…چراغ مفلس کا آخری حصہ

گزشتہ سے پیوستہ کالم میں بات ’’گردشی قرض‘‘ کے ذکر پر ختم ہوئی تھی جسے شیطانی قرضے کے نام سے یاد کیا گیا تھا

zahedahina@gmail.com

گزشتہ سے پیوستہ کالم میں بات ''گردشی قرض'' کے ذکر پر ختم ہوئی تھی جسے شیطانی قرضے کے نام سے یاد کیا گیا تھا۔ اسے اگر گہرائی میں جا کر دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں شان و شوکت سے راج کرنے والی حکومتوں نے مستقل بنیادوں پر توانائی کا بحران حل کرنے کی بجائے' آسان راستہ اختیار کیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اس گردشی قرض کے چنگل میں پھڑ پھڑاتے ہیں۔

ہم یہ ضرور جانتے تھے کہ غالبؔ کہہ گئے ہیں کہ ''رات دن گردش میں ہیں سات آسماں... ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔'' غالبؔ نے یہ شعر چراغ کی روشنی میں لکھا تھا' اگر انھوں نے بھی ایک کافرانہ ایجاد ''بجلی'' کی روشنی میں غزلیں کہی ہوتیں' قصائد لکھے ہوتے تو وہ سات آسمانوں کی گردش کا کبھی گلہ نہ کرتے اور نہ یہ کہتے کہ 'ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا'... انگریز بہادر کے عہد اقتدار میں ہر بات طے تھی اور سات آسمان بھی اس سے پوچھ کر گردش کرتے تھے۔ انگریز کا متعارف کرایا ہوا ریل' بجلی' ڈاک' آبپاشی' پولیس اور کمشنری نظام جب تک چلتا رہا' سب خیریت رہی' ہم آرام کرتے رہے لیکن کسی دیکھ ریکھ کے بغیر یہ نظام کب تک چل سکتا تھا؟ یہاں دوسرے معاملات پر گفتگو کی بجائے' بات صرف توانائی کے اس بحران پر مرکوز رکھی جائے جو یہود و ہنود کی سازش سے نہیں پیدا ہوا' خود ہمارا پیدا کردہ ہے۔

2013ء میں نئی حکومت آئی تو اس نے فوری طور پر 500 ارب روپے کی ادائیگی کے علاوہ 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے زر تلافی کم اور ختم کر دیا جس سے گردشی قرضوں کی مد میں کمی ہوئی۔ لائن لاسز اور چوری کو کم کرنے کے اقدامات کیے گئے جن سے زیادہ تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا۔ حکومت کی پالیسی اب یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ سستی اور باکفایت بجلی کے لیے پورے ملک میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے منصوبوں پر کام شروع ہو چکا اور باقی منصوبوں پر کام شروع ہونے والا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ متبادل توانائی کے منصوبے بھی مکمل ہو رہے ہیں۔ طویل المیعاد منصوبوں میں نیلم جہلم' داسو دیا میر' بھاشا ڈیم اہم ترین منصوبے ہیں جن پر کام مختلف مرحلوں میں ہے۔ ایٹمی توانائی کے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں۔ حالات ٹھیک رہتے ہیں تو امکان یہ ہے کہ 2017ء اور 2018ء تک 4 سے 5 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی جس کی لاگت بھی کم ہو گی اور آئندہ 10 سے 12 برسوں میں تمام بڑے منصوبوں کی تکمیل کے بعد 20 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پاکستان میں پیدا ہو گی۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ 68 برسوں میں جتنی بجلی پیدا ہوئی ہے اتنی بجلی محض اگلے 10 برسوں میں پیدا ہونے لگے گی۔

میاں نواز شریف نے اپنے انتخابی منشور میں جہاں بہت سے وعدے کیے تھے' ان میں سب سے اہم وعدہ ملک کو بجلی کے بحران سے نجات دلانا تھا۔ انتخابی جلسوں میں جو تقریریں کی گئیں انھیں سن کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہی وفاق میں میاں صاحب کی حکومت بر سر اقتدار آئی' ویسے ہی بجلی کی پیداوار میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے لوگوں پر حقائق آشکار کرنے سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کو ان کے کہے پر اعتبار ذرا کم ہی آتا ہے۔

بہ طور خاص ایک ایسی صورت حال میں جب کہ نا عاقبت اندیش سیاستدان' حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی بجائے صف دشمناں درست کرتے نظر آتے ہوں۔ ان سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ حضور وزارت عظمیٰ' کا تاج اگر آپ کے سر پر آج سجا دیا جائے تو آپ چشم زدن میں بجلی کی مطلوبہ مقدار کس طرح عوام کے گھروں اور صنعتوں یا زرعی شعبے کو فراہم کر سکیں گے؟ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت توانائی کا بحران ختم کرنے کے وعدوں پر برسر اقتدار آئی تھی۔

ان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب سال بھر آپ نے اس شعبے میں کیا کارکردگی دکھائی کہ آنے والے 4 برسوں میں آپ سے کسی بہتری کی اُمید رکھی جائے...؟ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد سے آج تک وزیر اعظم چین' ترکی اور دوسرے ملکوں کے پھیرے لگا رہے ہیں تا کہ وہاں کی پاورکمپنیوں اور سرمایہ داروں کو پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کر سکیں۔ اپنی ان کوششوں میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔


گزشتہ ایک مہینے کے دوران بجلی کے 2 منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور ایک منصوبے میں پیداوار کا سلسلہ شروع ہونے کی تقریبات میں مجھے شرکت کا موقع ملا ہے۔ پہلے منصوبے کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نے بن قاسم میں رکھا۔ کوئلے کے ذریعے 1320 میگا واٹ کے اس منصوبے کو پاور چائنا کے ایک ذیلی ادارے سائنو ہائیڈرو ریورس لمیٹڈ اور قطر کی المرقاب کیپیٹل کے اشتراک سے شروع کیا جا رہا ہے۔ امکانی طور پر 1320 میگا واٹ کا یہ منصوبہ 2017 ء میں کام شروع کر دے گا۔ اس طر ح ساہیوال میں چینی کمپنیوں کے کنسورشیم کی معاونت سے ایک کول پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس منصوبے کے تحت 660 میگا واٹ کے دو پلانٹ جن کی پیداواری صلاحیت 1320 میگاواٹ ہو گی' اس کو ہنگامی بنیادوں پر 30 مہینوں میں مکمل کیا جائے گا۔

ان دونوں منصوبوں کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے دوران یہ اُمید بندھتی ہے کہ یہ منصوبے تکمیل تک پہنچیں گے۔ سب سے زیادہ خوشی نندی پور جا کر ہوئی۔ یہ منصوبہ 3 برس پہلے شروع ہونا تھا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور اب میاں شہباز شریف نے چینی ماہرین کی مدد سے اس پاور پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی 95.4 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرا دی ہے۔ نومبر تک ہر دو ماہ بعد 95.4 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرتی رہے گی یعنی نومبر تک لوگوں کو 425 میگا واٹ بجلی ملنے لگے گی۔

توانائی کا بحران اس وقت صرف ہمیں ہی نہیں سارے خطے کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہندوستان میں اور ہم میں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں مرکز اور صوبوں کی حکومتیں اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ نہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں اور نہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی آسان مگر عوام دشمن راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ ہر پانچ برس بعد انھیں عوام کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستانی عوام اپنا برا بھلا خوب پہچانتے ہیں اسی لیے وہ مداریوں اور انگلستان پلٹ شہزادوں کے جھانسے میں نہیں آتے ۔ سیاسی جماعتیں بھی قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں ۔

ان کے یہاں بھی سیاستدانوں پر کڑی تنقید ہوتی ہے لیکن غدار بنانے کے کارخانے ان کے یہاں دن رات کام نہیں کرتے ۔ ایک ارب سے زیادہ کی آبادی والے اس ملک میں انجنیئروں نے ایک خواب دیکھا تھا جسے ایک قوم 'ایک گرڈ' ایک فریکوئنسی کا نام دیا گیا تھا ۔ گزشتہ برس 31 دسمبر کو یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ جنوب میں تامل ناڈ، شمال میں کشمیر' مغرب میں گجرات اور مشرق میں ناگا لینڈ اب برقی رو کے حسابوں ایک رشتے میں گندھے اور بندھے ہوئے ہیں۔ ایک عظیم الشان مشین ہے جو پورے ہندوستان کو بجلی فراہم کر رہی ہے۔

2012ء اور 2013ء کے درمیان ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی والے ملک میں ایک لاکھ 24 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی تھی۔ توانائی کے جن کو زیر کرتے ہوئے ہندوستانی انجنیئروں نے بڑے اور گمبھیر مسائل کا سامنا کیا ہے۔ دو برس پہلے کروڑوں گھروں کی بجلی کی فراہمی یک لخت رک گئی اور وسیع و عریض علاقہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا لیکن ہندوستانیوں کو اپنے انجنیئروں پر یقین تھا۔ اسی لیے بجلی کے مسئلے پر فسادات نہیں شروع ہوئے۔ لوڈ شیڈنگ ہندوستان میں بھی ہوتی ہے لیکن جو وقت مقرر ہے بجلی اسی وقت جاتی ہے اور پھر وقت پر آ جاتی ہے۔ ہم ہندوستان سے اگر توانائی کے شعبے میں بھی کچھ سیکھ لیں گے تو فائدہ ہمارا ہی ہو گا ۔

مجھے انیسویں صدی کے غالبؔ یاد آتے ہیں جو بھاپ کے انجن اور تار برقی ایجاد کرنے والوں کو داد دیتے تھے۔ انگریز نے ڈاک کا جو نظام رائج کیا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لفافے پر دو پیسے کا ڈاک ٹکٹ لگا وہ سارے ہندوستان میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کو خط بھیجتے تھے۔ وہ جان سے گزر گئے اور انھیں بجلی کی جادو گری کا علم نہ ہو سکا' ورنہ 1869ء سے 1882ء کے دوران اس قتالہ کو ہندوستانیوں تک پہنچانے کے منصوبے بھی بننے لگے تھے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے یہ معجزہ رونما ہو جاتا تو ہم ان کے وہ شعر بھی پڑھتے جو اس معجزے کی شان میں کہے جاتے ۔

اس وقت متوسط' نچلے متوسط اور غریب طبقے کا واقعی یہ حال ہے کہ دل ہوا ہے چراغ مفلس کا... لیکن ہمیں پُر اُمید رہنا چاہیے اور ہر قیمت پر جمہوریت کے تسلسل کی لڑائی لڑنی چاہیے۔ جمہوریت کا تسلسل سیاسی استحکام پیدا کرے گا اور سیاسی استحکام کے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو نہ کارخانے لگیں گے اور نہ بجلی گھر بنیں گے۔ یہ سب ہو گا تو ہم اندھیروں میں ہی رہیں گے۔
Load Next Story