یوکرین میں بڑھتا ہوا بحران
روس نواز باغیوں کا یوکرین کے تقریباً دس مشرقی شہروں اور قصبوں پر قبضہ ہے
روس نواز باغیوں کا یوکرین کے تقریباً دس مشرقی شہروں اور قصبوں پر قبضہ ہے۔ فوٹو: رائٹرز/فائل
یوکرین کی فوج نے سلاویانسک شہر اور اس کے نواح میں دیگر مشرقی قصبوں کو باغیوں سے آزاد کرانے کی خاطر حملے شروع کر دیے ہیں جن میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین فوج کی اس کارروائی کے خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے انتباہ کیا ہے کہ یہ بحران قابو سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی سے ہر صورت میں اجتناب کرنا ہو گا۔ دوسری طرف اس بگڑتی ہوئی صورت حال کا یورپی ممالک میں بھی بڑی تشویش سے نوٹس لیا گیا ہے کیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ روس اس موقع پر جوابی کارروائی کے طور پر یورپ کو تیل کی ترسیل روک سکتا ہے جس سے تیل کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مشرقی شہر سلاویانسک پر روسی ہیلی کاپٹروں کی پروازوں کے ساتھ گولہ باری کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں جب کہ روس نواز باغیوں نے شہر کے سٹی ہال کو تمام لوگوں سے خالی کرا کے اس کے اندر دفاعی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔
مغربی میڈیا کے مطابق روس نواز باغیوں کا یوکرین کے تقریباً دس مشرقی شہروں اور قصبوں پر قبضہ ہے۔ جنیوا میں گزشتہ ہفتے اس حوالے سے ایک معاہدہ عمل میں آ گیا تھا مگر باغیوں نے فوراً ہی اس کو مسترد کر دیا جس پر یوکرین کے قائمقام صدر ''اولکسان ڈر ترچے نوف نے کہاکہ باغیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ روس اور یوکرین کی آویزش میں امریکا کی مسلسل مداخلت اس امر کا احتمال پیدا کر رہی ہے کہ دنیا میں شاید ایک بار پھر سرد جنگ کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جو کہ امریکا اور روس میں جنگ عظیم دوئم کے کچھ عرصہ بعد شروع ہو گئی تھی اور دونوں بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کے رخ پر جوہری میزائل نصب کر دیے تھے جنھیں بعدازاں تخفیف اسلحہ کی کوششوں کے نتیجے میں تھوڑا تھوڑا کر کے ختم کیا گیا۔ تاہم اب چونکہ چین بھی دنیا کی ایک بہت بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اس لیے امریکا روس سرد جنگ کے روکنے میں چین کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔
مغربی میڈیا کے مطابق روس نواز باغیوں کا یوکرین کے تقریباً دس مشرقی شہروں اور قصبوں پر قبضہ ہے۔ جنیوا میں گزشتہ ہفتے اس حوالے سے ایک معاہدہ عمل میں آ گیا تھا مگر باغیوں نے فوراً ہی اس کو مسترد کر دیا جس پر یوکرین کے قائمقام صدر ''اولکسان ڈر ترچے نوف نے کہاکہ باغیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ روس اور یوکرین کی آویزش میں امریکا کی مسلسل مداخلت اس امر کا احتمال پیدا کر رہی ہے کہ دنیا میں شاید ایک بار پھر سرد جنگ کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جو کہ امریکا اور روس میں جنگ عظیم دوئم کے کچھ عرصہ بعد شروع ہو گئی تھی اور دونوں بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کے رخ پر جوہری میزائل نصب کر دیے تھے جنھیں بعدازاں تخفیف اسلحہ کی کوششوں کے نتیجے میں تھوڑا تھوڑا کر کے ختم کیا گیا۔ تاہم اب چونکہ چین بھی دنیا کی ایک بہت بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اس لیے امریکا روس سرد جنگ کے روکنے میں چین کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔