چوڑی کی صنعت
انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے سے بھی محروم ہیں۔
انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے سے بھی محروم ہیں۔ فوٹو فائل
کانچ کی نرم و نازک کھنکتی چوڑیاں سہاگ کے مضبوط رشتے کی علامت ہے ۔کانچ کی ان چوڑیوںکی صنعت سے حیدرآباد کے چار لا کھ سے زائد محنت کش مرد،خواتین اوربچے وابستہ ہیں جو شب وروزمحنت مشقت کے ذریعے اپنے خاندان کی کفالت کررہے ہیں ۔لیکن اس ٹھیکے داری نظام نے ان کو دووقت کے نوالے سے بھی محروم رکھا ہوا ہے۔
جس معاشرے میں محنت کشوں کودو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اپنے لہوکوپسینہ بناناپڑے اورپھر اس مزدور کی اجرت اس کے پسینہ خشک ہو نے سے قبل ادانہ کی جائے۔ تو وہ معاشرہ ناصرف معاشی اور سماجی طور پر عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ وہاں طبقات کی ایک لا متناہی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے ۔چناںچہ صحت مند اور فلا حی ریاست کے قیام کے لیے سماج کے چھوٹے طبقے کوخصوصی توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کانچ کی یہ نرم ونازک اور کھنکھانتی چوڑیاں تیار کرنے والی محنت کش خواتین خود ان چوڑیوں کو پہننے سے محروم رہتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں کانچ کی چوڑی کی دو بڑے مرکز ہیں۔ ایک ہندوستان کا شہر فیروزآباد اوردوسرا سندھ کا شہرحیدرآباد قابل ذکر ہیں جہاں بڑی تعدادمیں کانچ کی چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔اس لحاظ سے حیدرآباد کی چوڑی کی صنعت کوجنوبی ایشیا کی اہم اور بڑی گھریلوصنعت سمجھا جاتا ہے۔حیدر آباد کے مختلف علاقوں میں چوڑی کاکام گھروں میں انجام دیاجاتاہے ، جہاں چوڑیاں مختلف مراحل سے گزر کرتیار ہو تی ہیں،چوڑی کی صنعت اور اس سے وابستہ محنت کشوں کے حالات جاننے کے لیے جب میں حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں پہنچا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ چوڑی کی صنعت میں نہ صرف مرد وخواتین بلکہ 50ہزارسے زائد بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انتہائی کم اجرت یہ وجہ سے یہ مزدور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے سے محروم ہیں لہذا یہ ننھے محنت کش بھی پوری دل جمی کے ساتھ چوڑی کے کام میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں تیارکر نے کیلئے حیدرآباد میں کئی کارخانے موجود ہیں جہاں روزانہ تیار ہو نے والی چوڑیوں کو ٹھکیداروں کے ذریعے گھروں تک پہنچایاجا تا ہے ۔ تنگ وتاریک کچے گھروں میں کہیں ٹوٹی چوڑیوں کوالگ کیاجاتا ہے اور کہیں چوڑیوںکوجوڑنے کیلئے مٹی کے تیل کے دیئے اورگیس کی لو استعمال کی جاتی ہے جس سے اٹھنے والا زہر آلود دھواں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونوآکسائیڈ بن کر آہستہ آہستہ لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے۔ خصوصاً بچے اور خواتین اس دھوئیں سے بہت زیادہ متاثر ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان کا نظام تنفس ،آشوب چشم ،جلدی امراض ،نظام ہضم ،شدید متاثر ہو تا ہے۔
طوبہ ایمان ایجوکیشن ہیلتھ ویلفیئر سوسائٹی کی چیئر پرسن عائشہ شیخ کا کہنا ہے کہ چوڑی کی سدائی اورجوڑائی کاکام خواتین گھروں میں بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی ہیںجو کہ انتہائی سخت کام ہے جس کے با عث اکثر غیرشادی شدہ لڑکیوں کو جوڑوں اور کمر کادرد لا حق ہو جاتا ہے۔ خواتین کی کثیر تعداد بانجھ پن کا شکار ہورہی ہیں جس کے اثر ات شادی کے بعدرونما ہوتے ہیں۔ جبکہ کئی خواتین تو اس کی وجہ سے ٹی بی جیسے موذی مرض میں بھی مبتلا ہوگئی ہیں۔ خواتین کو اس کام کی تربیت کی ضرورت ہے انہیں چاہیئے کہ وہ کام کے دوران اپنے منہ پر ماسک لگائیں،چشمہ استعمال کریںاور زمین پر بیٹھنے کے بجائے اسٹول پر بیٹھ کر کام کریں تاکہ وہ کمر کے درد سے محفوظ رہیں، کئی خواتین کواس حوالے سے تربیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود خواتین اس پر عمل نہیں کرتیں۔
ان سب کے باوجود لا کھوں مزدور خواتین، مرد، بچوںکی آواز ایوانوں میں بیٹھے اانسانیت کے نام نہاد ٹھکیداروں تک نہیںپہنچتی ہے،عین ممکن ہے کہ کوئی خدا ترس انسان میری اس آواز کو پڑھ کر ایوانوںتک پہنچا دے۔ چوڑی کی صنعت سے وابستہ مردوخواتین سخت محنت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودانہیںانتہائی کم اجرت پر رکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کوچوڑیوں کو تیار کرنے والی بھٹی کی تپش کا اگر اندازہ ہوجائے توشاید آپ کو کبھی مئی جون جولائی کی تیز دھوپ سے خوف محسوس نہیں ہو گا ۔دراصل چوڑی کا کاروبار ٹھیکیداری جیسے لعنت سے منسلک ہے جہاں مزدورں کی اجرت ٹھکیدارخود ہضم کر جا تا ہیں۔ چوڑی کی بھٹی پر کام کرنے والے ایک مزدور ریحان نے مجھے بتایا کہ انہیں چوڑی بنانے کی جو اجرت ملتی ہے اس میں سے آدھی اجرت ٹھکیدار خودرکھ لیتے ہیں اور باقی ملنے والی رقم میں ہماراگزارانہیںہو تا۔ ریحان پا نچ سال سے وہاں سخت گرمی میں کام کررہا ہے لیکن اب سینے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے لئے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ریحان کا کہنا ہے کہ وہ کم اجرت کے با عث اس کام سے بیزارآ چکا ہے لیکن ٹھکیدار نے مجھے جو پیشگی رقم دی تھی وہ ابتک مجھ پرواجب الا داہے، جس کی وجہ سے میں یہ کام کرنے پر مجبور ہوں۔
ریحان اپنے معاشی مسائل کی بنا پر سخت پریشان ہے لیکن ناجانے کتنے ایسے محنت کش ریحان اپنے مالی مسائل پرخون کے گھونٹ پی رہے ہیں ۔ اور کوئی انکے آنسوں پونچھنے والانہیں ہے کوئی اس کے گھر میں بجنے والی بھوک کے ڈنکے کی آوازکو سن کر متوجہ نہیں ہوتااور نہ کوئی ادارہ ان کے طبی مسائل، ان کے ریٹائرمنٹ اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کیلئے تیار ہے ۔ میں جب چوڑی کے کارخانے سے باہر نکلا تو کئی چوڑی کے مزدور میرے پیچھے آئے اور یک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جناب ہمیں یہاں سے نکال لو ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ہم سخت پریشان ہیں، اس دوران وہ باربار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھے رہے تھے کہ کہیں ٹھکیدار کے آدمی نہ دیکھ لیں جس سے وہ اپنی ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جائیں۔
حکومت پا کستان کے قانون کے مطابق مزدور کو پیشگی رقم اداکر نااوربعدمیں رقم کی عدم ادائیگی تک ان سے جبری کام لیناجرم ہے ۔ جبکہ مزدور کی روزانہ کی اجرت 350روپے اورماہانہ تنخواہ 10000ہزارروپے ہو نا لازمی قراردیا گیا ہے لیکن یہاں کھلے عام مزدوروں کا استحصال کیاجا رہا ہے۔ محنت کشوں سے کم اجرت پر زیادہ کام لیکرعالمی مزدوروں کے قوانین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔انہیں سوشل سیکورٹی کے تحت ملنے والی طبی سہولتوں سے دور رکھاجاتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس سے بچنے کے لئے فیکٹری مالکان اپنے مزدوروں کی تعداد کم ظاہر کرتے ہیں جس سے ایک جانب حکومت کوٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کاسالانہ نقصان ہو رہا ہے تودوسری جانب محنت کشوں کو(ای او بی آئی ) کی مراعات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے جس کی بنا پربوڑھے ہو جانے والے محنت کشوں کے خواب آنکھوں میں چکناچورہو جاتے ہیں اور ان کے اچھے دنوں کی خواہش سسک سسک کے جان دے دے دیتی ہے۔
اس بارے میں جب میں نے نیشنل لیبرفیڈریشن پاکستان کے مرکزی صدرشمس الرحمن سواتی سے معلوم کیاتوان کا کہنا تھا کہ ملک بھرمیں 6کروڑمحنت کش ہیں لیکن افسوس کے ان میں 80 فیصد ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی کارڈ کی سہولت سے محروم ہیں ،اس بارے میں نیشنل لیبرفیڈریشن پا کستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری رانامحمود علی خان نے بتایا کہ حیدرآبادمیں کم و بیش 35چوڑیوں کی فیکٹریاں ہیں جوکہ (ای اوبی آئی) اوسوشل سیکورٹی کارڈ میں نوٹی فائی ہیں۔ہر ایک فیکٹری میں100سے 125 مرد وخواتین ورکرز کام کررہی ہیں۔لیکن مالکان تمام ورکرز کانام دیئے بغیر20سے 25فیصد ورکرز کا چندہ جمع کراتے ہیں۔جس کے با عث چوڑی کے تقریبا 98 فیصدورکرز ان دونوں سہولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسے جدید خطوط پراستوار کیا جائے،آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔تاکہ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور زندگی کی بھی حفاظت کرسکیں۔ مالکان ورکز کو ان کے بنیادی حق سے محروم نہ رکھیں ، ان کی ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی کی رجسٹریشن کرائیں تاکہ غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی گزارنے والے یہ محنت کش خوش حال ہوسکیں۔اگر اعلی حکام اور حکومتی عہدیدار چوڑی کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لیں گے تو جلد یہ صنعت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح زوال پزیر ہوجائے گی اور ہم سوائے افسوس کہ کچھ نہ کرسکیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جس معاشرے میں محنت کشوں کودو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اپنے لہوکوپسینہ بناناپڑے اورپھر اس مزدور کی اجرت اس کے پسینہ خشک ہو نے سے قبل ادانہ کی جائے۔ تو وہ معاشرہ ناصرف معاشی اور سماجی طور پر عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ وہاں طبقات کی ایک لا متناہی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے ۔چناںچہ صحت مند اور فلا حی ریاست کے قیام کے لیے سماج کے چھوٹے طبقے کوخصوصی توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کانچ کی یہ نرم ونازک اور کھنکھانتی چوڑیاں تیار کرنے والی محنت کش خواتین خود ان چوڑیوں کو پہننے سے محروم رہتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں کانچ کی چوڑی کی دو بڑے مرکز ہیں۔ ایک ہندوستان کا شہر فیروزآباد اوردوسرا سندھ کا شہرحیدرآباد قابل ذکر ہیں جہاں بڑی تعدادمیں کانچ کی چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔اس لحاظ سے حیدرآباد کی چوڑی کی صنعت کوجنوبی ایشیا کی اہم اور بڑی گھریلوصنعت سمجھا جاتا ہے۔حیدر آباد کے مختلف علاقوں میں چوڑی کاکام گھروں میں انجام دیاجاتاہے ، جہاں چوڑیاں مختلف مراحل سے گزر کرتیار ہو تی ہیں،چوڑی کی صنعت اور اس سے وابستہ محنت کشوں کے حالات جاننے کے لیے جب میں حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں پہنچا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ چوڑی کی صنعت میں نہ صرف مرد وخواتین بلکہ 50ہزارسے زائد بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انتہائی کم اجرت یہ وجہ سے یہ مزدور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے سے محروم ہیں لہذا یہ ننھے محنت کش بھی پوری دل جمی کے ساتھ چوڑی کے کام میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں تیارکر نے کیلئے حیدرآباد میں کئی کارخانے موجود ہیں جہاں روزانہ تیار ہو نے والی چوڑیوں کو ٹھکیداروں کے ذریعے گھروں تک پہنچایاجا تا ہے ۔ تنگ وتاریک کچے گھروں میں کہیں ٹوٹی چوڑیوں کوالگ کیاجاتا ہے اور کہیں چوڑیوںکوجوڑنے کیلئے مٹی کے تیل کے دیئے اورگیس کی لو استعمال کی جاتی ہے جس سے اٹھنے والا زہر آلود دھواں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونوآکسائیڈ بن کر آہستہ آہستہ لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے۔ خصوصاً بچے اور خواتین اس دھوئیں سے بہت زیادہ متاثر ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان کا نظام تنفس ،آشوب چشم ،جلدی امراض ،نظام ہضم ،شدید متاثر ہو تا ہے۔
طوبہ ایمان ایجوکیشن ہیلتھ ویلفیئر سوسائٹی کی چیئر پرسن عائشہ شیخ کا کہنا ہے کہ چوڑی کی سدائی اورجوڑائی کاکام خواتین گھروں میں بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی ہیںجو کہ انتہائی سخت کام ہے جس کے با عث اکثر غیرشادی شدہ لڑکیوں کو جوڑوں اور کمر کادرد لا حق ہو جاتا ہے۔ خواتین کی کثیر تعداد بانجھ پن کا شکار ہورہی ہیں جس کے اثر ات شادی کے بعدرونما ہوتے ہیں۔ جبکہ کئی خواتین تو اس کی وجہ سے ٹی بی جیسے موذی مرض میں بھی مبتلا ہوگئی ہیں۔ خواتین کو اس کام کی تربیت کی ضرورت ہے انہیں چاہیئے کہ وہ کام کے دوران اپنے منہ پر ماسک لگائیں،چشمہ استعمال کریںاور زمین پر بیٹھنے کے بجائے اسٹول پر بیٹھ کر کام کریں تاکہ وہ کمر کے درد سے محفوظ رہیں، کئی خواتین کواس حوالے سے تربیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود خواتین اس پر عمل نہیں کرتیں۔
ان سب کے باوجود لا کھوں مزدور خواتین، مرد، بچوںکی آواز ایوانوں میں بیٹھے اانسانیت کے نام نہاد ٹھکیداروں تک نہیںپہنچتی ہے،عین ممکن ہے کہ کوئی خدا ترس انسان میری اس آواز کو پڑھ کر ایوانوںتک پہنچا دے۔ چوڑی کی صنعت سے وابستہ مردوخواتین سخت محنت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودانہیںانتہائی کم اجرت پر رکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کوچوڑیوں کو تیار کرنے والی بھٹی کی تپش کا اگر اندازہ ہوجائے توشاید آپ کو کبھی مئی جون جولائی کی تیز دھوپ سے خوف محسوس نہیں ہو گا ۔دراصل چوڑی کا کاروبار ٹھیکیداری جیسے لعنت سے منسلک ہے جہاں مزدورں کی اجرت ٹھکیدارخود ہضم کر جا تا ہیں۔ چوڑی کی بھٹی پر کام کرنے والے ایک مزدور ریحان نے مجھے بتایا کہ انہیں چوڑی بنانے کی جو اجرت ملتی ہے اس میں سے آدھی اجرت ٹھکیدار خودرکھ لیتے ہیں اور باقی ملنے والی رقم میں ہماراگزارانہیںہو تا۔ ریحان پا نچ سال سے وہاں سخت گرمی میں کام کررہا ہے لیکن اب سینے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے لئے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ریحان کا کہنا ہے کہ وہ کم اجرت کے با عث اس کام سے بیزارآ چکا ہے لیکن ٹھکیدار نے مجھے جو پیشگی رقم دی تھی وہ ابتک مجھ پرواجب الا داہے، جس کی وجہ سے میں یہ کام کرنے پر مجبور ہوں۔
ریحان اپنے معاشی مسائل کی بنا پر سخت پریشان ہے لیکن ناجانے کتنے ایسے محنت کش ریحان اپنے مالی مسائل پرخون کے گھونٹ پی رہے ہیں ۔ اور کوئی انکے آنسوں پونچھنے والانہیں ہے کوئی اس کے گھر میں بجنے والی بھوک کے ڈنکے کی آوازکو سن کر متوجہ نہیں ہوتااور نہ کوئی ادارہ ان کے طبی مسائل، ان کے ریٹائرمنٹ اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کیلئے تیار ہے ۔ میں جب چوڑی کے کارخانے سے باہر نکلا تو کئی چوڑی کے مزدور میرے پیچھے آئے اور یک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جناب ہمیں یہاں سے نکال لو ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ہم سخت پریشان ہیں، اس دوران وہ باربار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھے رہے تھے کہ کہیں ٹھکیدار کے آدمی نہ دیکھ لیں جس سے وہ اپنی ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جائیں۔
حکومت پا کستان کے قانون کے مطابق مزدور کو پیشگی رقم اداکر نااوربعدمیں رقم کی عدم ادائیگی تک ان سے جبری کام لیناجرم ہے ۔ جبکہ مزدور کی روزانہ کی اجرت 350روپے اورماہانہ تنخواہ 10000ہزارروپے ہو نا لازمی قراردیا گیا ہے لیکن یہاں کھلے عام مزدوروں کا استحصال کیاجا رہا ہے۔ محنت کشوں سے کم اجرت پر زیادہ کام لیکرعالمی مزدوروں کے قوانین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔انہیں سوشل سیکورٹی کے تحت ملنے والی طبی سہولتوں سے دور رکھاجاتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس سے بچنے کے لئے فیکٹری مالکان اپنے مزدوروں کی تعداد کم ظاہر کرتے ہیں جس سے ایک جانب حکومت کوٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کاسالانہ نقصان ہو رہا ہے تودوسری جانب محنت کشوں کو(ای او بی آئی ) کی مراعات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے جس کی بنا پربوڑھے ہو جانے والے محنت کشوں کے خواب آنکھوں میں چکناچورہو جاتے ہیں اور ان کے اچھے دنوں کی خواہش سسک سسک کے جان دے دے دیتی ہے۔
اس بارے میں جب میں نے نیشنل لیبرفیڈریشن پاکستان کے مرکزی صدرشمس الرحمن سواتی سے معلوم کیاتوان کا کہنا تھا کہ ملک بھرمیں 6کروڑمحنت کش ہیں لیکن افسوس کے ان میں 80 فیصد ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی کارڈ کی سہولت سے محروم ہیں ،اس بارے میں نیشنل لیبرفیڈریشن پا کستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری رانامحمود علی خان نے بتایا کہ حیدرآبادمیں کم و بیش 35چوڑیوں کی فیکٹریاں ہیں جوکہ (ای اوبی آئی) اوسوشل سیکورٹی کارڈ میں نوٹی فائی ہیں۔ہر ایک فیکٹری میں100سے 125 مرد وخواتین ورکرز کام کررہی ہیں۔لیکن مالکان تمام ورکرز کانام دیئے بغیر20سے 25فیصد ورکرز کا چندہ جمع کراتے ہیں۔جس کے با عث چوڑی کے تقریبا 98 فیصدورکرز ان دونوں سہولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسے جدید خطوط پراستوار کیا جائے،آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔تاکہ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور زندگی کی بھی حفاظت کرسکیں۔ مالکان ورکز کو ان کے بنیادی حق سے محروم نہ رکھیں ، ان کی ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی کی رجسٹریشن کرائیں تاکہ غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی گزارنے والے یہ محنت کش خوش حال ہوسکیں۔اگر اعلی حکام اور حکومتی عہدیدار چوڑی کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لیں گے تو جلد یہ صنعت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح زوال پزیر ہوجائے گی اور ہم سوائے افسوس کہ کچھ نہ کرسکیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔