اردو مرثیہ میں ڈرامائی عناصر
میر انیس اور مرزا دبیر کی مرثیہ نگاری میں ڈرامے کا عنصر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ (فوٹو: فائل)
اردو مرثیہ کو صرف مذہبی شاعری سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے، اس فکر کا اظہار مولانا حالی کی ''مقدمہ شعر و شاعری''، امداد امام اثر کی ''کاشف الحقائق'' اور مولانا شبلی کی ''موازنہ انیس و دبیر'' میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ جب اردو مرثیہ پر ادبی صنف کے طور پر تحقیق و تنقید کا آغاز ہوا تو بین الاقوامی ادب سے تقابل و موازنہ بھی کیا گیا۔
ہومر، والمیک و ویاس کی طویل نظموں کے نمونے تو سامنے تھے ہی اور فردوسی کا شاہنامہ بھی اس تقابل کی فہرست میں شامل ہوا۔
مغرب میں ایپک (Epic)اور ایلیگی (elegy) طویل نظموں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود تھے، اسی وجہ سے اردو مرثیہ کو (Elegiac Epic) بھی کہا گیا اور مختف محققین و نقاد نے ڈرامہ اور مرثیہ کے اجزا کی مماثلت پر بھی تعمیری بحث کی۔
ادبی اصناف میں ایسے تقابل عام ہیں لیکن مرثیہ چونکہ واقعہ کربلا کے واقعات پر مبنی شاعری ہے لہٰذا اسے نہ epic قرار دیا گیا نہ ہی ڈرامہ سے تعبیر دی گئی لیکن ڈرامہ کے اجزا و مرثیہ کے اجزا میں بحیثیت ادبی صنف مماثلت و مشابہت کا اعتراف ضرور کیا گیا۔
ارسطو نے ڈرامے کے جو عناصر ترکیبی بتائے ہیں اس میں سے بیشتر عناصر پر اردو مرثیہ کے ذیل میں گفتگو کی جاسکتی ہے، یعنی قصہ، کردار، الفاظ، خیال و آرائش، پھر قصہ میں مکالمہ، تصادم، کشمکش و وحدتیں بھی ڈرامائی عناصر کے اہم رکن ہیں۔
مرثیہ کا بحیثیت ادبی صنف مطالعہ کیا جائے تو یہ سب ارکان آپ کو اردو مرثیہ کے مطالعے میں ملیں گے۔ مرثیہ کا موضوع حق و باطل پر مبنی ہے اور بہترین زبان و بیان میں نظم کیا گیا ہے۔ مرثیہ ایک طویل نظم ہے جس میں مسدس کی ہیئت میں ارکانِ مرثیہ، چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، دعا جیسے اجزائے مرثیہ نے مرثیہ کے کینوس کو وسعت عطا کی، جس سے مرثیہ میں ڈرامائی عناصر کو زیادہ نظم کرنے کا موقع ملا۔
مرثیہ گوئی کے بعد مرثیہ تحت اللفظ خوانی کے فن نے ڈرامائی عناصر کو مزید اجاگر کیا۔ اردو مرثیہ کے عظیم محقق و ماھرِ انیسیات پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں:
''مرثیہ خوانی کا فن ایکٹنگ کا انتہائی کمال ہے۔ ایکٹر نقل کو اصل کر دکھانے کےلیے اسٹیج کے ساز و سامان کا محتاج ہوتا ہے، ہر پارٹ کےلیے اس کو اسی کے مناسب پوشاک، روپ، مقام و دوسرے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مرثیہ خوانی کا کمال دیکھیے کہ ایک شخص اپنے معمولی لباس اور اصل شکل و صورت میں آتا ہے اور صرف لہجے کی تبدیلی، چہرے کے تغیر، جسم و اعضا کی معمولی سی جنبش، آنکھ کی خفیف سی گردش سے ہر صنف، ہر عمر، ہر حیثیت، ہر ذہنی کیفیت والے انسان کی تصویر پیش کردیتا ہے۔''
مندرجہ بالا سطور سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اردو مرثیہ میں اتنے ڈرامائی عناصر موجود ہیں کہ ان مقامات کو ڈرامائی انداز میں پڑھا جاسکتا ہے۔ پروفیسر احتشام حسین مراثیِ انیس کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
''بزم، رزم، بین، رخصت، ہر منظر ایک طرح سے نہیں پڑھا جاسکتا، بچوں اور بوڑھوں، عورتوں اور مردوں، دوستوں اور دشمنوں کے متعلق مرثیہ کے بند پڑھتے اور پیش کرتے ہوئے آواز و لب و لہجہ میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔''
میری رائے کے مطابق، آواز و لب و لہجہ میں تبدیلی بھی انہی ڈرامائی عناصر کی ایک ذیلی شاخ ہے جو چہرے کے تاثرات و مناسب اعضا و جوارح کی حرکات سے نمایاں ہوتی ہے۔ کلامِ انیس و دبیر میں ہمیں بہت سے ایسے مقامات باآسانی مل جائیں گے جن میں ڈرامائی عناصر سے مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ کچھ مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
قصہ کے باب میں یہ بات ناگزیر ہے کہ یہ واقعہ کربلا ہے لیکن ہر کردار کو نظم کرتے ہوئے اس کی نظر سے واقعہ کربلا نظم کرنے سے تنوع پیدا ہوجاتا ہے۔ قصہ کے باب میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انیس و دبیر کے بیشتر مرثیوں کا آغاز لفظ ''جب'' سے ہوتا ہے، جس سے قصہ سنانے اور منظر نگاری میں آسانی ہوئی ہے۔ مثلاً انیس کے مشہور مرثیے میں دیکھے:
جب قطع کی مسافتِ شبِ آفتاب نے
جب کربلا میں داخلہِ شاہِ دیں ہوا
جب باغِ حسینی پہ خزاں چھا گئی رن میں
جب فوجِ خدا قتل ہوئی راہِ خدا میں
اب کچھ مرزا دبیر کے مرثیوں کے مطلعے ملاحظہ ہوں :
جب داغِ بے کسی نہ سکینہ اٹھا سکی
جب اکبر و عباس کو بھی رو چکے شبیر
جب دولتِ اولاد شہِ دیں نے لٹا دی
جب فاطمہ سے عقدِ شہِ لافتا ہوا
کردار کی بات کی جائے تو امام حسینؓ کے تذکرہ میں ایک خاندان و دین کا سربراہ جو حق پر ہے اور بیک وقت دین کی ذمے داری نبھاتے ہوئے ایک باپ، بھائی، چچا اور دیگر رشتے داریاں و قرابت داریاں بھی رکھتا ہے۔ اس ذیل میں انیس و دبیر کا ایک ایک بند دیکھیے، جس میں امام حسینؓ کا ابنِ سعد سے مکالمہ اور حق باور کرانا ساتھ ہی اپنے اعجاز کا تذکرہ شامل ہے۔ انیس کہتے ہیں:
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ او خانماں خراب
دریا کو خاک جانتے ہیں ابنِ بوتراب
فاسق ہے، پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
دبیر لکھتے ہیں کہ امام حسینؓ رجز میں فرماتے ہیں:
نور اپنا ہوگا جب کہ جزو کل نہ ہوئیں گے
ہم وہ چراغ ہیں جو کبھی گل نہ ہوئیں گے
مر کر بھی کم ہمارے تجمل نہ ہوئیں گے
باغ اپنا ہوگا جب گل و بلبل نہ ہوئیں گے
دن ہو کہ رات خلق پہ سر گرمِ مہر ہیں
جس کو کبھی زوال نہیں ہم وہ مہر ہیں
بالکل اسی طرح اگر امام حسینؓ کے بھائی حضرت عباسؓ کی شخصیت کو مدنظر رکھا جائے تو ایک جوانِ رعنا جو خود سے پہلے اپنے آقا و مولا کے حکم کو مدنظر رکھے، بیک وقت شجاعت کے ساتھ اطاعت کو پیش نظر رکھے۔ جلال و جمال کا پیکر ہو۔ انیس کہتے ہیں:
آتا ہے وہ جری جو ہزاروں میں فرد ہے
شیروں کا شیر عازمِ دشتِ نبرد ہے
دہشت سے آفتاب کا چہرہ بھی زرد ہے
بڑھ کر پرے سے جو اسے روکے وہ مرد ہے
سر بر کوئی ہوا نہیں اس خاندان سے
گھر میں انہی کے اتری ہے تیغ آسمان سے
دبیر کہتے ہیں:
خیبر شکن کے لال کی آمد ہے صف شکن
گرتی ہے فوج فوج پہ پڑتا ہے رن پہ رن
تیغِ خدا کی تیغ کا سایہ ہے تیغ زن
غلطاں کہیں قدم ہیں کہیں سر کہیں بدن
نے حوصلہ نہ بغضِ امامِ مبیں رہا
اب دل میں بھاگنے کے سوا کچھ نہیں رہا
ڈرامائی عناصر کے ذیل میں مزید اجزا یعنی الفاظ، خیال و آرائش کے ذیل میں مختلف مصرعے و بیتیں دیکھیے۔ انیس لکھتے ہیں:
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
دبیر کہتے ہیں:
ایماں کی ندا ہے مرے ایمان یہی ہیں
جن کہتے ہیں ہم جن پہ ہیں قربان یہی ہیں
دبیر ایک خیال نظم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دور ایسے فلک نے بھی بدلتے نہیں دیکھ
اک برج سے دو چاند نکلتے نہیں دیکھے
دبیر نے حزن و یاس کی تصویر نظم کرتے ہوئے حضرت عون و محمد کی شہادت پر لکھا:
مرنے کی مہم پاؤں پہ سر کر گئے دونوں
بس ہونٹ تو ہلتے رہے اور مر گئے دونوں
غرض مرثیہ میں ڈرامائی عناصر سے مشابہت و مماثلت کی سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں منظر نگاری، رزمیہ آہنگ، تلوار و سواری کا شکوہ، ممدوح کا جلال و جمال، جذبات نگاری، مکالمہ نگاری، حفظ مراتب، رشتوں کا پاس، معاشرتی ادب و آداب، جنگ و شہادت کے مناظر مع باکمال زبان و بیان۔
ڈاکٹر ہلال نقوی لکھتے ہیں کہ ''ایسے کئی جدید معیاری مرثیے ہمارے سامنے ہیں جن میں ڈرامے کی کیفیت بھی ہے اور رزمیہ گوشے بھی ہیں۔''
اس مضمون کا اختتام میر انیس کے شاہکار اور اپنے پسندیدہ ترین مرثیہ ''بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حر'' کے ان اشعار پر کروں گا۔ یہ مرثیہ زیڈ اے بخاری ریڈیو اور ٹی وی پر بہت جوش میں پڑھتے تھے اور آج بھی یہ مرثیہ متعدد تحت اللفظ خواں اسی جوش سے پڑھتے ہیں۔ منظر یہ ہے کہ جب دشمن کی فوج حر کو ڈرا دھمکا کر امام حسینؓ کی جانب جانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو حر جواب دیتا ہے:
عملِ خیر سے بہکا نہ مجھے او ابلیس
وہی کونین کا مالک ہے وہی راس و رئیس
کیا مجھے دے گا ترا حاکمِ ملعون و خسیس
کچھ تردد نہیں کہ دے کے لکھیں پرچہ نویس
ہاں سوئے ابنِ شہنشاہِ عرب جاتا ہوں
لے ستمگر جو نہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں
اب اگلے بند میں زبان و بیان و منظر نگاری دیکھیے:
کہہ کے یہ ڈاب سے غازی نے نکالی تلوار
سرخ آنکھیں ہوئیں ابرو پہ بل آئے اک بار
تن کے دیکھا طرفِ فوجِ امامِ ابرار
پاؤں رکھنے لگا بن بن کے زمیں پر رہوار
غل ہوا سیدِ والا کا ولی جاتا ہے، لو طرفدارِ حسین ابنِ علی جاتا ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔