کہاں ابراہم لنکن کہاں آپ
zahedahina@gmail.com
zahedahina@gmail.com
ان دنوں ملک اور عوام کو مشکلات سے نجات دلانے کے لیے کیسے کیسے نسخے تجویز ہو رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ دو یا تین سال پر پھیلی ہوئی ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہمارے تمام مسائل حل کردے گی۔ اس مجوزہ ٹیکنو کریٹ حکومت کو رد کرتے ہوئے، ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کا خیال ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل فوجی حکومت ہے۔ اس کی حمایت ملک کے اندر وہ چھوٹا سا گروہ کرتا ہے جو آمریت کے دور میں دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹتا ہے اور جس کے مرتبے ایسی حکومت کے زمانے میں بلند ہوتے ہیں۔ اس گروہ کے طاقتور حامی امریکا میں بھی ملتے ہیں۔ ان دنوں اہم امریکی اخباروں میں وہ تجزیے شایع ہو رہے ہیں جن میں ماضی کے پاکستانی آمروں کو سراہا گیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں پاکستان کے اندر دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی بحرانوں نے پھر فوجی حکمرانی کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا اور حکومت سے نالاں اکثر لوگ جمہوریت سے مایوس نظر آتے ہیں اور فوج کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اخبارنے کچھ مایوس پاکستانیوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جمہوریت سے انھیں کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ دور حکومت کو یاد کرتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں ملک میں خوشحال اور اقتصادی ترقی کی شرح بہتر تھی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور بھی مثبت تھا۔ انتظام و انصرام میں بھی فوجی اچھے اور بہتر منتظم ہوتے ہیں۔ عدلیہ انتظامیہ اور کسی حد تک فوج کے درمیان طاقت اور اختیارات کی کشمکش نے ایک ایسے وقت میں ملک کو غیر مستحکم ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستانی جمہوریت میں خواہ کتنی ہی خامیاں ہوں لیکن اتحادی حکومت نے کسی بغاوت، بڑے رہنما کے قتل یا کسی کو پھانسی دیے بغیر ساڑھے چار سال پورے کر لیے اور ملکی تاریخ میں طویل شہری حکومت بننے کے راستے پر ہے۔
یہ غیر ملکی تجزیہ نگار اس طرف اشارہ نہیں کرتے کہ یہ آمریتوں کے دور تھے جب عوام کے حقوق غصب کیے گئے۔ ان حکومتوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے جیلوں میں سڑتے رہے اور کچھ مار دیے گئے۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ اس دور میں نظر آنے والی خوش حالی چند لاکھ افراد تک محدود تھی جو کالے دھن کو پھیلاتے رہے اور اس پر عیش کرتے رہے۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ پہلی افغان جنگ میں سوویت یونین سے ویتنام کا حساب چکانے کے لیے ساری دنیا سے ''مجاہدین'' اکٹھا کیے گئے۔ ان کی مدد سے پاکستان نے امریکا کے لیے جو نیابتی کردار ادا کیا اس نے پاکستان کے روادار اور وسیع المشرب سماج کی بنت کو تباہ کر دیا۔ دوسری افغان جنگ جو پہلی جنگ کے مجاہدین کے خلاف لڑی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں شقی القلبی کا وہ سیلاب آیا ہے جو بچی کھچی بہتر اقدار کو بھی بہا لے گیا۔ اب مسجدیں تباہ کی جاتی ہیں، فاقہ زدہ اور اپنے گھروں کی بھوک سے بلبلائے ہوئے نوجوان روزی کی تلاش میں کسی پڑوسی ملک کا رخ کریں تو مسلک کی بنیاد پر ان کے بدن چھلنی کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہی اٹھارہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ عبدالستار ایدھی جن کی نماز جنازہ پڑھتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔ یہ وہ ایدھی ہیںجن کی زندگی مسخ اور تشدد زدہ لاشیں دیکھتے، ان کو غسل دیتے اور ان کو کفناتے دفناتے گزری ہے۔
اس سارے پس منظر میں پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ بیان نظر سے گزرا جس میں انھوں نے پاکستان میں اقتدار پر فوجی قبضے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی صدر ابراہم لنکن کی طرح ہیں جنہوں نے ملک بچانے کی خاطر آئین توڑا، ان کا کہنا تھا کہ ریاست تباہ ہو رہی ہے، لوگ سویلین حکومت کی ناکامی کے باعث فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے ڈیوڈ بریڈلی کو انٹرویو میں کہا کہ سویلین حکومت کی ناکامی کے باعث لوگ فوج کی جانب دیکھتے ہیں۔ ہماری (فوجیوں کی) مشکل یہ ہوتی ہے کہ ریاست کو بچائیں تا کہ آئین کو بچاسکیں۔ بدقسمتی سے ریاست کو بچانے کے لیے فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تا کہ آئین کو بچاسکے۔ انہو ں نے یہ بھیفرمایا کہ یہی خیالات امریکی صدر ابراہم لنکن کے بھی تھے۔
ان کا یہ جملہ پڑھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ امریکی رہنما ابراہم لنکن پر اس سے بڑا الزام اور اتہام ممکن نہیں۔ وہ ابراہم لنکن جس نے انتہائی غربت کی زندگی گزاری، جس نے صدر منتخب ہونے سے پہلے اور اس کے بعد آئین کی بالادستی اور غلامی کے خاتمے کے لیے دریائے خوں کی شناوری کو اپنا قومی فرض جانا۔ ایک جرنیل نے اسے میدانِ جنگ میں اپنی کارکردگی سے مایوس کیا تو لنکن دوسرا، تیسرا اور چوتھا جرنیل بدلتا چلا گیا۔ اس کے بارے میں یہ کہناکہ اس نے ملک بچانے کے لیے آئین توڑا، ایک ناقابل یقین بات ہے۔
واشنگٹن میں لنکن کے دیوہیکل مجسمے کے سائے میں کھڑے ہو کر اس کی زندگی کے آخری پندرہ بیس برسوں کو یاد کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ لنکن کا مجسمہ اس قدو قامت کا کیوں دکھایا گیا ہے کہ وہاں کھڑے ہوکر انسان کو بونا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وہ عظیم رہنما ہے جس کے ایک دستخط سے ساڑھے تین لاکھ غلام آزاد ہوگئے تھے۔ اس نے اپنی صدارت، اپنی مقبولیت اور اپنی زندگی ان غریب الغربا اور صدیوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے سیاہ فاموں کے لیے دائو پر لگا دی جنھیں امریکا کی نصف سے زیادہ آبادی ایسا دو پایہ سمجھتی تھی جو صرف بدترین مشقت کے لیے پیدا ہوا تھا اور بہ طور انسان وہ ان لوگوں کے لیے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔
یہ لنکن اور اس سے پہلے تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن کی شاندار اور جمہوری اور آئینی وراثت تھی جس نے 1896میں ولیم برائن سے یہ کہلوایا کہ ''آپ طلائی صلیب پر انسانیت کو مصلوب نہیں کرسکتے۔'' لنکن کی تحریریں اور تقریریں پڑھیے تو ایک ایسا انسان ہمارے سامنے آتا ہے جسے اپنے آرام، اپنی خوراک اور اپنے لباس کی ذرا پروا نہ تھی۔ صدر امریکا ہونے کے بعد بھی وہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار محسوس نہیں کرتا تھا اور وہائٹ ہائوس میں تزک و احتشام سے رہنا اور بڑی بڑی ضیافتوں کا اہتمام کرنا اس کے نزدیک تضیع اوقات تھا۔
خانہ جنگی کے دنوں میں اس نے کہا تھا کہ''میں یقین سے کہتا ہوں کہ جس طرح یہ حکومت جس میں آدھے اراکین غلامی کے حق میں اور نصف اس کے خلاف ہیں مستقل طور پرقائم نہیں رہ سکتی۔ ''لنکن کو اپنے دور صدارت میں ایک دن کا آرام نصیب نہیں ہوا۔ اس کی زندگی پڑھیے تو ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو ملکی حالات اور اس سے زیادہ غلاموں کی زندگی سنوارنے کے لیے مضطرب ہے۔ وہ کبھی بائبل کو پڑھتا ہے، کبھی اعلان آزادی کو اور کبھی امریکی آئین کی دستاویز کو آنکھوں سے لگاتا ہے اور ساری رات اپنے کمرے میں ٹہلتا رہتا ہے۔
خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد لنکن نے ستمبر 1862 میں اپنی کابینہ میں غلاموں کی آزادی کے اعلان کا مسودہ پیش کیا لیکن جنوری 1863سے پہلے یہ نافذ نہ ہوسکا۔ یہی وجہ تھی کہ جب کانگریس کا اجلاس ستمبر میں منعقد ہوا تو لنکن نے اس کی تائید کی اپیل کی۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے ایک نہایت شاندار جملہ قلم بند کیا۔ اس نے لکھا ''ہم دنیا کی آخری امید کو شریفانہ طور پر پورا کریں گے یا کمینگی کے ساتھ رد کردیں گے؟'' 1863 کے نو روز پر لنکن نے وائٹ ہائوس میں سیکڑوں لوگوں سے مصافحہ کیا۔ دوپہر کو وہ اپنے دفتر میں واپس آیا۔ اپنا قلم روشنائی میں ڈبویا اور غلاموں کی آزادی کے پروانے پر دستخط کرنے لگا پھر وہ اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہوا۔ اور کہا کہ'' اگر غلامی ظلم نہیں ہے تو دنیا میںکوئی فعل بھی ظلم نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی اس سے زیادہ درست کام نہیں کیا جو ابھی کرنے والا ہوں۔''
ایک ایسے بے مثال انسان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے امریکی ریاست کو بچانے کے لیے امریکی آئین توڑ دیا تھا، ہذیان کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے دانشور اور عقلِ کل آمر کا یہ انٹرویو جو انگریزی میں شایع ہوا، اس پر کسی امریکی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی اور اس نے یہ نہیں پوچھا کہ حضور! تاریخ کی وہ کون سی کتاب ہے جس سے آپ کا کہا درست ثابت ہوتا ہے؟
یہ امریکیوں کی کوئی مصلحت یا مجبوری ہوسکتی ہے لیکن امریکی آئین اور ریاست کی حفاظت کے جرم میں قتل ہو جانے والے لنکن پر ایک پاکستانی کی طرف سے لگائے جانے والے اس اتہام پر بے شمار پاکستانیوں کی طرف سے شدید احتجاج ہم پر واجب ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی بحرانوں نے پھر فوجی حکمرانی کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا اور حکومت سے نالاں اکثر لوگ جمہوریت سے مایوس نظر آتے ہیں اور فوج کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اخبارنے کچھ مایوس پاکستانیوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جمہوریت سے انھیں کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ دور حکومت کو یاد کرتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں ملک میں خوشحال اور اقتصادی ترقی کی شرح بہتر تھی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور بھی مثبت تھا۔ انتظام و انصرام میں بھی فوجی اچھے اور بہتر منتظم ہوتے ہیں۔ عدلیہ انتظامیہ اور کسی حد تک فوج کے درمیان طاقت اور اختیارات کی کشمکش نے ایک ایسے وقت میں ملک کو غیر مستحکم ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستانی جمہوریت میں خواہ کتنی ہی خامیاں ہوں لیکن اتحادی حکومت نے کسی بغاوت، بڑے رہنما کے قتل یا کسی کو پھانسی دیے بغیر ساڑھے چار سال پورے کر لیے اور ملکی تاریخ میں طویل شہری حکومت بننے کے راستے پر ہے۔
یہ غیر ملکی تجزیہ نگار اس طرف اشارہ نہیں کرتے کہ یہ آمریتوں کے دور تھے جب عوام کے حقوق غصب کیے گئے۔ ان حکومتوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے جیلوں میں سڑتے رہے اور کچھ مار دیے گئے۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ اس دور میں نظر آنے والی خوش حالی چند لاکھ افراد تک محدود تھی جو کالے دھن کو پھیلاتے رہے اور اس پر عیش کرتے رہے۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ پہلی افغان جنگ میں سوویت یونین سے ویتنام کا حساب چکانے کے لیے ساری دنیا سے ''مجاہدین'' اکٹھا کیے گئے۔ ان کی مدد سے پاکستان نے امریکا کے لیے جو نیابتی کردار ادا کیا اس نے پاکستان کے روادار اور وسیع المشرب سماج کی بنت کو تباہ کر دیا۔ دوسری افغان جنگ جو پہلی جنگ کے مجاہدین کے خلاف لڑی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں شقی القلبی کا وہ سیلاب آیا ہے جو بچی کھچی بہتر اقدار کو بھی بہا لے گیا۔ اب مسجدیں تباہ کی جاتی ہیں، فاقہ زدہ اور اپنے گھروں کی بھوک سے بلبلائے ہوئے نوجوان روزی کی تلاش میں کسی پڑوسی ملک کا رخ کریں تو مسلک کی بنیاد پر ان کے بدن چھلنی کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہی اٹھارہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ عبدالستار ایدھی جن کی نماز جنازہ پڑھتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔ یہ وہ ایدھی ہیںجن کی زندگی مسخ اور تشدد زدہ لاشیں دیکھتے، ان کو غسل دیتے اور ان کو کفناتے دفناتے گزری ہے۔
اس سارے پس منظر میں پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ بیان نظر سے گزرا جس میں انھوں نے پاکستان میں اقتدار پر فوجی قبضے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی صدر ابراہم لنکن کی طرح ہیں جنہوں نے ملک بچانے کی خاطر آئین توڑا، ان کا کہنا تھا کہ ریاست تباہ ہو رہی ہے، لوگ سویلین حکومت کی ناکامی کے باعث فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے ڈیوڈ بریڈلی کو انٹرویو میں کہا کہ سویلین حکومت کی ناکامی کے باعث لوگ فوج کی جانب دیکھتے ہیں۔ ہماری (فوجیوں کی) مشکل یہ ہوتی ہے کہ ریاست کو بچائیں تا کہ آئین کو بچاسکیں۔ بدقسمتی سے ریاست کو بچانے کے لیے فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تا کہ آئین کو بچاسکے۔ انہو ں نے یہ بھیفرمایا کہ یہی خیالات امریکی صدر ابراہم لنکن کے بھی تھے۔
ان کا یہ جملہ پڑھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ امریکی رہنما ابراہم لنکن پر اس سے بڑا الزام اور اتہام ممکن نہیں۔ وہ ابراہم لنکن جس نے انتہائی غربت کی زندگی گزاری، جس نے صدر منتخب ہونے سے پہلے اور اس کے بعد آئین کی بالادستی اور غلامی کے خاتمے کے لیے دریائے خوں کی شناوری کو اپنا قومی فرض جانا۔ ایک جرنیل نے اسے میدانِ جنگ میں اپنی کارکردگی سے مایوس کیا تو لنکن دوسرا، تیسرا اور چوتھا جرنیل بدلتا چلا گیا۔ اس کے بارے میں یہ کہناکہ اس نے ملک بچانے کے لیے آئین توڑا، ایک ناقابل یقین بات ہے۔
واشنگٹن میں لنکن کے دیوہیکل مجسمے کے سائے میں کھڑے ہو کر اس کی زندگی کے آخری پندرہ بیس برسوں کو یاد کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ لنکن کا مجسمہ اس قدو قامت کا کیوں دکھایا گیا ہے کہ وہاں کھڑے ہوکر انسان کو بونا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وہ عظیم رہنما ہے جس کے ایک دستخط سے ساڑھے تین لاکھ غلام آزاد ہوگئے تھے۔ اس نے اپنی صدارت، اپنی مقبولیت اور اپنی زندگی ان غریب الغربا اور صدیوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے سیاہ فاموں کے لیے دائو پر لگا دی جنھیں امریکا کی نصف سے زیادہ آبادی ایسا دو پایہ سمجھتی تھی جو صرف بدترین مشقت کے لیے پیدا ہوا تھا اور بہ طور انسان وہ ان لوگوں کے لیے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔
یہ لنکن اور اس سے پہلے تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن کی شاندار اور جمہوری اور آئینی وراثت تھی جس نے 1896میں ولیم برائن سے یہ کہلوایا کہ ''آپ طلائی صلیب پر انسانیت کو مصلوب نہیں کرسکتے۔'' لنکن کی تحریریں اور تقریریں پڑھیے تو ایک ایسا انسان ہمارے سامنے آتا ہے جسے اپنے آرام، اپنی خوراک اور اپنے لباس کی ذرا پروا نہ تھی۔ صدر امریکا ہونے کے بعد بھی وہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار محسوس نہیں کرتا تھا اور وہائٹ ہائوس میں تزک و احتشام سے رہنا اور بڑی بڑی ضیافتوں کا اہتمام کرنا اس کے نزدیک تضیع اوقات تھا۔
خانہ جنگی کے دنوں میں اس نے کہا تھا کہ''میں یقین سے کہتا ہوں کہ جس طرح یہ حکومت جس میں آدھے اراکین غلامی کے حق میں اور نصف اس کے خلاف ہیں مستقل طور پرقائم نہیں رہ سکتی۔ ''لنکن کو اپنے دور صدارت میں ایک دن کا آرام نصیب نہیں ہوا۔ اس کی زندگی پڑھیے تو ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو ملکی حالات اور اس سے زیادہ غلاموں کی زندگی سنوارنے کے لیے مضطرب ہے۔ وہ کبھی بائبل کو پڑھتا ہے، کبھی اعلان آزادی کو اور کبھی امریکی آئین کی دستاویز کو آنکھوں سے لگاتا ہے اور ساری رات اپنے کمرے میں ٹہلتا رہتا ہے۔
خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد لنکن نے ستمبر 1862 میں اپنی کابینہ میں غلاموں کی آزادی کے اعلان کا مسودہ پیش کیا لیکن جنوری 1863سے پہلے یہ نافذ نہ ہوسکا۔ یہی وجہ تھی کہ جب کانگریس کا اجلاس ستمبر میں منعقد ہوا تو لنکن نے اس کی تائید کی اپیل کی۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے ایک نہایت شاندار جملہ قلم بند کیا۔ اس نے لکھا ''ہم دنیا کی آخری امید کو شریفانہ طور پر پورا کریں گے یا کمینگی کے ساتھ رد کردیں گے؟'' 1863 کے نو روز پر لنکن نے وائٹ ہائوس میں سیکڑوں لوگوں سے مصافحہ کیا۔ دوپہر کو وہ اپنے دفتر میں واپس آیا۔ اپنا قلم روشنائی میں ڈبویا اور غلاموں کی آزادی کے پروانے پر دستخط کرنے لگا پھر وہ اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہوا۔ اور کہا کہ'' اگر غلامی ظلم نہیں ہے تو دنیا میںکوئی فعل بھی ظلم نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی اس سے زیادہ درست کام نہیں کیا جو ابھی کرنے والا ہوں۔''
ایک ایسے بے مثال انسان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے امریکی ریاست کو بچانے کے لیے امریکی آئین توڑ دیا تھا، ہذیان کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے دانشور اور عقلِ کل آمر کا یہ انٹرویو جو انگریزی میں شایع ہوا، اس پر کسی امریکی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی اور اس نے یہ نہیں پوچھا کہ حضور! تاریخ کی وہ کون سی کتاب ہے جس سے آپ کا کہا درست ثابت ہوتا ہے؟
یہ امریکیوں کی کوئی مصلحت یا مجبوری ہوسکتی ہے لیکن امریکی آئین اور ریاست کی حفاظت کے جرم میں قتل ہو جانے والے لنکن پر ایک پاکستانی کی طرف سے لگائے جانے والے اس اتہام پر بے شمار پاکستانیوں کی طرف سے شدید احتجاج ہم پر واجب ہے۔