بھارتی جارحیت کا توڑ
فوٹو: فائل
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے تناظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے قومی سلامتی پر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ان کیمرہ سیشن کے دوران قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر بریفنگ دی۔ ملک بھر کی سیاسی قیادت نے پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے پیش نظر افواج پاکستان کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب پاکستان نے باضابطہ طور پر خطے کی تازہ ترین صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کیمرہ بریفنگ کا انعقاد، یقیناً ایک مثبت قدم ہے جس سے یہ تاثر گیا کہ پاکستان کے تمام اہم ادارے، سیاسی رہنما اور افواج پاکستان دشمن کی کسی بھی چال کو ناکام بنانے کے لیے ایک پیج پر ہیں۔ اس اجلاس میں ملکی سیکیورٹی صورتحال، بھارتی عزائم اور موجودہ جیو پولیٹیکل حالات پر جس سنجیدگی سے غور کیا گیا، اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔
درحقیقت پاکستان کا ردعمل اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ ایک جانب ہماری سیاسی قیادت، عسکری ادارے اور سفارتی محاذ ایک صفحے پر دکھائی دیے، اور دوسری جانب ہر بیان میں امن، استحکام اورگفت و شنید پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم امن چاہتے ہیں، لیکن امن کی خواہش کو ہرگزکمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہے اور اپنے دفاع سے غافل نہیں۔
بھارت کی جانب سے خطے میں طاقت کے مظاہرے اور پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کو سب سے بڑا خطرہ نئی دہلی کی انتہا پسند پالیسیوں سے لاحق ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے جس طرح داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان دشمن بیانیے کو ہوا دی ہے، وہ نہ صرف سفارتی آداب کے منافی ہے بلکہ خطے کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا چکی ہے۔ مودی کی تقاریر ہوں یا بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات، ان سب کا مقصد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان پر دباؤ بڑھانا اور دنیا کو ایک غلط تصور دینا ہے کہ بھارت مظلوم ہے اور پاکستان جارح۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی پالیسی اب محض دفاعی نوعیت کی نہیں رہی بلکہ اس میں جارحیت کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ مودی کی تقاریر میں جس طرح نفرت، تعصب، اور پاکستان دشمنی جھلکتی ہے، وہ اس بات کی غماز ہے کہ موجودہ بھارتی قیادت کے ذہن میں ایک شدت پسندانہ نظریہ کارفرما ہے، جو علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اور اقتصادی مفادات کی خاطر بھارت کی آنکھ بند کر کے حمایت، ان تمام خطرات کو مزید بڑھا رہی ہے۔
حال ہی میں پہلگام کے مقام پر مبینہ فالس فلیگ آپریشن نے ایک بار پھر اس خطرناک رجحان کی نشاندہی کی ہے جو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ بھارت کا پرانا وطیرہ رہا ہے کہ داخلی بحرانوں یا انتخابی دباؤ سے نکلنے کے لیے پاکستان کے خلاف مصنوعی الزامات تراشے جائیں، جھوٹے حملوں کا ڈراما رچایا جائے اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے۔
اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ پہلگام واقعے کے فوری بعد جس تیزی سے بھارت نے انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی اور اپنا میڈیا ہتھیار بنا کر فضا کو زہر آلود کیا، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس واقعے کے پیچھے خود بھارتی اداروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی انتہائی مؤثر اقدامات کیے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس معاملے پر بریفنگ دینے کا فیصلہ نہایت بروقت اور مدبرانہ ہے۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ عالمی برادری کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے، اور بھارتی بیانیے کا توڑ مہذب انداز میں کیا جائے۔ دنیا کو بتانا ضروری ہے کہ بھارت صرف ایک ہمسایہ ملک کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کر رہا، بلکہ وہ خطے کے امن، عالمی قوانین اور ایٹمی استحکام کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر جھوٹے الزامات، فالس فلیگ آپریشنز اور جعلی سرجیکل اسٹرائیکس کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پلوامہ واقعہ اور اس کے بعد ہونے والی مبینہ کارروائی میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ بعد میں خود بھارتی میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے ان کارروائیوں پر سوالات اٹھائے۔ پہلگام کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعے بھارت عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور داخلی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہے۔خطے کے کروڑوں عوام جنھیں بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کا سامنا ہے، وہ اس کشیدگی کے سب سے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔
وسائل جو انسانی فلاح کے لیے خرچ ہونے چاہییں، وہ دفاع پر صرف ہوتے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان اعتماد، تعاون اور امن کا ماحول پیدا ہو تو یہ خطہ دنیا کے ترقی یافتہ خطوں میں شامل ہو سکتا ہے، مگر جب تک بھارت کا رویہ جارحانہ، ضدی اور جھوٹ پر مبنی رہے گا، تب تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہماری ایئر فورس، نیوی اور آرمی نے وقتاً فوقتاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہیں بلکہ ہر محاذ پر اپنی برتری کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ حالیہ ان کیمرہ بریفنگ میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے افواج پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا، جو کہ ایک قومی فہم و فراست کا مظہر ہے۔
پاکستان، جو پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور مشکل جنگ لڑ چکا ہے، کسی بھی صورت میں ایک نئی جنگ کا خواہاں نہیں۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے ہمیشہ امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور بارہا بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی ہٹ دھرمی کا نوٹس لے۔ تاہم، بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی، کبھی جعلی انکاؤنٹرز، تو کبھی سرحد پار دراندازی کے الزامات، ان سب کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور بین الاقوامی سطح پر اسے بدنام کرنا ہے۔
ایسے میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ضروری قومی یکجہتی ہے۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے لیے عسکری قیادت ، عوام اور سیاسی قیادت کا یکجا ہونا نہایت ضروری ¦ے۔ موجودہ حالات میں قومی یکجہتی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کے اندر اختلافات کو ہوا دے کر اسے اندر سے کمزور کیا جائے، لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملکی سلامتی پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو کمزور سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ پاکستانی عوام نے بھی ہر مشکل وقت میں ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، چاہے وہ زلزلے ہوں، سیلاب، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا بھارتی جارحیت کا سامنا، پاکستانی قوم نے ہمیشہ مثالی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کبھی مستقل طور پر مستحکم نہیں رہی، اور موجودہ بھارتی حکومت کے اقدامات نے ان تعلقات میں مزید دراڑیں ڈال دی ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پاؤں تلے روندنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ پاکستان نے ہمیشہ اس اقدام کی مخالفت کی اور دنیا کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا۔ تاہم، بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سرحدی خلاف ورزیاں اس بات کی علامت ہیں کہ وہ جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی اندرونی ناکامیوں کو چھپایا جا سکے۔
یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو اپنی داخلی صفوں کو مکمل طور پر منظم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کی اصل طاقت ہمارے اندرونی خلفشار کو بڑھاوا دینا ہے۔ اگر ہم نے قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا نہ کیا، اگر ہم نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بند نہ کیا، اور اگر ہم نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت نہ دی، تو دشمن موقع کی تلاش میں ہے۔ اس لیے اس وقت ضرورت ہے کہ حکومت، اپوزیشن، ادارے، عوام، سب ایک صف میں کھڑے ہوں۔ ہمیں ہر قسم کی سیاسی، مذہبی، لسانی اور علاقائی تقسیم کو پس پشت ڈال کر وطن کی سالمیت اور خودمختاری کو مقدم رکھنا ہوگا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود پر اعتماد کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان نہ تو کمزور ہے، نہ تنہا، اور نہ ہی کسی مہم جوئی کا شکار ہو گا۔ اگر بھارت نے کسی قسم کی مہم جوئی کا ارادہ کیا تو اسے نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ناکامی ہوگی۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، لیکن اپنی خود مختاری، وقار اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ آج جو قومی یکجہتی دیکھنے کو ملی ہے، اسے برقرار رکھنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ یہی یکجہتی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے، اور یہی وہ طاقت ہے جو ہمیں دشمن کی ہر سازش سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔