انقلاب کے نعرے اور حقیقت
آج کل ہمارے میدان سیاست میں سیاسی اہلکار انقلاب کے پرچم لہراتے پھررہے ہیں ان میں کچھ وہ ہیں
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com
آج کل ہمارے میدان سیاست میں سیاسی اہلکار انقلاب کے پرچم لہراتے پھررہے ہیں ان میں کچھ وہ ہیں جو انقلاب کو بذریعہ جمہوریت کشید کرنا چاہتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو جمہوری اصلاحات کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کے دعویدار ہیں ان میں ایک بات بہرحال مشترک ہے کہ وہ کسی نہ کسی حوالے سے انقلاب کا نام لے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیشہ جمہوریت کی مالا جپنے والوں کی زبان پر نقطہ انقلاب کیوں آرہا ہے؟
یہ نقطہ ہمارے سیاسی اہلکاروں کی زبان پر اس لیے آرہا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ 40 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو جو دھوکا دیا جارہا ہے، یہ سلسلہ اب مزید نہیں چل سکتا۔ عوام اب اس فراڈ جمہوریت کے کھلونے سے بہلنے کے لیے تیار نہیں جو چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔ اب عوام اس خاندانی جمہوریت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جو 40 سال سے ان پر مسلط ہے۔
پاکستان کی 66 سالہ زندگی میں 40 سال عوام پر جمہوریت مسلط رہی اور بقیہ عرصہ اس فوجی آمریت میں گزرا جسے سیاست دان بلاتے رہے اور جسے سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہی اور جن فوجی حکومتوں میں سیاست دان شامل رہے۔ ہماری مڈل کلاس کے بعض حلقے اگرچہ آج بھی جمہوریت کو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو بھلا دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نام کی کوئی شے کبھی رہی ہی نہیں۔ جمہوریت کے آغاز کا سہرا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے سر باندھا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ 1970 تک پاکستان میں جو حکومتیں نافذ رہیں وہ عوام کی مرضی اور عوام کی حمایت سے محروم رہیں۔
بھٹو نے اس روایت کو توڑتے ہوئے حکومت کے لیے عوامی حمایت کے احساس کو اجاگر کیا لیکن بھٹو کے مخلص اور عوام دوست ساتھی جو جمہوریت لانا چاہتے تھے اور ملک میں نظام قائم کرنا چاہتے تھے، وہ جمہوریت و ہ نظام و ڈیرہ شاہی کے لیے خطرہ بن سکتا تھا اس لیے ان عوام دشمن طاقتوں نے بھٹو کے گرد اپنا گھیرا مضبوط کرلیا اور بھٹو کے گرد ایسا حصار قائم کرلیا کہ بھٹو کے مخلص ساتھی مایوس ہوکر بھٹو سے الگ ہوتے گئے۔
یوں 1970 میں متعارف ہونے والی جمہوریت جلد ہی اپنی موت آپ مر گئی اور اس کی جگہ وہ وڈیرہ شاہی جمہوریت نے لے لی جس کا جمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور جاگیردارانہ ذہنیت سیاست پر اس طاقت سے چھانے لگی کہ یہ نام نہاد جمہوریت چند ایلیٹ کے خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی۔ جاگیردارانہ ذہنیت جاگیرداروں کے تسلط سے نکل کر صنعت کاروں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاست کاروں تک پہنچ گئی اور مذہبی جماعتیں بھی اس ذہنیت کا شکار ہوگئیں۔
آج شریف برادران سے لے کر عمران خان اور طاہر القادری سمیت مختلف سیاست کاروں کی زبان پر انقلاب کے جو نعرے پھسل رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی اہلکار یہ سمجھ گئے ہیں کہ 40 سالہ جمہوریت سے عوام اس قدر بدظن ہوگئے ہیں کہ وہ اب اس بانجھ اور فراڈ جمہوریت کا نام سننے کے لیے تیار نہیں۔ عوام کے اس موڈ کو دیکھ کر ہوشیار سیاست دانوں نے انقلاب کے نعرے لگانے شروع کیے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان نعروں کی حقیقت ''نیا جال لائے پرانے شکاری'' سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ انقلابی نعرے عوام کی نفسیات سے کھیلنے کی ایک شاطرانہ کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔
کسی حقیقی انقلاب کی طرف بڑھنے کے لیے پہلی شرط Status quoکو توڑنا ہوتی ہے اور ہمارے سارے انقلابی اسٹیس کو کے اندر رہتے ہوئے انقلاب لانا چاہتے ہیں ان میں ہمارے نظام بدلنے کے دعویدار عمران خان بھی شامل ہیں۔ بعض سیاست پلس مذہبی اکابرین اگرچہ واضح طور پر ''اسٹیٹس کو'' کو توڑ کر نظام بدلنے اور انقلاب لانے کی بات کررہے ہیں حتیٰ کہ انقلاب کی تاریخ اور مہینہ تک بتارہے ہیں لیکن افسوس کہ وہ انقلاب کے ناگزیر لوازمات سے واقف نہیں۔
انقلاب کا بنیادی مقصد عوام کو برسر اقتدار لانا ہوتا ہے، انقلاب کا دوسرا مقصد پوری سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام کو بدل کر ایسا سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام لانا ہوتا ہے جس کا مقصد عوام کی سماجی سیاسی اور اقتصادی زندگی کو سر سے پائوں تک بدل کر لوٹ مار خاندانی جمہوریت کو تہس نہس کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے ایک ایسی منظم اور عوام میں اپنی جڑیں رکھنے والی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو نظریاتی طور پر مستحکم ہو اور جس کے پاس نظریاتی کارکن لاکھوں کی تعداد میں ہوں یہ ایک بڑا اور مشکل کام ہے لیکن اس کے بغیر کوئی انقلاب نہ بامعنی ہوسکتا ہے نہ استحصالی طبقات کو ختم کرسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے ایسی پارٹی کی تشکیل میں وقت لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بامعنی انقلاب ایسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ہمارے ملک میں انقلاب لانے کی جو کوشش ہورہی ہیں ان میں ایسی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو ماضی میں فوجی اور جمہوری دونوں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور لوٹ مار میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کا تعلق اس ایلیٹ کلاس سے ہے جس کا عوام سے بس اتنا تعلق ہوتا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران پیشانی پر قوم کی تقدیر بدلنے کے نعرے سجا کر عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے آتی ہے اور اقتدار میں آتے ہی عوام سے اس کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔
انقلاب کا مطلب ایلیٹ سے اس کے اختیارات اس کی دولت اس کے وسائل بزور طاقت چھین کر انھیں عوام کی ملکیت بنانا ہوتا ہے، کام کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سے ناجائز قابضین کو ہٹانا کس قدر مشکل ہوتا ہے جب کہ ان ناجائز قابضین کے ساتھ نہ قانون ہوتا ہے نہ انصاف نہ ریاستی مشینری جب کہ سیاسی قابضین کے ساتھ قانون ہوتا ہے انصاف ہوتا ہے ریاستی مشینری ہوتی اور دولت اور وسائل کے انبار ہوتے ہیں۔
اس پس منظر میں انقلاب بچوں کا کھیل ہے نہ سیاست کاروں کے بس کی بات ہے لیکن اس پس منظر میں جو بات انتہائی حوصلہ بخش ہے، وہ یہ ہے کہ اس ملک کے عوام واقعی ایک بامعنی انقلاب چاہتے ہیں اور عوام کو قوت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے جس کا ثبوت 1968 اور 1977 کی عوامی تحریکیں ہیں جنھوں نے حکومت کی رٹ اور ریاستی مشینری کو عضوئے معطل بناکر رکھ دیا تھا یہ واقعی انقلاب کا آغاز تھا لیکن ان ہی سیاست دانوں ان ہی انقلاب فروشوں نے انقلاب کو کوڑیوں کے داموں بیچ دیا۔
اگر سیاست دان ایماندار ہوتے عوام سے مخلص ہوتے تو 1968 اور 1977 کی تحریکوں کا رخ انقلاب کی طرف مور سکتے تھے لیکن ان سیاسی بردہ فروشوں نے عوام سے غداری کی اور عوام کی طاقت کو فوجی آمروں کی حکومتوں میں شامل ہونے کے لیے استعمال کیا۔آج ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام واقعی انقلاب چاہتے ہیں، ایسا انقلاب جو خاندانی جمہوریت، خاندانی سیاست اور ایلیٹ کی لوٹ مار کا خاتمہ کردے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام کی خواہش عوام کی طاقت کو ایک بامعنی اور حقیقی انقلاب کے لیے استعما ل کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ یہ صورت حال عوام کو یا تو مشرق وسطیٰ کے نامکمل اور بے سمت انقلابات کی طرف لے جائے گی یا پھر اس تاریخی انقلاب فرانس کی طرف جو بے نتیجہ یوں رہا کہ انقلاب کا مقصد پورا نہ ہوسکا، نتیجہ خیز اس حوالے سے رہا کہ عوام نے اس کلاس کا خاتمہ کریا جو جاگیرداروں کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اور جس کے مظالم جس کی لوٹ مار سے فرانسیسی عوام عاجز آگے تھے، فیصلہ وقت کرے گا کہ عوامی خواہش کس سمت میں پیش رفت کرتی ہے۔
یہ نقطہ ہمارے سیاسی اہلکاروں کی زبان پر اس لیے آرہا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ 40 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو جو دھوکا دیا جارہا ہے، یہ سلسلہ اب مزید نہیں چل سکتا۔ عوام اب اس فراڈ جمہوریت کے کھلونے سے بہلنے کے لیے تیار نہیں جو چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔ اب عوام اس خاندانی جمہوریت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جو 40 سال سے ان پر مسلط ہے۔
پاکستان کی 66 سالہ زندگی میں 40 سال عوام پر جمہوریت مسلط رہی اور بقیہ عرصہ اس فوجی آمریت میں گزرا جسے سیاست دان بلاتے رہے اور جسے سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہی اور جن فوجی حکومتوں میں سیاست دان شامل رہے۔ ہماری مڈل کلاس کے بعض حلقے اگرچہ آج بھی جمہوریت کو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو بھلا دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نام کی کوئی شے کبھی رہی ہی نہیں۔ جمہوریت کے آغاز کا سہرا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے سر باندھا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ 1970 تک پاکستان میں جو حکومتیں نافذ رہیں وہ عوام کی مرضی اور عوام کی حمایت سے محروم رہیں۔
بھٹو نے اس روایت کو توڑتے ہوئے حکومت کے لیے عوامی حمایت کے احساس کو اجاگر کیا لیکن بھٹو کے مخلص اور عوام دوست ساتھی جو جمہوریت لانا چاہتے تھے اور ملک میں نظام قائم کرنا چاہتے تھے، وہ جمہوریت و ہ نظام و ڈیرہ شاہی کے لیے خطرہ بن سکتا تھا اس لیے ان عوام دشمن طاقتوں نے بھٹو کے گرد اپنا گھیرا مضبوط کرلیا اور بھٹو کے گرد ایسا حصار قائم کرلیا کہ بھٹو کے مخلص ساتھی مایوس ہوکر بھٹو سے الگ ہوتے گئے۔
یوں 1970 میں متعارف ہونے والی جمہوریت جلد ہی اپنی موت آپ مر گئی اور اس کی جگہ وہ وڈیرہ شاہی جمہوریت نے لے لی جس کا جمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور جاگیردارانہ ذہنیت سیاست پر اس طاقت سے چھانے لگی کہ یہ نام نہاد جمہوریت چند ایلیٹ کے خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی۔ جاگیردارانہ ذہنیت جاگیرداروں کے تسلط سے نکل کر صنعت کاروں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاست کاروں تک پہنچ گئی اور مذہبی جماعتیں بھی اس ذہنیت کا شکار ہوگئیں۔
آج شریف برادران سے لے کر عمران خان اور طاہر القادری سمیت مختلف سیاست کاروں کی زبان پر انقلاب کے جو نعرے پھسل رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی اہلکار یہ سمجھ گئے ہیں کہ 40 سالہ جمہوریت سے عوام اس قدر بدظن ہوگئے ہیں کہ وہ اب اس بانجھ اور فراڈ جمہوریت کا نام سننے کے لیے تیار نہیں۔ عوام کے اس موڈ کو دیکھ کر ہوشیار سیاست دانوں نے انقلاب کے نعرے لگانے شروع کیے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان نعروں کی حقیقت ''نیا جال لائے پرانے شکاری'' سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ انقلابی نعرے عوام کی نفسیات سے کھیلنے کی ایک شاطرانہ کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔
کسی حقیقی انقلاب کی طرف بڑھنے کے لیے پہلی شرط Status quoکو توڑنا ہوتی ہے اور ہمارے سارے انقلابی اسٹیس کو کے اندر رہتے ہوئے انقلاب لانا چاہتے ہیں ان میں ہمارے نظام بدلنے کے دعویدار عمران خان بھی شامل ہیں۔ بعض سیاست پلس مذہبی اکابرین اگرچہ واضح طور پر ''اسٹیٹس کو'' کو توڑ کر نظام بدلنے اور انقلاب لانے کی بات کررہے ہیں حتیٰ کہ انقلاب کی تاریخ اور مہینہ تک بتارہے ہیں لیکن افسوس کہ وہ انقلاب کے ناگزیر لوازمات سے واقف نہیں۔
انقلاب کا بنیادی مقصد عوام کو برسر اقتدار لانا ہوتا ہے، انقلاب کا دوسرا مقصد پوری سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام کو بدل کر ایسا سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام لانا ہوتا ہے جس کا مقصد عوام کی سماجی سیاسی اور اقتصادی زندگی کو سر سے پائوں تک بدل کر لوٹ مار خاندانی جمہوریت کو تہس نہس کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے ایک ایسی منظم اور عوام میں اپنی جڑیں رکھنے والی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو نظریاتی طور پر مستحکم ہو اور جس کے پاس نظریاتی کارکن لاکھوں کی تعداد میں ہوں یہ ایک بڑا اور مشکل کام ہے لیکن اس کے بغیر کوئی انقلاب نہ بامعنی ہوسکتا ہے نہ استحصالی طبقات کو ختم کرسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے ایسی پارٹی کی تشکیل میں وقت لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بامعنی انقلاب ایسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ہمارے ملک میں انقلاب لانے کی جو کوشش ہورہی ہیں ان میں ایسی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو ماضی میں فوجی اور جمہوری دونوں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور لوٹ مار میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کا تعلق اس ایلیٹ کلاس سے ہے جس کا عوام سے بس اتنا تعلق ہوتا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران پیشانی پر قوم کی تقدیر بدلنے کے نعرے سجا کر عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے آتی ہے اور اقتدار میں آتے ہی عوام سے اس کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔
انقلاب کا مطلب ایلیٹ سے اس کے اختیارات اس کی دولت اس کے وسائل بزور طاقت چھین کر انھیں عوام کی ملکیت بنانا ہوتا ہے، کام کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سے ناجائز قابضین کو ہٹانا کس قدر مشکل ہوتا ہے جب کہ ان ناجائز قابضین کے ساتھ نہ قانون ہوتا ہے نہ انصاف نہ ریاستی مشینری جب کہ سیاسی قابضین کے ساتھ قانون ہوتا ہے انصاف ہوتا ہے ریاستی مشینری ہوتی اور دولت اور وسائل کے انبار ہوتے ہیں۔
اس پس منظر میں انقلاب بچوں کا کھیل ہے نہ سیاست کاروں کے بس کی بات ہے لیکن اس پس منظر میں جو بات انتہائی حوصلہ بخش ہے، وہ یہ ہے کہ اس ملک کے عوام واقعی ایک بامعنی انقلاب چاہتے ہیں اور عوام کو قوت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے جس کا ثبوت 1968 اور 1977 کی عوامی تحریکیں ہیں جنھوں نے حکومت کی رٹ اور ریاستی مشینری کو عضوئے معطل بناکر رکھ دیا تھا یہ واقعی انقلاب کا آغاز تھا لیکن ان ہی سیاست دانوں ان ہی انقلاب فروشوں نے انقلاب کو کوڑیوں کے داموں بیچ دیا۔
اگر سیاست دان ایماندار ہوتے عوام سے مخلص ہوتے تو 1968 اور 1977 کی تحریکوں کا رخ انقلاب کی طرف مور سکتے تھے لیکن ان سیاسی بردہ فروشوں نے عوام سے غداری کی اور عوام کی طاقت کو فوجی آمروں کی حکومتوں میں شامل ہونے کے لیے استعمال کیا۔آج ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام واقعی انقلاب چاہتے ہیں، ایسا انقلاب جو خاندانی جمہوریت، خاندانی سیاست اور ایلیٹ کی لوٹ مار کا خاتمہ کردے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام کی خواہش عوام کی طاقت کو ایک بامعنی اور حقیقی انقلاب کے لیے استعما ل کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ یہ صورت حال عوام کو یا تو مشرق وسطیٰ کے نامکمل اور بے سمت انقلابات کی طرف لے جائے گی یا پھر اس تاریخی انقلاب فرانس کی طرف جو بے نتیجہ یوں رہا کہ انقلاب کا مقصد پورا نہ ہوسکا، نتیجہ خیز اس حوالے سے رہا کہ عوام نے اس کلاس کا خاتمہ کریا جو جاگیرداروں کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اور جس کے مظالم جس کی لوٹ مار سے فرانسیسی عوام عاجز آگے تھے، فیصلہ وقت کرے گا کہ عوامی خواہش کس سمت میں پیش رفت کرتی ہے۔