قرضہ غیر پیداواری مقاصد کیلیے ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں
تجزیہ کار نوید حسین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے تو خدا کا واسطہ ہے کہ حقیقت پسندانہ بات کیا کریں، ایسے سبز باغ نہ دکھائے جائیں، عوام کو حقیقت بتائی جائے کہ صورتحال کیا ہے اور ہم کس حد تک جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اس کو قرضے لینے کی لت پڑی ہے مسلسل قرضے لیے جا رہے ہیں، آمدن بڑھانے اور خرچے کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ قرضہ پیداواری مقاصد اور سرمایہ کاری کے لیے ہو تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن غیر پیداواری مقاصد کے لیے ہو تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں، سیکیورٹی اخراجات کے لیے ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
گزشتہ چھ دہائیوں سے تو ہم پھنسے ہی اس میں ہوئے ہیں، جاپانی قرضہ ہم پر بہت ہے جس کا ذکر بھی نہیں ہوتا کہ بھئی کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت کے جو معاشی اعشاریے ہیں ان میں ایک بڑی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور اس کی تائید بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی انڈروسمنٹ کی گئی ہے کہ پاکستان کے جو معاشی اعشاریے ہیں وہ بہتر ہوئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اثرات نچلی سطح تک عام آدمی پر کس طرح منتقل ہوں گے اور کب منتقل ہوں گے؟۔
تجزیہ کار شکیل انجم نے کہاکہ حکومت 7 سال کیلیے 1240 ارب روپے قرضہ لینا چاہ رہی ہے اس کا انٹرسٹ ریٹ چھ سے سات فیصد ہو گا، بنیادی طور پر یہ قرضہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے لیا جا رہا ہے، اس کیلیے حکومت نے پہلے کوشش کی اور آپ نے دیکھا کہ چھ آئی پی پیز کے ساتھ حکومت نے بات چیت کی معاہدے کیے،ان کی 400 ارب روپے کی کوئی ادائیگی ہے وہ بھی کر دی گئی ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ جو موجودہ صورتحال ہے کہ کہہ رہے ہیں اکانومی بالکل ٹھیک ہے بات کہ آئی ایم ایف سے قرضے لیکر اکانومی کو اسٹیبل تو کیا ہے لیکن یہ اسٹیبل اس صورت میں ہوگی جب مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنے وسائل جب گورنمنٹ چلنا شروع ہو جائے گی اور قرضوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا ابھی تک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔