غرور کا سر نیچا
آج تم اپنا مستقبل نہیں بنا پائے تو پھر ساری زندگی پچھتاؤگے
عامر اسکول میں ہر سال فرسٹ آتا تھا، مُبشّر بس اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا تھا. فوٹو فائل
عامر اور مُبشّر کزن تھے۔
دونوں ایک اسکول اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے لیکن ان کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
عامر کے ابو بینک میں مینجر تھے اور ان کا اپنا کاروبار بھی تھا جس کی وجہ سے ان کی آمدنی کافی اچھی تھی۔ عامر کی ہر خواہش پوری ہوتی تھی۔ والدین کے لاڈپیار نے اسے بگاڑ دیا تھا۔
جب کہ مُبشّرکے ابو فیکٹری میں ملازم تھے۔ تاہم، وہ اپنے بیٹے پر پوری توجہ دیتے تھے۔ اسے ہر وقت نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اپنے اساتذہ کی عزت کیا کرو، بڑوں سے ادب سے پیش آیا کرو، دل لگاکر پڑھا کرو، علم کے سوا دنیا میں کچھ نہیں، آج تم اپنا مستقبل نہیں بنا پائے تو پھر ساری زندگی پچھتائوگے، وغیرہ وغیرہ۔
عامر اسکول میں ہر سال فرسٹ آتا تھا، مُبشّر بس اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا تھا۔ وہ نہ تو بڑوں کی عزت کرتا اور نہ ہی اپنے اساتذہ کرام کی۔
وہ غرور کرنے لگا کہ پورے اسکول میں مجھ سے زیادہ کوئی ذہین نہیں ہے۔
ایک دن عامر اور مُبشّر ایک ساتھ اسکول جارہے تھے۔ راستے میں عامر نے مُبشّرکی بے عزتی کی کہ تم ہر سال صرف پاس ہوتے ہو اور میں فرسٹ آتا ہوں۔ دیکھنا۔۔۔۔
اس سال بھی میں ہی فرسٹ آئوںگا۔ مُبشّر نے اس کی باتوں کا بالکل برا نہیں مانا بلکہ عامر سے کہنے لگا، دیکھو! اتنا غرور اچھا نہیں۔ تمہیں تو اﷲ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ اس پاک ذات نے تمہیں اتنا ذہین بنایا ہے۔
الٹا تم غرور کرتے ہو۔ لیکن عامر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آخرکار امتحان بھی شروع ہوگئے۔ عامر کے سامنے جب پرچہ آیا تو اس نے جلدی جلدی یوں حل کرکے دے دیا جیسے اس نے خود بنایا ہو اور اسے پتا ہوکہ یہی سوالات آئیںگے۔ اس نے تمام پرچے اسی طرح دیے۔ وہ بہت خوش تھا اور ہر کسی سے یہی کہتا تھا کہ اس سال بھی مَیں ہی فرسٹ آئوں گا۔
اُدھر مُبشّر کے پرچے بھی اچھے ہوئے تھے اور اسے یقین تھا کہ وہ اچھے نمبروں پاس ہوجائے گا۔ لیکن غرور نہیں کررہا تھا۔ کچھ مہینوں بعد رزلٹ آگیا۔ تمام طالب علم اسکول کے ہال میں بیٹھے تھے۔
ہر کسی کو صبری سے اپنے نتیجے کا انتظار تھا۔ کچھ دیر بعد سر جمشید آگئے اور رزلٹ بتانا شروع کیا۔ مُبشّر اور عامر کی کلاس کے رزلٹ کی باری آئی تو سر جمشید نے کہا، اس سال اس کلاس میں فرسٹ آنے والا طالب علم مُبشّر علی ہے اور ہر سال جو طالب علم فرسٹ آتا تھا، وہ اس بار صرف پاس ہوا ہے۔ یہ سن کر مُبشّر بہت خوش ہوا۔ ہر کسی نے اسے مبارک باد دی۔
اب عامر بہت شرمندہ ہوا۔ آج اسے احساس ہوا کہ واقعی غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ اسے مُبشّر کی باتیں یاد آرہی تھیں کہ کاش! میں ان پر عمل کرلیتا۔ مُبشّر کے ابو نے کلاس میں فرسٹ آنے پر اسے بہت سے انعامات سے نوازا، وہ بہت خوش تھا۔
ساتھیو! ہمیں کبھی اپنی قابلیت پر غرور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اتنی قابلیت دی اور بڑوں کی عزت کرنی چاہیے ورنہ ہمارا حال بھی عامر کی طرح ہوگا۔
دونوں ایک اسکول اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے لیکن ان کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
عامر کے ابو بینک میں مینجر تھے اور ان کا اپنا کاروبار بھی تھا جس کی وجہ سے ان کی آمدنی کافی اچھی تھی۔ عامر کی ہر خواہش پوری ہوتی تھی۔ والدین کے لاڈپیار نے اسے بگاڑ دیا تھا۔
جب کہ مُبشّرکے ابو فیکٹری میں ملازم تھے۔ تاہم، وہ اپنے بیٹے پر پوری توجہ دیتے تھے۔ اسے ہر وقت نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اپنے اساتذہ کی عزت کیا کرو، بڑوں سے ادب سے پیش آیا کرو، دل لگاکر پڑھا کرو، علم کے سوا دنیا میں کچھ نہیں، آج تم اپنا مستقبل نہیں بنا پائے تو پھر ساری زندگی پچھتائوگے، وغیرہ وغیرہ۔
عامر اسکول میں ہر سال فرسٹ آتا تھا، مُبشّر بس اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا تھا۔ وہ نہ تو بڑوں کی عزت کرتا اور نہ ہی اپنے اساتذہ کرام کی۔
وہ غرور کرنے لگا کہ پورے اسکول میں مجھ سے زیادہ کوئی ذہین نہیں ہے۔
ایک دن عامر اور مُبشّر ایک ساتھ اسکول جارہے تھے۔ راستے میں عامر نے مُبشّرکی بے عزتی کی کہ تم ہر سال صرف پاس ہوتے ہو اور میں فرسٹ آتا ہوں۔ دیکھنا۔۔۔۔
اس سال بھی میں ہی فرسٹ آئوںگا۔ مُبشّر نے اس کی باتوں کا بالکل برا نہیں مانا بلکہ عامر سے کہنے لگا، دیکھو! اتنا غرور اچھا نہیں۔ تمہیں تو اﷲ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ اس پاک ذات نے تمہیں اتنا ذہین بنایا ہے۔
الٹا تم غرور کرتے ہو۔ لیکن عامر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آخرکار امتحان بھی شروع ہوگئے۔ عامر کے سامنے جب پرچہ آیا تو اس نے جلدی جلدی یوں حل کرکے دے دیا جیسے اس نے خود بنایا ہو اور اسے پتا ہوکہ یہی سوالات آئیںگے۔ اس نے تمام پرچے اسی طرح دیے۔ وہ بہت خوش تھا اور ہر کسی سے یہی کہتا تھا کہ اس سال بھی مَیں ہی فرسٹ آئوں گا۔
اُدھر مُبشّر کے پرچے بھی اچھے ہوئے تھے اور اسے یقین تھا کہ وہ اچھے نمبروں پاس ہوجائے گا۔ لیکن غرور نہیں کررہا تھا۔ کچھ مہینوں بعد رزلٹ آگیا۔ تمام طالب علم اسکول کے ہال میں بیٹھے تھے۔
ہر کسی کو صبری سے اپنے نتیجے کا انتظار تھا۔ کچھ دیر بعد سر جمشید آگئے اور رزلٹ بتانا شروع کیا۔ مُبشّر اور عامر کی کلاس کے رزلٹ کی باری آئی تو سر جمشید نے کہا، اس سال اس کلاس میں فرسٹ آنے والا طالب علم مُبشّر علی ہے اور ہر سال جو طالب علم فرسٹ آتا تھا، وہ اس بار صرف پاس ہوا ہے۔ یہ سن کر مُبشّر بہت خوش ہوا۔ ہر کسی نے اسے مبارک باد دی۔
اب عامر بہت شرمندہ ہوا۔ آج اسے احساس ہوا کہ واقعی غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ اسے مُبشّر کی باتیں یاد آرہی تھیں کہ کاش! میں ان پر عمل کرلیتا۔ مُبشّر کے ابو نے کلاس میں فرسٹ آنے پر اسے بہت سے انعامات سے نوازا، وہ بہت خوش تھا۔
ساتھیو! ہمیں کبھی اپنی قابلیت پر غرور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اتنی قابلیت دی اور بڑوں کی عزت کرنی چاہیے ورنہ ہمارا حال بھی عامر کی طرح ہوگا۔