آپ اپنی آئینی حدود جانتے ہیں مگر تجاوز کئی گنا زیادہ ہوتا ہے مولانا فضل الرحمٰن
دوبارہ الیکشن کراؤ ورنہ عوامی سمندر میدان میں آنے کیلئے تیار ہے، سربراہ جے یو آئی کا کراچی میں جلسے سے خطاب
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ٹھیک کرو اور دوبارہ الیکشن کراؤ ورنہ عوامی سمندر میدان میں آنے کے لیے تیار ہے، مجھے یقین ہے آپ اپنے اختیارات کی حدوں کو جانتے ہیں لیکن آپ جو تجاوز کرتے ہیں وہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
جمعرات کی شب مزار قائد سے متصل نیو ایم اے جناح روڈ پر جمعیت علمائے اسلام کراچی کے تحت ''عوامی اسمبلی سندھ'' کے عنوان سے منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کرنی پڑے گی تب ہی وفادار سمجھا جائےگا، آپ کی حکومتوں نے اداروں کو کمزور کیا جسکی سزا عوام بھگت رہے ہیں، ہمیں ڈکٹیٹرز کی تاریخ معلوم ہے جو سازشوں سے اقتدار تبدیل کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگنے کے بعد کہا گیا کہ اب کوئی افغانستان سے آسکتا ہے نا جاسکتا ہے، اربوں روپے کی باڑ کا کیا ہوا، مسلح افراد کیسے واپس آئے؟۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کی حمایت نہیں کی یہ ہمارا بڑا گناہ تھا، مارشل لاء میں پاکستان کے تین دریا بیچ دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ تھک جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ 2018 ء کے بعد ہم نے دھاندلی کے خلاف اپنی تحریک چلائی اُس وقت بھی ان کا یہی خیال تھا مگر ہمارے ہر کارکن نے اس جدوجہد کو جاری رکھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کے جلسے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انتخابات میں قائم ہونے والی اسمبلیاں جعلی ہیں، سندھ اسمبلی سے لیکر ایوان صدر تک کا سودا ہوا، اسمبلیاں خریدی اور بیچی گئی ہیں، ہم ان کے لیے رکاوٹ اور خطرہ تھے اور ہمیں ہروانا ان کے مقاصد میں شامل تھا، ہم ایوانوں میں ہوتے تو نہ یہ جزیرے بیچ سکتے اور نہ ہی کوئی اور غلط کام کر سکتے تھے۔ اسرائیل کی مخالفت، حماس کے حملے کی حمایت اور افغانستان اور پاکستان کی کو بہتر کرنے کی جدوجہد کی ہمیں سزا دی گئی اور ایوانوں سے باہر نکال دیا گیا۔
مزید پڑھیں: ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، آرمی چیف
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری جدوجہد کی کوئی اہمیت نہیں، آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا چاہئے اور اسی کے تحت انتخابات ہوئے ہیں، فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے، جمہوریت مر چکی ہے صرف جمہوریت کا لفظ استعمال ہورہا ہے، ملک میں جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں خود مختار پاکستان کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ہماری جہدوجہد اب اسمبلیوں اور وزارتوں تک پہنچنا نہیں ہے، آج بھی ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود غریب بھوک کے مارے بلک بلا رہا ہے، حالت یہاں تک پہنچائی گئی ہے، اداروں کی نجکاری ہورہی ہے، اب ہماری جدوجہد سڑکوں پر حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قادیانیوں کے لیے ریلیف اور ختم نبوت کے مسئلے پر عدالت عظمی کا آئین کے حقیقی منشاء کے خلاف آیا تو وہ ہمارے جوتے کی نوک پر ہو گا ۔ سندھ کے لوگوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خود میدان میں آنا ہو گا ، تبھی ان کے حقوق اور جزائر بھی محفوظ ہوں گے۔
جلسے سے مولانا عبدالغفور حیدری، علامہ راشد محمود سومرو، سینیٹر عطاء الرحمن، میر شاہ زین خان بجارانی، ایاز لطیف پلیجو، سید زین شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
جمعرات کی شب مزار قائد سے متصل نیو ایم اے جناح روڈ پر جمعیت علمائے اسلام کراچی کے تحت ''عوامی اسمبلی سندھ'' کے عنوان سے منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کرنی پڑے گی تب ہی وفادار سمجھا جائےگا، آپ کی حکومتوں نے اداروں کو کمزور کیا جسکی سزا عوام بھگت رہے ہیں، ہمیں ڈکٹیٹرز کی تاریخ معلوم ہے جو سازشوں سے اقتدار تبدیل کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگنے کے بعد کہا گیا کہ اب کوئی افغانستان سے آسکتا ہے نا جاسکتا ہے، اربوں روپے کی باڑ کا کیا ہوا، مسلح افراد کیسے واپس آئے؟۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کی حمایت نہیں کی یہ ہمارا بڑا گناہ تھا، مارشل لاء میں پاکستان کے تین دریا بیچ دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ تھک جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ 2018 ء کے بعد ہم نے دھاندلی کے خلاف اپنی تحریک چلائی اُس وقت بھی ان کا یہی خیال تھا مگر ہمارے ہر کارکن نے اس جدوجہد کو جاری رکھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کے جلسے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انتخابات میں قائم ہونے والی اسمبلیاں جعلی ہیں، سندھ اسمبلی سے لیکر ایوان صدر تک کا سودا ہوا، اسمبلیاں خریدی اور بیچی گئی ہیں، ہم ان کے لیے رکاوٹ اور خطرہ تھے اور ہمیں ہروانا ان کے مقاصد میں شامل تھا، ہم ایوانوں میں ہوتے تو نہ یہ جزیرے بیچ سکتے اور نہ ہی کوئی اور غلط کام کر سکتے تھے۔ اسرائیل کی مخالفت، حماس کے حملے کی حمایت اور افغانستان اور پاکستان کی کو بہتر کرنے کی جدوجہد کی ہمیں سزا دی گئی اور ایوانوں سے باہر نکال دیا گیا۔
مزید پڑھیں: ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، آرمی چیف
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری جدوجہد کی کوئی اہمیت نہیں، آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا چاہئے اور اسی کے تحت انتخابات ہوئے ہیں، فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے، جمہوریت مر چکی ہے صرف جمہوریت کا لفظ استعمال ہورہا ہے، ملک میں جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں خود مختار پاکستان کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ہماری جہدوجہد اب اسمبلیوں اور وزارتوں تک پہنچنا نہیں ہے، آج بھی ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود غریب بھوک کے مارے بلک بلا رہا ہے، حالت یہاں تک پہنچائی گئی ہے، اداروں کی نجکاری ہورہی ہے، اب ہماری جدوجہد سڑکوں پر حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قادیانیوں کے لیے ریلیف اور ختم نبوت کے مسئلے پر عدالت عظمی کا آئین کے حقیقی منشاء کے خلاف آیا تو وہ ہمارے جوتے کی نوک پر ہو گا ۔ سندھ کے لوگوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خود میدان میں آنا ہو گا ، تبھی ان کے حقوق اور جزائر بھی محفوظ ہوں گے۔
جلسے سے مولانا عبدالغفور حیدری، علامہ راشد محمود سومرو، سینیٹر عطاء الرحمن، میر شاہ زین خان بجارانی، ایاز لطیف پلیجو، سید زین شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔