دہشت گردی نا منظور
2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔ اب پھر اس پلان کو مرتب اور نافذ العمل کی ضرورت ہے
رواں سال ملک میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، جس میں بدقسمتی سے پولیس فورس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، مگر عوام بھی محفوظ نہیں ہیں۔
پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے کی وجہ سے سو سے زائد شہادتیں ہوئی ہیں پھر کراچی پولیس پر حملے کی وجہ سے بھی عوام خوف میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے لی ہے، یعنی ٹی ٹی پی ایک بار پھر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں پاکستان کو مزید پرتشدد واقعات کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔ 2022 میں سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 282 اہلکاروں کی شہادت ہوئی جن میں سے 40 شہادتیں صرف دسمبر میں ہونے والے حملوں کے دوران ہوئیں ، ان میں شامل دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) حملے ، خودکش حملے اور سیکیورٹی پوسٹوں پر حملوں کے زیادہ تر واقعات پاک افغان سرحدی علاقوں میں ہوئے۔
2022 کے دوران پاکستان کو 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ، ٹی ٹی پی ، داعش اور بی ایل اے جیسی کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے ان میں سے 57 حملوں کی ذمے داری قبول کی، دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد 973 رہی۔ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں پرتشدد واقعات غیر معمولی طور پر بڑھ گئے جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں 108 فیصد اضافہ ہوا۔
ان واقعات کے نتیجے میں 62 فیصد شہادتیں عام شہریوں ، سرکاری عہدیداروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوئیں جب کہ بقیہ 38 فیصد ہلاکتوں میں عسکریت پسند ، باغی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث دیگر افراد مارے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا ، جس کے نتیجے میں صرف دسمبر کے دوران 2 درجن سے زائد حملے رونما ہوئے۔
اس کے نتیجے میں خیبر پختو نخوا میں ہونے والی اموات کی شرح ملک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی کُل اموات کا تقریباً 64 فیصد ہوگئیں ، اس کے بعد 26 فیصد اموات کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کا سِرا مشرقی افغانستان سے ملتا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے سرکردہ عسکریت پسندوں کی افغان طالبان مہمان نوازی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو دوبارہ زندہ کردیا ، 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی سرحدی باڑ پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکھاڑنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا دائرہ وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق بنوں میں مرکوز رہا ، یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار ، پکتیا سے ملحقہ ہیں، اسی لیے یہ علاقے پاکستانی حدود میں دہشت گردی کے مقاصد کے تحت داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
2023 میں پاکستان میں دہشت گردی کے مزید واقعات بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، گزشتہ دہائی کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے بظاہر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات رکیں گے نہیں، نیز یہ چیلنجز اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک کہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل رہیں گی۔
'' پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز '' کے جاری کردہ اعداد و شمار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے دوران سب سے زیادہ عسکریت پسند حملے 2022 میں رونما ہوئے، 2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔ اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 37 اور 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سال 2022 کے دوران پاکستان کو تقریباً 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 533 اموات ہوئیں جب کہ 832 افراد زخمی ہوئے۔ 2017 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان میں ایک سال کے دوران عسکریت پسندوں کے 300 سے زائد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کے 400 سے زیادہ واقعات ہوئے۔
دہشت گردوں نے تھانوں سمیت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا۔ بنوں میں سی ٹی ڈی دفتر پر حملہ بھی کیا ، جب کہ پشاور میں ریگی تھانہ ، تھانہ پھندو ، تھانہ بڈھ بیر سمیت کئی پولیس موبائل وینز پر حملے کیے گئے۔ پشاور کے تھانہ سربند حملے میں دہشت گردوں نے پہلی بار تھرمل ویپن سائٹ سے لیس اسنائپرگنز استعمال کرتے ہوئے ڈی ایس پی سردار حسین کو دو محافظوں سمیت شہید کیا۔
دہشت گرد جنوبی اضلاع میں بھی اسی جدید اسلحے کا استعمال کرتے رہے ہیں ، جو افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال بھی رہا ، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اب خیبر پختونخوا پولیس نے بھی جدید اسلحہ کے لیے 40 تھرمل ویپن سائٹ خریدے ہیں۔
آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں کی جیل سے بھاگے قیدی امریکا کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ خیبر پختونخوا کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد عموماً قبائلی اضلاع سے داخل ہوتے ہیں۔ پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کے لیے 900 کلو میٹر سے زیادہ سرحد پر باڑ بھی لگائی گئی ہے۔
2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔ اب پھر اس پلان کو مرتب اور نافذ العمل کی ضرورت ہے۔
پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے کی وجہ سے سو سے زائد شہادتیں ہوئی ہیں پھر کراچی پولیس پر حملے کی وجہ سے بھی عوام خوف میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے لی ہے، یعنی ٹی ٹی پی ایک بار پھر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں پاکستان کو مزید پرتشدد واقعات کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔ 2022 میں سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 282 اہلکاروں کی شہادت ہوئی جن میں سے 40 شہادتیں صرف دسمبر میں ہونے والے حملوں کے دوران ہوئیں ، ان میں شامل دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) حملے ، خودکش حملے اور سیکیورٹی پوسٹوں پر حملوں کے زیادہ تر واقعات پاک افغان سرحدی علاقوں میں ہوئے۔
2022 کے دوران پاکستان کو 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ، ٹی ٹی پی ، داعش اور بی ایل اے جیسی کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے ان میں سے 57 حملوں کی ذمے داری قبول کی، دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد 973 رہی۔ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں پرتشدد واقعات غیر معمولی طور پر بڑھ گئے جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں 108 فیصد اضافہ ہوا۔
ان واقعات کے نتیجے میں 62 فیصد شہادتیں عام شہریوں ، سرکاری عہدیداروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوئیں جب کہ بقیہ 38 فیصد ہلاکتوں میں عسکریت پسند ، باغی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث دیگر افراد مارے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا ، جس کے نتیجے میں صرف دسمبر کے دوران 2 درجن سے زائد حملے رونما ہوئے۔
اس کے نتیجے میں خیبر پختو نخوا میں ہونے والی اموات کی شرح ملک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی کُل اموات کا تقریباً 64 فیصد ہوگئیں ، اس کے بعد 26 فیصد اموات کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کا سِرا مشرقی افغانستان سے ملتا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے سرکردہ عسکریت پسندوں کی افغان طالبان مہمان نوازی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو دوبارہ زندہ کردیا ، 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی سرحدی باڑ پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکھاڑنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا دائرہ وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق بنوں میں مرکوز رہا ، یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار ، پکتیا سے ملحقہ ہیں، اسی لیے یہ علاقے پاکستانی حدود میں دہشت گردی کے مقاصد کے تحت داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
2023 میں پاکستان میں دہشت گردی کے مزید واقعات بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، گزشتہ دہائی کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے بظاہر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات رکیں گے نہیں، نیز یہ چیلنجز اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک کہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل رہیں گی۔
'' پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز '' کے جاری کردہ اعداد و شمار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے دوران سب سے زیادہ عسکریت پسند حملے 2022 میں رونما ہوئے، 2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔ اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 37 اور 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سال 2022 کے دوران پاکستان کو تقریباً 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 533 اموات ہوئیں جب کہ 832 افراد زخمی ہوئے۔ 2017 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان میں ایک سال کے دوران عسکریت پسندوں کے 300 سے زائد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کے 400 سے زیادہ واقعات ہوئے۔
دہشت گردوں نے تھانوں سمیت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا۔ بنوں میں سی ٹی ڈی دفتر پر حملہ بھی کیا ، جب کہ پشاور میں ریگی تھانہ ، تھانہ پھندو ، تھانہ بڈھ بیر سمیت کئی پولیس موبائل وینز پر حملے کیے گئے۔ پشاور کے تھانہ سربند حملے میں دہشت گردوں نے پہلی بار تھرمل ویپن سائٹ سے لیس اسنائپرگنز استعمال کرتے ہوئے ڈی ایس پی سردار حسین کو دو محافظوں سمیت شہید کیا۔
دہشت گرد جنوبی اضلاع میں بھی اسی جدید اسلحے کا استعمال کرتے رہے ہیں ، جو افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال بھی رہا ، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اب خیبر پختونخوا پولیس نے بھی جدید اسلحہ کے لیے 40 تھرمل ویپن سائٹ خریدے ہیں۔
آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں کی جیل سے بھاگے قیدی امریکا کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ خیبر پختونخوا کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد عموماً قبائلی اضلاع سے داخل ہوتے ہیں۔ پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کے لیے 900 کلو میٹر سے زیادہ سرحد پر باڑ بھی لگائی گئی ہے۔
2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔ اب پھر اس پلان کو مرتب اور نافذ العمل کی ضرورت ہے۔