سارے رنگ بکھر گئے (پہلا حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعـء 26 اپريل 2024
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جیسے سب کچھ بدل گیا ہو، وہ لوگ نہ رہے جن کے دم قدم سے رونقیں تھیں، وہ رسمیں نہ رہیں جو دلوں کو جوڑتی تھیں، وہ زمانہ نہ رہا جب لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ وہ پیار نہ رہا، وہ کتابیں نہ رہیں، وہ تہذیب و شائستگی نہ رہی جو کبھی ہم نے اپنے بڑوں میں دیکھی تھی۔

عید الفطر ہو یا بقر عید ہو، یا کوئی اور تہوار، میرا دل بہت اداس ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ایسے خوشی کے موقعوں پر مجھے اپنے والدین، دادی، خالائیں، پھوپھیاں، ماموں اور ان کے بچے سب یاد آ تے ہیں۔

آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ بچپن میں میرے والد، جب اپنا آبائی گھر اور بچپن کے ساتھیوں کو یاد کرتے تھے تو وہ اتنے اداس کیوں ہو جاتے تھے، دراصل کھوئے ہوؤں کی جستجو ایک تکلیف دہ عمل ہے، نانا، نانی اور دادا کو میں نے دیکھا ہی نہیں، بس جوکچھ تھیں دادی تھیں، میری والدہ اور دادی عید کے موقعوں پر بہت سی باتیں کرتی تھیں جو کھیلتے کودتے میرے کانوں میں بھی پڑ جاتی تھیں یا کبھی کہانیاں پڑھتے پڑھتے میں ان کی جانب متوجہ ہوجاتی تھی، کبھی کبھی جب میری بڑی بہن جو مجھ سے سولہ سال بڑی تھیں، جب کبھی میکے آتیں تو وہ بھی ان دونوں کی گفتگو میں شامل ہو جاتیں، میری والدہ ہمیشہ اس منیہاری کو یاد کرتیں جو چوڑیوں کا ٹوکرا لے کر گھر آتی اور سب عورتوں کو ان کی من پسند چوڑیاں پہناتی، رنگ برنگی میناکاری کی کانچ کی چوڑیاں وہ کلائیوں میں پہناتی جاتی اور کوئی شادی بیاہ کا گانا بھی گا کر سناتی جاتی، منیہاری کا پتا جیسے ہی آس پاس کے گھر کی عورتوں کو چلتا وہ سب وہیں آ جاتیں، عجب طرح کا بھائی چارہ اور بہناپا تھا۔

جس گھر میں منیہاری آتی وہاں جتنی لڑکیاں اور عورتیں آتیں، خاتون خانہ موسم کے لحاظ سے چائے یا شربت سے تواضع بھی کرتیں، میری ننھیال میں افراد زیادہ تھے۔ میری دادی اور نانا خالہ زاد بہن بھائی تھے، اس لیے دلی میں ایک ہی بہت بڑے اور وسیع گھر میں رہا کرتے تھے۔ یہی اس دور کا حسن تھا، سب دکھ درد اور کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے نظر آتے تھے۔ آج زمانے کے تیور کتنے بدل گئے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام تقسیم کے بعد دم توڑ گیا ہے۔ اب ہر رشتہ دولت کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ سگے بہن بھائیوں اور خون کے رشتوں میں بھی دراڑ پڑگئی ہے۔

میرے والد اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، جو سول سروس سے وابستہ ہونے کے باوجود علم، ادب، موسیقی اور تھیٹر کے رسیا تھے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی میں مقیم تھے اور سول ایوی ایشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، آفس کے بعد ان کا تمام وقت گھر میں موسیقی سنتے، ریڈیو سنتے اور بچوں کے درمیان گزرتا تھا، وہ میرے دونوں بڑے بھائیوں، امی اور دادی سے مختلف موضوعات پہ باتیں کرتے وقت گزارتے، ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جن میں بہت سے ریڈیو آرٹسٹوں کے علاوہ جناب زیڈ اے بخاری بھی تھے، جنھیں میں چچا کہا کرتی تھی جب بھی بخاری صاحب آتے تو دونوں دوست ماضی کے سفر پہ نکل جاتے، وہ دونوں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی اور آغا حشر کاشمیری کو اور ان کے ڈراموں کو یاد کرتے، مختار بیگم کا بھی ذکر آ نکلتا، وہ دونوں پاکستان آ کر بہت خوش تھے، بخاری صاحب اپنی دونوں بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔

میں بہت چھوٹی تھی، اس لیے مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، جب امی اور دادی سے تھیٹر کا ذکر سنتی تو ایک دن میں نے کہا کہ ’’ مجھے بھی تھیٹر دکھانے لے چلیں‘‘ لیکن والد نے ہنس کر بات ٹال دی، وہ شاید مجھے سمجھانا چاہتے تھے، لیکن وہ اس لیے خاموش ہوگئے ہوں گے کہ میں ان کی بات سمجھ نہ سکوں گی۔ میری دادی تھیٹر کو ’’ زندہ ناچ گانا‘‘ کہتی تھیں اور والد کو ڈانٹتی بھی تھیں، جب میں کچھ بڑی ہوئی تو والد کی باتوں میں دلچسپی لینے لگی اور وہ بھی مجھ سے مختلف موضوعات پر باتیں کرتے۔ میرے لیے سرتاج لائبریری سے راشدالخیری کے ناول لے کر آتے۔ رات کو کھانے کے بعد جب ریڈیو بھی بند ہو جاتا تو وہ دلی، الٰہ آباد، شملہ اور بمبئی کی باتیں کرتے، کے۔ایل سہگل میرے والد اور بخاری صاحب کے دوستوں میں سے تھے، لیکن اکثر وہ افسوس کرتے ہوئے کہتے کہ ’’سہگل کو نشے نے مار ڈالا، وہ بہت پیارا انسان تھا۔‘‘

ہمارے بچپن میں تفریح کا ذریعہ صرف ریڈیو تھا، آج ہم ’’ بناکا گیت مالا ‘‘، ریڈیو سیلون اور ریڈیو کا ہفتہ وار ڈرامہ ’’اسٹوڈیو نمبر 9‘‘ کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ ریڈیو نے لوگوں کو جوڑ کے رکھا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی فون خال خال ہی کسی گھر میں ہوا کرتا تھا، چھٹی والے دن رشتے دار اور دوست احباب بلا تکلف ایک دوسرے کے گھر ملنے چلے آتے تھے،کسی کی تیوری پہ بل نہ پڑتا تھا، میزبان خوشی خوشی مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے میں لگ جاتے تھے۔ آنے والے مہمان بھی ایسے وقت آتے تھے کہ میزبان کو تکلیف نہ ہو اور وہ آرام سے کھانا تیار کرلیں۔ شام کی چائے کے وقت آنے والے مہمانوں کی تواضع چائے، بسکٹ اور مٹھائی وغیرہ سے کی جاتی تھی۔ کوئی کسی کو دیکھ کر منہ نہیں بناتا تھا۔

ان دنوں سینما بھی ایک ذریعہ تھا تفریح کا جسے میری والدہ اور دادی بائیسکوپ کہا کرتی تھیں۔ ایک عجیب ہی چارم ہوتا تھا فلم دیکھنے کا، سارا خاندان مل کر سینما دیکھنے جاتا تھا اور انٹروول میں کاجو، اخروٹ، چلغوزوں اور مونگ پھلیوں کے علاوہ ملک شیک اور پاکولا بھی ضروری ہوتا تھا۔ اگلے دن فلم پر تبصرے بھی ہوتے تھے، ان دنوں اخبارات میں فلموں کے اشتہار بھی شایع ہوتے تھے کہ کون سی فلم کس سینما ہاؤس میں لگی ہے، میری یادداشتوں میں ریوالی، ناز، ایروز، نشاط، جوبلی،کوہ نور اور خیام سینما کے نام رہ گئے ہیں اور ان ناموں کے ساتھ بڑی خوبصورت یادیں جڑی ہیں۔ پہلی رنگین فلم ’’آن‘‘ میں نے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ناز سینما میں دیکھی تھی اور واپسی میں راستے بھر امی اور بابا دلیپ کمار اور نمی کے کام پر باتیں کرتے رہے۔ انھیں نادرہ بالکل پسند نہیں آئی تھی، جس نے پہلی بار فلم ’آن ‘ میں کام کیا تھا، ان دونوں کو شمشاد بیگم کی آواز میں گائے ہوئے گیت بہت پسند آئے تھے۔ اتفاق سے آج بھی شمشاد بیگم میری اولین پسند ہیں۔

اور پھر آ گیا ہماری زندگیوں میں سرکاری ٹیلی وژن۔ واہ وا ! کیا شان دار ڈرامے اس زمانے میں پیش ہوئے، روحی بانو، انور سجاد، مہناز رفیع، فاروق ضمیر اور خالد سعید بٹ جیسے اداکاروں نے ہر شخص کو اپنا اسیر بنا لیا۔ بچوں کے لیے دلچسپ انگریزی فلمیں جنھیں بڑے بھی شوق سے دیکھتے تھے جیسے skippy the bush kangaroo، Flipper، Fury۔ بڑوں کے لیے بہترین انگریزی فلمیں مثلا Dr.kildare ‘ Fugitive،Get smart‘Mission imposible،Mrs.Meavr،star Trek وغیرہ۔لیکن ایک چمتکار یہ ہوا کہ لوگ اچانک ایک کمرے میں بند ہوگئے اور سب کی نگاہیں ایک بلیک اینڈ وائٹ اسکرین پہ جم گئیں، بازار اور گلیاں سنسان رہنے لگے، لوگوں کے آنے جانے کے اوقات بدل گئے، لوگ گھرگھنے بن گئے، اگر کوئی ان اوقات میں آ جاتا اور مجبوراً ٹی وی بند کرنا پڑتا تو بڑی کوفت ہوتی کہ یہ کیوں آگئے، پسندیدہ فلم یا ڈرامہ اب کیسے دیکھیں گے۔ ان دنوں صرف شام چھ بجے سے رات دس بجے تک ٹی وی آتا تھا اور کوئی فلم یا ڈرامہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جاتا تھا۔   (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔