بوبی بھائی کپتان بنے ہی کیوں؟

سلیم خالق  پير 29 اپريل 2024
انھیں قیادت کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، بطور بیٹر وہ ملک کے زیادہ کام آ سکتے ہیں (فوٹو: فائل)

انھیں قیادت کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، بطور بیٹر وہ ملک کے زیادہ کام آ سکتے ہیں (فوٹو: فائل)

’’ نیوزی لینڈ کے دوسرے درجے کی ٹیم سے میچ میں اتنا رش، کمال ہے ویسے‘‘ میں نے اپنے ساتھی عباس رضا سے جب یہ کہا تو وہ مسکرانے لگے اور پھر جواب دیا کہ ’’ہم لاہوریوں کو بس کرکٹ دیکھنی ہے، اپنی ٹیم میں تو تمام اسٹارز شامل ہیں ناں شائقین اس پر ہی خوش ہیں‘‘۔

ہماری یہ بات چیت قذافی اسٹیڈیم کے باہر ہو رہی تھی جہاں پانچواں ٹی ٹوئنٹی جاری تھا، عام خیال یہ تھا کہ کمزور حریف اور اپنی ٹیم کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لوگ نہیں آئیں گے مگر لاہور کا اسٹیڈیم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مکمل بھرا ہوا تھا اس کا اندازہ ہمیں میڈیا سینٹر سے ہوا، پی سی بی نے اچھا ہی کیا کہ کراچی میں کوئی میچ نہیں رکھا ورنہ 1،2 ہزار سے زائد لوگ نہیں آتے، یہ ہماری ٹیم کی خاصیت ہے کہ حریف کوئی بھی ہو اسے ہوا بنا دیتے ہیں۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا، اسٹارز کے بغیر آنے والی کیوی ٹیم مستقبل کے اسٹارز لیے واپس روانہ ہوئی، لاہور کے میڈیا باکس میں صحافی دوستوں سے ملاقات ہوئی، سب اپنے کام میں ماہر اور اچھی شخصیت کے مالک ہیں، ساتھ میچ پر تبصرہ بھی جاری رہا، پی سی بی کا سسٹم تھوڑا عجیب ہے، اگر آپ کے چیئرمین سے تعلقات اچھے ہیں تو سب کا رویہ الگ ہوتا ہے، بہت اچھے تعلقات ہوں تو اعلیٰ عہدے والے بھی پہلی بیل پر کال ریسیو کرلیتے ہیں،البتہ تعلقات ٹھیک نہ ہوں تو پھر کوئی نزدیک نہیں آتا، محسن نقوی چونکہ وزیر داخلہ بھی ہیں، پہلے نگراں وزیر اعلیٰ رہ چکے۔

ان کا پروٹوکول ہی بہت ہے، میڈیا سے خاص مواقع پر ہی بات کرتے ہیں جیسے ابھی کوچز کا اعلان کرتے ہوئے کیا، یہ بات سب جانتے ہیں کہ اس لیے لاہور میں بورڈ آفیشلز دور دور ہی رہے، ویسے بھی فار اینڈ پر جب سے میڈیا سینٹر بنا دوریاں بڑھ چکیں، تمام بورڈ والے مین بلڈنگ سے کم ہی باہر نکلتے ہیں، قذافی اسٹیڈیم کی آؤٹ فیلڈ بہت زبردست نظر آئی، یقینی طور پر اس میں گراؤنڈ اسٹاف کی محنت شامل  رہی، البتہ محسن نقوی کے آنے سے بھی فرق پڑا ہے، انھوں نے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرنے کا جو پلان بنایا اس کی تکمیل پر ملکی وینیوز کی حالت بدل جائے گی، مجھے ان کے صرف ایک جملے سے ہی ڈر لگتا ہے کہ ’’ کرکٹ کا پیسہ کرکٹ پر ہی خرچ کریں گے بچا کر نہیں رکھیں گے‘‘۔

اچھی بات ہے پیسہ ضرور خرچ کریں لیکن یہ نہ ہو کہ جب آپ جائیں تو خزانہ خالی ہو چکا ہو، خرچ کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور کمانا مشکل ترین، محسن نقوی کو پی سی بی کی آمدنی بڑھانے کیلیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں پھر سینہ ٹھوک کر کہیں کہ دو ارب خرچ کیے مگر تین ارب کمائے بھی ہیں، آئی سی سی سے ملنے والی رقم کو کمائی نہ سمجھیں اپنے ذرائع آمدنی بنائیں، نیوزی لینڈ سے سیریز پاکستان نے بمشکل برابر کی، صحافیوں سمیت شائقین بھی اس تشویش میں مبتلا نظر آئے کہ ورلڈکپ میں کیا ہوگا، مجھے قذافی اسٹیڈیم میں بابر اعظم کے چند ایسے فینز بھی ملے جو کہتے نظر آئے کہ بوبی بھائی کپتان بنے ہی کیوں ؟

انھیں قیادت کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، بطور بیٹر وہ ملک کے زیادہ کام آ سکتے ہیں، البتہ بابر ابا جی کی بات کیسے ٹال سکتے تھے حالانکہ ان کے قریبی بعض سابق کرکٹرز نے بھی انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا، ویسے محسن نقوی کی جگہ اس وقت اگر ذکا اشرف یا نجم سیٹھی چیئرمین ہوتے تومیڈیا اور سابق کرکٹرز پی سی بی کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہوتے لیکن چیئرمین بہت ’’طاقتور‘‘ ہیں، ان کا عہدہ بھی ایسا ہے کہ کوئی کچھ کہنے سے قبل سو بار سوچے گا، اتنی پاور کے ساتھ وہ آئے ہیں تو اب پی سی بی کی حالت بھی بدل دینی چاہیے۔

وہ ایسا کرنے کے اہل بھی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اپنی ٹیم اچھی نہیں بنا رہے، جب تک اہل سی او او، ڈائریکٹر کرکٹ اور پی ایس ایل کی ٹیم نہیں لاتے مسائل برقرار رہیں گے،اپنے اردگرد منڈلانے والے سابق کرکٹرز پر بھی نظر رکھیں، پاکستان ٹیم پانچواں میچ بھی آخری اوور تک لے کر گئی لیکن فتح کی وجہ سے مداح خوش خوش گھروں کو روانہ ہوئے، میری کچھ لوگوں سے بات ہوئی ان کا یہی کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے مقابلے میں اس بار انتظامات زیادہ بہتر تھے، باکس آفس سیل کی وجہ سے ٹکٹیں حاصل کرنے میں بھی آسانی ہوئی، جگہ جگہ چھوٹی گاڑیاں بھی چلتے دیکھیں جو فیملیز کوپارکنگ و دیگر قریبی مقامات تک چھوڑ رہی تھیں، میڈیا کیلیے بھی ایک گاڑی کا انتظام کیا گیا تھا، میچ کے بعد میں ہوٹل واپس چلا گیا۔

اگلی صبح عباس نے ناشتے کیلیے مجھے جوائن کیا، ٹیم ہوٹل میں ہمیشہ کی طرح بہت رش تھا، اس کا تعلق صرف کرکٹ سے نہیں تھاکیونکہ کیوی کرکٹرز تو رات کو ہی روانہ ہو گئے تھے، پاکستان کے چند کھلاڑی فلائٹ کے انتظار میں ہوٹل میں ہی مقیم تھے، ناشتے کیلیے بھی لائنیں لگی ہوئی تھیں، انتظامیہ کو چائنیز ریسٹورینٹ میں بھی بوفے کا انتظام کرنا پڑا، وہاں موجود بچے اس آس میں لابی میں گھوم رہے تھے کہ شاید کسی کرکٹر کے ساتھ سیلفی کا موقع مل جائے ، اس دن تو ایسا نہیں ہوا لیکن اس سے پہلے کئی بچوں کے دل کی مراد پوری  ہو گئی ہو گی۔

سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات نظر آئے، ہوٹل کی لابی میں بھی سادہ لباس اہلکار سب پر نظریں رکھے ہوئے تھے، میری واپسی کی فلائٹ تھی اس لیے محسن نقوی کی پریس کانفرنس میں شرکت نہ کر سکا، انھوں نے جیسن گلیسپی اور گیری کرسٹن کی بطور کوچز تقرری کا اعلان کیا، دونوں اپنے دور کے بڑے کرکٹرز رہے ہیں، اب پاکستان ٹیم کے لیے کوچنگ میں بھی کامیاب ثابت ہونے کی امید ہے،البتہ بڑا مسئلہ لینگوئج کا ہو گا، کپتان بابر اعظم سمیت دیگر کرکٹرز کو کوچز سے بات چیت میں مشکل پیش آ سکتی ہے، شاید اسی لیے اظہر محمود کا بطور نائب تقرر کیا گیا ہے۔

وہ مترجم کی ذمہ داری بھی نبھائیں گے، انھیں کھلاڑیوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو جھجھکیں نہیں بلکہ کوچز سے بات کریں، ورلڈکپ قریب ہے، پاکستان ٹیم ابھی سیٹل دکھائی نہیں دیتی، البتہ امید ہے برطانیہ میں اچھا کمبی نیشن بن جائے گا، ورلڈکپ میں خراب نتائج بڑوں بڑوں کی کرسیاں ہلا دیتے ہیں، ٹیم کو متحد کر کے اچھے نتائج کے قابل بنانا مینجمنٹ کیلیے بڑا چیلنج ہوگا جس پر انھیں پورا اترنا چاہیے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔