- ممبئی میں مٹی کا طوفان، 100 فٹ لمبا بل بورڈ گرنے سے 14 افراد ہلاک
- غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ، امریکا
- بولرز کی خراب فارم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
- محمد رضوان نے اپنی ’سادہ‘ فلاسفی بیان کردی
- شاہین سے بدتمیزی، افغان شائق کو اسٹیڈیم سے باہر نکال دیا گیا
- کامیاب کپتان بننے پر بابراعظم کو چیئرمین کی جانب سے شرٹ کا تحفہ
- بجٹ، بزنس فورم کی لسٹڈ کمپنیوں کیلیے کم ازکم ٹیکس ختم کرنے سمیت مختلف تجاویز
- پاکستان سے توانائی، ڈیجیٹل ٹرانسفرمیشن دیگرشعبوں میں تعاون کرینگے، عالمی بینک
- غیرملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا
- 5 سال میں صرف 65 ارب روپے مختص، اعلیٰ تعلیم کا شعبہ شدید مشکلات کا شکار
- 4 سال میں مہنگائی کم، ترقی، سرکاری ذخائربڑھیں گے، آئی ایم ایف
- نااہل حکومتیں پہلے بھی تھیں، آج بھی ہے:فیصل واوڈا
- ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا انتظام 10 سال کیلئے بھارت کے حوالے کردیا
- مظفرآباد صورت حال بدستور کشیدہ، فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی
- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
ماں کا صرف ایک دن؟
’’مائی موم از دا بیسٹ‘‘، ’’آئی لو یو امی جان‘‘ اور ’’دنیا کی سب سے پیاری مما‘‘ جیسے جملوں کی گونج اور سوشل میڈیا پر ماں کے عالمی دن کے حوالے سے تصویروں کی بھرمار دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم مغربی ثقافت میں کس حد تک رنگ گئے ہیں۔ ہم تو اس ثقافت اور معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، تو پھر کیسے ہم اس کو ایک دن میں سمیٹ سکتے ہیں؟
سوچ اور فکر کو وسیع کرنا، ایک انتہائی ضروری عمل ہے، مگر جب سوچ میں ایسے رنگ شامل ہوجائیں، جو تہذیب و تمدن کے عکاس نہ ہوں، بلکہ ایک ایسی تقلید ہو جو ہمارے معاشرے میں پہلے دیسی کھانوں کو پیزا اور برگر سے بدل دیتی ہے، اور بعد میں امی کو مما اور مما کو موم میں، جس نے سوچ کا زاویہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔
ماں اور بچے کا رشتہ چاہے مغرب ہو یا مشرق، ممتا سے بھرپور ہوتا ہو، مگر ہمارے رہنے سہنے کے طریقوں میں ماں کا مقام ہی کچھ اور ہے۔ وہ زندہ ہے تو پیکرِ وفا ہے، اور اگر اس دنیا سے پردہ کرگئی ہے، تو ان کی باتیں، اور دعائیں اپنے بچوں کا احاطہ کیے رکھتی ہیں۔ اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے، ایک دم احساس ہوتا ہے کہ ہم تو بالکل ’’امی‘‘ کی طرح ہوگئے ہیں۔ اور جو بچے پردیس میں ہیں، دل میں ایک دم سے اٹھنے والی ماں کی یاد کی ٹیس، تھوڑی دیر کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، اور دل کرتا ہے واپس اسی نادان سے بچپن میں لوٹ جائیں، جہاں صرف ’امی، امی اور امی‘ کی گردان تھی۔ کوئی مدرز ڈے نہیں تھا، بس امی تھیں، ان کی ڈانٹ تھی، گھر کا کھانا تھا، جس میں شوارمے سے زیادہ مزیدار چینی والا پراٹھا تھا، اور پیاری پیاری بیلوں والے امی کے ہاتھ کے کپڑے تھے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا نہیں تھا۔
ان جذبات کو ایک دن میں سمیٹنا کوئی آسان کام نہیں۔ مغرب میں شاید بچے زیادہ مصروف ہوتے ہیں، اور اپنے ماں باپ کا گھر لڑکپن میں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے ان کے سوچنے کا طریقہ ہم سے مختلف ہے۔ اگر وقت ملے تو ان عالمی دنوں کی تاریخ پر نظر ضرور دوڑائیے گا، تاکہ مغرب اور مشرق کی ثقافت میں فرق معلوم کرسکیں اور اپنے اور ماں کے رشتے کو ایک دن میں سمیٹنے کے بجائے، اس کی حدت کو اپنے قلب و جاں میں اتار سکیں۔
محبت کے اظہار کی اہمیت اور اندھی تقلید، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ جب ہمارے گھر سے نکلتے وقت، ماں روز دعا دیتی ہے، کھا نے کی فکر روز کرتی ہے، ہمارے دل دکھانے والوں کےلیے بھوکی شیرنی بن جاتی ہے۔ اپنے من پسند کام چھوڑ کرخوشی خوشی، ہمارے لیے پڑھ لکھ کر بھی سب چھوڑ دیتی ہے، اور اگر باہر نکل کر کام کرتی ہے، جب بھی ہر ممکن حد تک ہمارے لیے گھر میں آرام و آسائش کا ساماں مہیا کرکے جاتی ہے، اور کام سے واپس آکر دوبارہ براق کی رفتار سے ہمارے کاموں میں لگ جاتی ہے۔
کبھی سوچا ہے ہم سے ہمیشہ پہلے جاگ جانے والی مخلوق، بار بار فون کرکے کھانے اور طبیعت کا پوچھنے والی ہستی اور ہمارے مستقبل کی فکر میں دن و رات گھلنے والی ہستی کی محبت ایک دن کی محتاج نہیں۔ بلکہ کہا جائے تو، شاید ہماری ایک ایک سانس اسی ہستی کی مقروض ہے، جس نے ہم سے محبت کا اظہار کبھی دن تاریخ دیکھ کر نہیں کیا۔ بلکہ شاید وہ پہلی بار ہمیں دیکھ کر باون ہڈیاں ٹوٹنے کا درد بھی بھول گئی ہوگی، اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی خدا سے اپنے بچوں کی صحت و سلامتی مانگتی نظر آئے گی۔
ماں کی نیندیں اور سکون، بچوں کے سکون سے وابستہ ہیں۔ آج سے اپنے اردگرد کی ماؤں کو دیکھنا شروع کیجیے، کوئی پوری رات بیمار بچے کے ساتھ جاگ کر سرخ آنکھوں سے گھریلو اور پیشہ ورانہ امور سرانجام دے رہی ہوگی، تو کوئی بالوں کا الٹا سیدھا جوڑا بنا کر چھوٹے بچے کے پیچھے بھاگتی ہوئی نظر آئے گی اور کوئی اس کے ساتھ کتابوں میں سر جوڑ کر اپنی تمام سماجی سرگرمیاں ترک کرتی نظر آئے گی۔ ساری دنیا کو ایک طرف رکھ کر، اپنی خواہشات، جذبات اور احساسات کو کنارہ کرکے، وہ صرف اپنی اولاد کے بارے میں سوچتی ہے، اور اس بے لوث محبت کےلیے تو صدیاں بھی کم ہیں، نہ کہ صرف ایک دن۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔