نثارمحمد خان، ایک ہمہ جہت شخصیت

جنہوں نے اداکاری، صداکاری،تصنیف وتالیف ،براڈکاسٹنگ اورموسیقی کونئی جہات سے روشناس کرایا

سرخ وسفید رنگت کا امتزاج، جہاں دیدہ سُرخ آنکھیں اور حرکات و سکنات میں نظر آنے والی پھرتی، جہاں ان کی شخصیت سے چند پردے اٹھاتی وہیں ان کی عمر پر ایک دبیز تہہ بھی ڈال دیتی اور دیکھنے والا ان کی عمر کے بارے میں اپنے ذہن میں جو اندازہ کرتا، وہ اس سے دگنی نکلتی ،رعب دار مگراصل صوابی وال یوسف زئی چہرہ، ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرنے کا انداز کسی بہترین مقرر سے مشابہہ، یہی وجہ تھی کہ ان کے منہ سے نکلنے والی ہر بات جہاں معلومات میں اضافہ کرتی، وہیں سوچ کے کواڑوں کو بھی کھول دیتی، پشتولکھاریوں میں وہ واحد شخصیت تھے جو ہر وقت کسی تحقیق یا مطالعے میں مگن دکھائی دیتے جس کی وجہ سے ان کے ہر کام میں پرفیکشن نظر آتی ہے۔

 عرصہ دراز سے ہر شعبہ میں چلنے والی گروپ بندی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، ان کی تمام تر توجہ ہمیشہ صرف اپنے کام پر مرکوز رہی،ان کی کامیابی کا راز بھی شاید یہی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کچھ لوگ واقعی امر ہونے کے لیے جنم لیتے ہیں اور وہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں کہ مشعل راہ بن جاتے ہیں، نثارمحمد خان نے بھی اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں پرنہ صرف نیک نامی سمیٹی بل کہ ریڈیو، فلم اور ٹی وی کے حوالے سے خودکو ایک اکیڈمی بھی ثابت کیا۔

 خیبر پختون خوا کی زرخیز اور مردم خیز مٹی ضلع صوابی کے تاریخی گاؤں شاہ منصور میں جنم لینے والے نثار محمد خان کی ہمہ جہت شخصیت کو چند سطور میں سمیٹنا یقیناً ممکن نہیں۔ لیکن ہم اپنی مقدور بھر کاؤش سے ان کی شخصیت کے چند گوشے، اس جوہر قابل کی محنت شاقہ اور عزم پیہم کی کہانی قارئین کے گوش گزارکرنا چاہتے ہیں۔

 ریڈیوپاکستان پشاورکے سابق سٹیشن ڈائریکٹر، پشتوزبان کے معروف شاعر،ادیب،ڈرامہ نگار،کہانی نویس، اداکار، براڈ کاسٹراورماہرموسیقی نثارمحمد خان صوابی کے معروف گاؤں شاہ منصور میں خواجہ محمد خان کے ہاں 1942ء میں پیدا ہوئے۔ شاہ منصور مدرسہ سے مروجہ علوم میں ابتدائی تعلیم پائی۔ اس کے بعد 1959ء میں گورنمنٹ ہائی سکول زیدہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1961ء میں اکبر میموریل کالج مردان سے انٹر کے بعد 1963ء میں صوبے کے تاریخی اور معروف درس گاہ اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے عازم کراچی ہوکر وہاں آئی جی اے سے ایم بی اے نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ 1967ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد انفارمیشن گروپ میں چلے گئے، ان کی پہلی پوسٹنگ ڈھاکہ میں ہوئی جہاں سنٹرل نیوزآرگنائزیشن میں پشتو زبان میں خبریں پڑھتے رہے۔

لگ بھگ 1969ء میں ریڈیوپاکستان راول پنڈی ٹو میں (جس میں مظفرآباد بھی شامل تھا) بحیثیت پروڈیوسر تعینات ہوئے، مظفرآبادکی تین سالہ دور ملازمت میں میڈیا کے حوالے سے بانگ رسالہ میں لکھنا شروع کیاجس سے لکھنے لکھانے کے سفرکا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں پہلا ڈرامہ ’’میری چاند‘‘ تخلیق کیا، اس دوران جنت نظیر وادی کے دل کش چکار، چکوٹی، بانڈو، زیات، اٹھ مقام، پلندری اور باغ کے علاقوں پر (آزاد کشمیر کی سیر گاہوں کے نام) سے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن کو کافی پذیرائی ملی۔ اسی طرح ہیلون گاش (صبح کی کرنیں) پروگرام نے مقبولیت کی سند حاصل کی۔ محنت، لگن اورشوق کا یہ سلسلہ لاہور تک پہنچا تو یہاں بھی تخلیقی صلاحیتوں میں مزید نکھار آیا اور مزید نیک نامی سمیٹی۔ اس عرصہ میں لاہور فلم انڈسٹری میں پشتو میں فلم لکھنے کا شوق چرایا اور 1971ء میں ’’مفرور‘‘ اور ’’اووربل‘‘ جیسی کامیاب فلموں کی کہانیاں لکھیں۔

اس کے بعد پشاور میں مرحوم پروفیسر پریشان خٹک کے کہنے پر پشتو ادب میں ماسٹرکی ڈگری حاصل کی جو آگے چل کر پشتو فلمیں اور ڈرامے لکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی۔ جس کے بعد 52 یادگاری فلموں کی کہانیاں اورگیت تخلیق کیے۔ 1973ء میں ڈرامہ سیکشن جب ان کے حوالے کیاگیا تو پشتو ڈرامے کو نئے آہنگ اورجدیدیت سے روشناس کرانے کے لیے کافی محنت کی۔ اس دوران ’’شگے سرے شوے‘‘ جب عوام کی سماعتوں اور بصارت سے ٹکرایا تو اسے کافی پذیرائی ملی اسی عرصہ میں یک شخصی کردار پر مبنی ڈرامہ ’’چغہ‘‘ جس میں صوبے کے ممتازاداکار ممتار علی شاہ نے اپنے فن کے جوہر دکھائے، نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے، اس طرح پشتو ڈرامے کو ایک نئی جہت ملی جسے دیگر تخلیق کاروں نے آگے بڑھایا۔

 نثار محمد خان نے اپنے کیریئر کے دوران تقریباً 150 ڈرامے تخلیق کئے جن میں عوام کے سلگتے مسائل کی نشاندہی کی گئی ان ڈراموں کے ذریعے پختون روایات کی خوبصورت انداز میں عکاسی کی بھی کی گئی۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی خصوصیت یہ بھی رہی کہ وہ بیک وقت ٹی وی، ریڈیو اور فلم نگری کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ نثار محمد خان بطور اداکار بھی مقبول رہے۔ 1973ء میں ٹیلی ویژن پر شہزاد خلیل کے ڈرامے ’’ولے شاہے‘‘ میں مرکزی کردار نبھایا۔ اسی طرح پی ٹی وی سے ڈراموں کے مقابلے میں ’’جو اماں ملی تو کہاں ملی‘‘ میں فردوس جمال کے ساتھ جیل سپرنٹنڈنٹ کا کردار نبھایا۔ ساتھ ہی ہندکو ڈرامے ’’کونج‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ڈرامے کی جدید تکنیک سیکھنے کی غرض سے حکومت نے 1975ء میں ہالینڈکورس کے لیے بھجوایا جہاں پر ڈرامے کو جدیدیت سے نوازنے بارے کافی جان کاری حاصل کی۔

اس ٹریننگ کے بعد ان کو کوئٹہ سنٹر ٹرانسفرکیاگیا جہاں فوک موسیقی کو نئے آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جب کہ ڈرامہ سیکشن بھی ان کے حوالے کیاگیا۔ اس دوران فوک موسیقی کے حوالے سے جمال شاہ، عیسیٰ خان، ملخوزہ سمیت کئی اداکاروں، صدا کاروں اور گلوکاروں کو متعارف کرایا۔ اسی تسلسل کو لاہور میں بھی برقرار رکھا، سنٹرل پروڈکشن کے شعبے میں پشتو کی 350 بھولی بسری آوازوں کی ری میکسینگ کرکے ان کی کوالٹی کو بہتر بنایا۔ لاہور میں دیگر کے علاوہ گلوکاروں میں اے نیئر اور ماہ جبین قزلباش کو انہوں نے متعارف کرایا۔ان کی یادداشتوں میں سے ایک کا ذکرکچھ یوں ہے کہ جب ایک شام بارش کے باعث سٹوڈیو میں نثارمحمد خان بیٹھے ہوئے تھے تو مہدی حسن صاحب ان کے پاس آئے اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر دکھایا کہ یہ کراچی میں آپ کی طرف سے انعام دیاگیا تھا جو میں نے ابھی تک سنبھال کے رکھا ہے۔

 نثارمحمد خان کی تخلیقات کا سفر نہ صرف اندرون ملک جاری رہا بل کہ دیار غیر میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بی بی سی کے لیے لکھے گئے ڈرامہ( پیس ہاربر) نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اسی طرح ورجینا یونی ورسٹی میں بطور انسٹرکٹر وہاں ڈرامے کے حوالے سے بہت کام کیا، جب کہ امن کے حوالے سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں پچیس ڈرامے تحریر کئے جن کوکافی پذیرائی ملی۔

نثارمحمد خان کی شادی ماموں زاد بیٹی سے بیس اکتوبر انیس سو اڑسٹھ میں روایتی پشتون کلچر کے مطابق انجام پائی اور اللہ تعالی نے انہیں گیارہ بچوں سے نوازا جس میں سے چھ ڈاکٹر ہیں جب کہ دو بیٹے جواد اور افتخار سرجن ہیں ، نثارمحمد خان کو آٹھویں جماعت میں ستار سیکھنے کا شوق چرایا اور معروف ستار نواز شاد محمد استاد سے ستار سیکھنا شروع کی،جس کو وہ اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔

نثارمحمد خان امریکہ، کینیڈا، برطانیہ،سعودی عرب ،سوئزرلینڈ، نیدرلینڈ، انڈیا، تھائی لینڈ ،سنگاپور، سری لنکا، افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش،ملائشیا، تھائیوان، انڈونیشیا، چین، جنوبی افریقہ،آسٹریلیااورنیوزی لینڈ پیشہ ورانہ امورکی انجام دہی اورسیر وسیاحت کے لیے گھومے پھرے ہیں۔ انہوں نے چالیس سالہ ملازمت کے بعد بھی میڈیا سے اپناناطہ نہیں توڑا، ان کوکچلر ڈائرئکٹریٹ خیبر پختون خواکے پہلے ڈائریکٹر ہونے کا بھی اعزازحاصل رہا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تجربے کو نئے آنے والوں کو متقل کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نئے ساتھیوںکا مشاہدہ اورمطالعہ گہرا ہونا ضروری ہے تب ہی وہ بغیر کسی پرچی کے ضرور اپنے لیے مقام پیدا کر سکتے ہیں۔

وہ کہاکرتے تھے کہ بد قسمتی سے اب تخلیق کا عنصرکم اورچربہ سازی کا رواج عام ہوچکا ہے جس کے باعث فلم انڈسٹری زوال پذیر ہے،جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلموں میں اصل کہانی نظر آنے کی بجائے دیگر لوازمات ٹھونسنے کو فلم کی کامیابی کی ضمانت تصورکیا جانے لگا ہے۔ جو بھی فلمیں بن رہی ہیں، ان پر وہ محنت نہیں کی جا رہی جس کی ضرورت ہے، اگرچہ چند سالوں سے کچھ بہتر ڈرامے بننا شروع ہوگئے ہیں لیکن معیارکی حدود کو چھونے کے لیے مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق ریڈیو کا احیاء نیک شگون ہے کیوں کہ انتہائی آسان میڈیم کے ذریعے عوام کوتعلیم اور تفریخ کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی بہتر اندازسے ممکن بنائی جاسکتی ہے، ایف ایم کے ذریعے دنیا بھرکی معلومات حاصل کرنے کا یہ آسان اور سستا ذریعہ بھی ہے، پاکستان میں بھی اس کے سننے والوں کی تعداد میںبھی اضافہ اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، خوش آئند امریہ بھی ہے کہ میڈیا میں مثبت مقابلے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔

اس جہاندیدہ شخصیت نے  7ستمبر 2018 کو وفات پائی اورآبائی گاؤں شاہ منصور میں آسودہ خاک ہوئے۔

 وہ عہدے جن پر تعینات رہے 
 سٹیشن ڈائریکٹرریڈیو پاکستان پشاور، جنرل منیجرایف ایم سن رائز یو ۔کے ؍پاکستان، سٹار الو مینائی وی اے، ممبر سنسر بورڈ آف پاکستان، ایگز یکٹو ممبر ڈیپارٹ منٹ آف جر نلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن پشاور یونی ورسٹی، میڈیا ایڈوائزر تھیلی سیمیا ، ایگزیکٹو پروڈیوسر اینڈ ڈائریکٹر ٹیلی فلم (تھیلی سیمیا) تکنیکی معاون برائے خیبرپختون خوا کلچر ڈائریکٹریٹ، ڈائر یکٹرکلچر خیبر پختون خوا حکومت، جنرل منیجر مارکیٹنگ اینڈ پروگرام آپریشن (ایف ایم جہلم، ایف ایم حسن ابدال) ڈائریکٹر پروگرام (ریڈیو امن مردان)

حاصل کردہ ایوارڈز
بہترین ریڈیو ڈرامہ اور فیچر فلم لکھنے پر ایوارڈ، تھیلی سیمیا پر بہترین ٹیلی فلم لکھنے اورپروڈیوس کرنے پر ایوارڈ ، تھیلی سیمیا بارے فلم پر جرنلزم ڈیپارٹ منٹ کی جانب سے ایوارڈ، نامزدگی صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی 

چند تصانیف 
آغوش کوثر (اردو) اکسپلورنگ میلوڈی (انگریزی ) سپین تمبل (پشتو زبان کی سوسالہ پرانی موسیقی) اللہ اکبر (حضرت بلال رضہ اللہ عنہ سے تصوراتی انٹرویو)

اردو، پنجابی اور پشتو میں تخلیق کردہ فلمیںاورڈرامے 
اووربل (پشتو،گولڈن جوبلی) راکھی (پنجابی، گولڈن جوبلی) آب حیات (اردو، گولڈن جوبلی)
سوگند، مخرور، سورہ، لوپٹہ، دوینو جام، آشنا، وگمے، انکار، اقرار، شعلے، مجاہد، راشہ ماما زوئے دے لیونے دے
ریڈیو ڈرامے: چغہ، شگے سرے شوے، دعا ،لاج ، تورہ، لوگی،تندر،سپرلے، نیمہ شپہ، سازسمندر، پختون
ٹی وی ڈرامے: سائے(اردو) قیمتی پتھر (اردو) اپاہج(اردو)چناروں کی آگ ،شپول،خیر پہ خیر، زہ آزادیم، تورے خاورے، تورہ، سادر، داغونہ، اوبہ خور،لیونے، وادہ وغیرہ

Load Next Story