰن: 4) اسے بولنا سکھایا۔ یعنی بولنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔

زبانیں بے شمار ہیں جنھیں ماہرینِ لسانیات نے بہت سے گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ بے شمار اور لامحدود چیزوں کو اسی طرح شمار کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ محققین نے جب نباتات پر تحقیق کی تو ان کی بے شمار اقسام تھیں، محققین نے ان کی خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کو چھوٹے بڑے گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کردیا، تاکہ ایک گروہ پر تحقیق ہوجائے پھر دوسرے گروہ پر، کیوں کہ اَن گنت اقسام پر تحقیق اتنی آسان نہیں تھی۔ اسی طرح محققین نے زبان کو بھی دو صورتوں میں تقسیم کیا ہے۔

معروف محقق شوکت سبزواری، اپنی کتاب ’اردو زبان کا ارتقا‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’دنیا کی زبانوں کو تقسیم کرنے کی صرف دو ہی صورتیں تھیں، ایک صوری (Morphological) دوسری نسلی (Genealogical)۔ پہلی صورت میں زبانوں کی عام ترکیبی یا تشکیکی صفات کے پیشِ نظر زبانوں کے جدا جدا زمرے یا گروہ بنائے گئے۔ دوسری صورت میں پہلے زبان کی بناوٹ، لفظوں کے اخذ و اشتقاق۔ صرفی و نحوی تغیرات کو دیکھا گیا۔ اس کے بعد ان زبانوں کو ایک خاندان میں رکھ دیا گیا۔‘‘ (اردو زبان کا ارتقا، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ص 2، پاک کتاب گھر39، پٹواٹولی ڈھاکہ، طبع اول، جولائی 1956)

زبان ایک نامی اور ذی حیات چیز ہے۔ وہ دوسری نامی چیزوں کی طرح بڑھتی اور ترقی کرتی ہے۔ زبانیں اسی طرح بنتی رہی ہیں۔ زندہ زبانوں کا یہ خاصا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر دوسری زبانوں کے الفاظ نہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ انھیں اپنے قالب میں ڈھال کر ایک نئی شکل دیتی ہیں۔ زبان اصل میں علامتوں کا ڈھانچہ ہے جس کی مدد سے خیالات اور حقائق کو واضح کیا جاتا ہے۔ زبان کی ادا شناسی اور بیان سے ہی معاشرے کو نہ صرف جانچا بلکہ سنوارا بھی جاسکتا ہے۔

اردو زبان کو دیکھا جائے تو اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ زبان کیسے معرضِ وجود میں آئی، کیا معاملات پیش آئے، اس بحث سے قطع نظر، تقسیم کے بعد ہی اردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا (کچھ عرصے تک اردو بنگالی کا مسئلہ چلتا رہا)۔ پاکستانی معاشرے میں اردو زبان اگرچہ زوال پذیر ہے (مختلف وجوہات ہیں؛ جیسے میڈیا انڈسٹری، اردو کے مقابلے میں انگریزی زبان کو ترجیح دینا وغیرہ)، لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں اردو ایک گلابی زبان بن گئی ہے۔ یہ زبان ایسی ہوگئی ہے جسے بیان کرنا بقول انور مسعود ’اَن بیان ایبل‘ ہے۔ صرف کراچی میں ہی اردو زبان سنی جائے تو مختلف علاقوں میں نہ صرف مختلف لہجے ملیں گے بلکہ کہیں کہیں تو الفاظ کی ساخت کو ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ یہاں صرف کراچی میں بولی جانے والی گلابی اردو (علاقوں کا نام لیے بغیر) سے متعلق چند مشاہدات قلم بند کیے جاتے ہیں۔

 

ہندوستانی فلموں کا اثر

ہندوستان سے ہم الگ تو ہوگئے لیکن ثقافتی طور پر ہم کہیں نہ کہیں اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہندوستان نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا کلچر بذریعہ میڈیا ہمارے اندر رچا اور بسا دیا ہے۔ اسی کلچر کے ذریعے ہم نے من حیث القوم، ہندوستانی فلموں میں بولی گئی زبان کا اثر اپنی زبان پر لے لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زبان میں جو شائستگی تھی وہ ختم ہوکر رہ گئی۔ مثلاً ’مجھے‘ کی جگہ ’میرے کو‘ نے لے لی۔ ’تمھیں‘ کی جگہ ’تمھارے کو‘ یا ’تیرے کو‘ نے لے لی۔ لفظ ’خیال‘ کی جگہ ’کھیال‘ نے لے لی، وغیرہ۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان فلموں میں جس طرح گالم گلوچ کرتے دکھایا جاتا ہے، اب گالم گلوچ پہلے کے مقابلے میں ہمارے یہاں عام ہوگئی ہے۔ یعنی اس طرح سے گالیاں دی جارہی ہوتی ہیں کہ نہ بولنے والے کو احساس ہورہا ہوتا ہے اور نہ سننے والے کو کہ کیا بولا جارہا ہے۔ اچھی باتوں کا اثر لینے کے بجائے ہم نے اُن باتوں کو اپنا لیا ہے جو ’اخلاقیات‘ سے گری ہوئی ہیں۔

 

وہ علاقے جہاں انگریزی زبان کا رجحان زیادہ ہے

ان علاقوں میں آپس میں بات چیت میں اردو زبان صرف ’ٹچ‘ دینے کےلیے بولی جاتی ہے۔ دورانِ گفتگو ستر سے اسّی فیصد انگریزی اور باقی بیس فیصد اردو بولی جاتی ہے۔ ان کی اردو میں بھی انگریزی آگئی ہے، یعنی اردو میں انگریزی لہجہ شامل کرلیا گیا ہے، جیسے حروفِ تہجی میں ’ر‘ کو انگریزی کے ’R‘ کی طرح پڑھا اور بولا جانے لگا۔ اسی طرح ان علاقوں کے رہائشی دکان داروں سے اردو زبان کم، جب کہ انگریزی زیادہ بولتے ہیں (شروع میں یہ دیکھا گیا تھا کہ بے چارہ دکان دار بڑی مشکل سے مطلب سمجھ پاتا، وہ سوائے ’یس‘ اور’نو‘ کے آگے نہیں جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دکان داروں نے بھی انگریزی سیکھ لی ہے)۔

 

اردو زبان کے ساتھ انگریزی کا ’ٹچ‘ دینا

یہ کسی خاص علاقے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انگریزی بولنے والوں سے متاثر ہوکر اپنی زبان میں انگریزی کا ’ٹچ‘ دینا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے کسی پوش علاقے میں خریداری کے وقت لوگوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر مکمل انگریزی تو بول نہیں سکتے، لیکن اگر بھاؤ تاؤ کا موقع مل جائے تو وہاں اردو انگریزی کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، جیسے کسی شے کی قیمت زیادہ ہے تو کہیں گے کہ ’’اس کی قیمت بہت ہائی High ہے‘‘ یا بازار میں کسی شے کی قیمت پوچھنی ہو تو ’’اس کی پرائس price کیا ہے؟‘‘ وغیرہ، وغیرہ۔

 

وہ علاقے جہاں مختلف صوبوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں

یہاں کے رہنے والوں نے اگرچہ میل ملاپ کےلیے اردو زبان کو ذریعہ بنایا ہے، لیکن جس طرح کی اردو بولی جاتی ہے اگرچہ دلچسپ بھی ہے اور مایوس کن بھی ہے، لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ بہرحال اردو ہی بولی جاتی ہے۔ یہاں اردو زبا ن سے متعلق جو مسائل دیکھنے میں آئے ہیں، ان میں؛ مذکر و مونث کی تمیزنہ کرنا، لفظوں کی صحیح ادائیگی نہ کرنا، مثلاً کسی کو بھوک لگ رہی ہے اور کھانے کا وقت ہوگیا ہے تو وہ کہے گا کہ ’’اب میں کھانا کھاؤں گا یا کھاؤں گی‘‘ لیکن اس کے برعکس اِن علاقوں کے لوگ یہ جملہ اس طرح ادا کریں گے؛ ’’اب ہم کھانا کھائے گا‘‘۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

 

وہ علاقے جہاں لوگ ہندوستان (دہلی) سے ہجرت کرکے آئے تھے

ان علاقوں میں اردو زبان قدرے صاف بولی جاتی ہے۔ یہاں کے مرد حضرات تو اردو بولتے ہی ہیں، لیکن خواتین خاص طور پر بول چال میں اردو محاورات و ضرب الامثال، تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال کرتی ہیں۔ خواتین زیادہ تر خارجی اثرات سے محفوظ رہتی ہیں، اس لیے یہ اپنی زبان میں محاورات و ضرب الامثال زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں دوسری خواتین کی نسبت خاصی تازگی اور برجستگی بھی ہوتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ان کے آباء دہلی سے ہجرت کرکے آئے تھے، اس لیے یہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں اردو بہتر بولتے ہیں۔

 

وہ گھرانے جہاں اردو زبان کو فروغ دیا جارہا ہے

ان ادبی گھرانوں کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی۔ ان لوگوں نے اردو زبان کو اپنی ہئیت کے لحاظ سے آج کے جدید دور میں بھی زندہ رکھا ہے۔ یہ لوگ اردو کے ادا شناس ہیں، ان کی زبان میں شائستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان لوگوں نے اردو کے فروغ کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں، مثلاً کراچی میں واقع ’اردو لغت بورڈ‘ میں پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی، پروفیسر سحر انصاری اور فہمیدہ ریاض جیسے ادبا شامل ہیں، جو اردو کے فروغ کےلیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
اگرچہ زبانوں کا یہی معاملہ رہتا ہے، لیکن ہندوستانی فلم انڈسٹری نے پاکستانی ثقافت پر منفی اثرات ڈالے ہیں، خاص طور پر زبان کے معاملے میں، جس سے اردو زبان میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور یہ سلسلہ کسی طرح رک نہیں رہا۔ اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود اردو زبان بہرحال اپنی اصل کے مطابق زندہ رہے گی، گلابی اردو بھی چلتی رہے گی، انگریزی زبان کا ٹچ بھی چلتا رہے گا اور اہلِ علم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اردو کی خوش بو گھولتے رہیں گے۔

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف

بلاگر پی ایچ ڈی اسلامیات ہیں اور گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی FB/zohaib.zaibi.77 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔