آئین پاکستان کے ساتھ کھیلنا بند کیجیے

محمد مشتاق ایم اے  ہفتہ 13 مئ 2023
ہر کوئی آئینِ پاکستان کی اپنی اپنی خواہشات کے مطابق تشریح کرنے میں مصروف ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہر کوئی آئینِ پاکستان کی اپنی اپنی خواہشات کے مطابق تشریح کرنے میں مصروف ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ملک خداداد پاکستان میں اس وقت جو آئین نافذالعمل ہے، اسے 1973 کے آئین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جسے اُس وقت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 10 اپریل 1973 کو پاس کیا تھا۔ 12 اپریل 1973 کو اس کی توثیق ہوئی اور 14 اگست 1973 سے یہ آئین ملک میں نافذ کردیا گیا، جو آج تک مختلف ترامیم کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ملک کا پہلا آئین جو 1956 میں بنا اور دوسرا جو 1962 میں بنا، دونوں ہی بوجوہ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔

بلاشبہ آئین کسی بھی ملک کی ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے کہ جس کے بغیر یا اسے سمجھے بغیر کاروبار حکومت چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہی وہ دستاویز ہے جو ملک کے شہری سے لے کر اس کے تمام اداروں کے حقوق و فرائض اور ذمے داریوں کا تعین کرتی ہے اور بالخصوص ملک کے آئینی اداروں کی حدود و قیود اور طریقہ کار بھی یہی آئینی دستاویز طے کرتی ہے۔ اس آئین کی کسی شق میں ترمیم کیسے کرنی ہے، یہ بھی آئین پاکستان ہی بتاتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں آئین کو ایک مقدم دستاویز کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور اس سے روگردانی گویا حب الوطنی سے روگردانی تصور ہوتی ہے۔ جب کہ اگر آئین سے سنگین غدار ی کا مرتکب ہوا جائے تو ایسے شخص پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بھی چلایا جاسکتا ہے، جس کی سزا موت بھی ہوسکتی ہے۔ اور یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ کسی کو ملک کے آئین سے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے اور ملک کے افراد اور ادارے بغیر کسی حیل و حجت کے اپنے حقوق و فرائض کی روشنی میں کاروبار حکومت چلاتے رہیں۔

لیکن بدقسمتی سے جب ہم آئین پر متذکرہ بالا تمہیدی گفتگو کے بعد اپنے ملک میں آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے اور 280 آرٹیکلز پر مشتمل اس مقدس و مقدم دستاویز کے ساتھ مختلف افراد، پارٹیوں اور اداروں کا سلوک دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم یہ بات محض ہوا میں نہیں کر رہے بلکہ سیاسیات اور قانون کے طالب علم کے علاوہ محب وطن شہری بھی ملک کے آئین کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ پر نہ صرف افسردہ ہیں بلکہ اس بات پر متفکر ہیں جب آئین کو محض کاغذ کا ٹکڑا یا موم کی ناک بنا دیا گیا ہے تو اس کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کے تحت ملنے والے حقوق کی ضمانت کون دے گا؟

ہمارے ملک میں موجود لاکھوں وکلا اور جج صاحبان کے علاوہ ملک کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین اور ان کے قانونی ماہرین سب کے سب خود کو آئین کا حافظ اور محافظ نہ صرف کہتے ہیں، بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔ اسی طرح سارے افراد اور ادارے بھی آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارا آئین ان سب کی ذاتی خواہشات اور مفادات کے نرغے میں ہے اور ان سب نے مل کر اس کا گلا ایسے گھونٹ رکھا ہے کہ اس کو ابھی اپنی جان کی فکر دامن گیر ہے۔ ہر ایک یہاں اس کا نام لیوا اور محافظ تو کہلوانے میں سب سے پہلی صف میں کھڑا نظر آتا ہے لیکن ان سب کے عملی اقدامات ایسے ہیں کہ آئین کو خود سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس کے کس آرٹیکل کی اصل تشریح ہے کیا اور اس کا مقصد کیا ہے؟

اس المیہ پر مزید المیہ یہ ہے کہ ہم ملک میں آئین کے ساتھ ہر طبقہ فکر کا یہ سلوک دیکھتے ہیں تو جب اپنے حقوق کے بارے میں آئین پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم اسے لطیفہ سمجھ کر ہنسیں یا ایک ایسی حقیقت سمجھ کر روئیں جس کی کوئی تعبیر ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ماضی میں جھانکیں تو 1977 میں اسے لپیٹ کر رکھ دیا گیا، پھر 1999 میں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ پھر بعد میں بھی جس کا جو دل کیا، اس نے اس کی تشریح کرکے اپنا کام چلایا اور چلتا بنا۔

آج کل ہمارے ملک میں آئین کی مختلف شقوں کی مختلف افراد، طبقوں، اداروں اور پارٹیوں کی جانب سے جو تشریح کرکے خود کو سب سے معتبر اور دوسروں کو آئین کا مخالف ثابت کیا جارہا ہے، اس سے عام محب وطن آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہمارے آئین میں ایسی کیا راکٹ سائنس ہے جو اتنے بڑے دماغوں کو بھی سمجھ میں نہیں آرہی۔ اصل بات یہ ہے کہ سمجھتے یہ سب ہیں لیکن اس کی ہر شق کی تشریح اور نفاذ اپنی خواہشات اور مفادات کی چھتری تلے کرنے پر مجبور ہیں، ورنہ کبھی ایک کا اور کبھی دوسرے کا بوریا بستر گول ہوسکتا ہے۔

ہماری ان سب سے دست بدستہ درخواست ہے کہ ملک کے متفقہ آئین کو موم کی ناک نہ بنائیں کہ ضرورت کے تحت جب چاہیں وہاں موڑ لیں بلکہ ملک اور عوام کی حالت پر رحم کریں۔ اور خود کو آئین کی عملداری میں لے کر آئیں اور اگر کسی کو واقعی آئین کی کسی شق کی تشریح سمجھ میں نہیں آرہی تو اسے چاہیے کہ آئین و قانون کے کسی ماہر استاد کے پاس ٹیوشن رکھ لے تاکہ آئین کے ساتھ جاری کھلواڑ کو بند کیا جاسکے۔ ہماری اس روش پر اپنے تو اپنے، اب تو پرائے بھی ہنسنے لگے ہیں۔ اپنا نہیں تو اپنے ملک کا ہی خیال کرلیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔