اپنی قدرتی اور تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے نکھارا جائے؟
کچھ کتابیں ہمیں صرف خواب دیکھنے پر مجبور کرتی ہیں، جب کہ کچھ کتابیں خوابوں کی تکمیل کے لیے متحرک کرتی ہیں۔ عہدِحاضر میں، ایڈم گرانٹ میرے پسندیدہ مصنف اور ماہرِنفسیات میں سے ہیں، جو اپنے منفرد اسلوب اور کہانی سنانے کے فن کی بدولت ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ نفسیات اور سیلف ہیلپ کے میدان میں، ایڈم گرانٹ کا شمار صف اول کے مصنفین میں ہوتا ہے۔
ان کی کتاب ’’Hidden Potential ‘‘ اکتوبر 2023 میں شائع ہوئی، جسے میں نے جنوری 2024 میں خریدا اور پڑھا۔ کتاب کے مطالعے کے بعد، میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے اہم نکات کو مضمون کی شکل میں آپ کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ یہ ایڈم گرانٹ کی آٹھویں کتاب ہے، جو 350 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب سیلف ہیلپ لٹریچر میں ایک شان دار اضافہ ہے بلکہ یوں کہیے کہ ایک نایاب تصنیف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا بنیادی متن 250 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ اس کے ساتھ تقریباً 100 صفحات پر مشتمل حوالہ جات اور نوٹس بھی شامل ہیں، جو اس کی تحقیق کو مستند بناتے ہیں۔
کچھ مصنف کے بارے میں
ایڈم گرانٹ، وارٹن یونیورسٹی میں تنظیمی نفسیات کے ماہر ہیں، جہاں وہ مسلسل سات برس تک اعلیٰ ترین درجہ حاصل کرنے والے پروفیسر رہے ہیں۔ ان کی کتب کے لاکھوں نسخے فروخت ہوچکے ہیں، ان کے TED Talks کو 30 ملین سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے، اور وہ مقبول پوڈکاسٹ Re:Thinking کے میزبان بھی ہیں۔ ایڈم گرانٹ کی تحقیق، جو محرک (Motivation) اور مقصدیت (Meaning) کے گرد گھومتی ہے، نے لاکھوں لوگوں کو اپنے اہداف حاصل کرنے اور دوسروں کی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کے قابل بنایا ہے۔
ان کا وائرل مضمون Languishing نیویارک ٹائمز میں 2021 کا سب سے زیادہ پڑھا اور محفوظ کیا جانے والا مضمون ثابت ہوا۔ وہ دُنیا کے دس بااثر ترین مینجمنٹ تھنکرز میں شامل کیے گئے ہیں اور چالیس سال سے کم عمر’’ Fortune 40 ‘‘ میں ان کا نام آ چکا ہے۔ انہیں امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن اور نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے تحقیقی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے بی اے اور یونیورسٹی آف مشی گن سے پی ایچ ڈی حاصل کی ہے، اور وہ جونیئر اولمپک اسپرنگ بورڈ ڈائیور بھی رہ چکے ہیں۔ وہ امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔
کتاب کا مرکزی خیال
کتاب ’’پوشیدہ صلاحیتیں‘‘ تین حصوں پر مشتمل ہے اور اس کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ عظیم کامیابیاں صرف غیرمعمولی ذہانت یا پیدائشی صلاحیت کا نتیجہ نہیں ہوتیں ہیں، بلکہ ہر شخص ان کام یابیوں کو حاصل کرسکتا ہے۔ یہ کتاب تین اہم نکات، ابواب پر مبنی خاکہ پیش کرتی ہے۔
1: کردارسازی کی مہارتیں پیدا کرنا۔
2: طویل مدتی حوصلہ افزائی کو برقرار رکھنا۔
3: ایسے مواقع کا نظام تیار کرنا جو ترقی، سیکھنے اور بلندی کی راہیں کھولیں۔
اس کتاب میں ایڈم گرانٹ بتاتے ہیں کہ قدرت ٹیلنٹ کے لحاظ سے انصاف کرتی ہے جب کہ انسان امتیاز کرتے ہیں۔ انسان کو اپنے فیصلوں پر اختیار حاصل ہے نتائج پر نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح پتھر کو ٹھوکر مارنے کا اختیار انسان کے پاس ہے جب کہ اس کی سمت کا تعین کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ایڈم گرانٹ کا کہنا ہے کہ صلاحیتیں، ہنر اور خوداعتمادی ہم سب کے پاس بطور پوشیدہ صلاحیت موجود ہوتا ہے۔ یہ کتاب ان صلاحیتوں کی تلاش کرنے اور ان کو نکھارنے کے بارے میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب کی زندگیوں میں اہم نقطۂ آغاز نہیں، بلکہ سفر کا اختتام ہے۔ اس لیے یہ کتاب مواقع اور موٹیویشن سے بڑھ کر اپنے مقصد کے حصول کی افادیت کوبیان کرتی ہے۔
ایڈم گرانٹ کے مطابق ابتدائی تعلیم انسانی زندگی کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ آپ ابتداء میں کن اساتذہ سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کام یابی کے لیے سرگرمی اہم نہیں بلکہ سبق اہم ہوتا ہے۔ انسان کا اصل امتحان اس کا اپنا ہی یقین ہوتا ہے۔ آپ کے کردار کا اصل پتا بلندی پر پہنچنے پر نہیں، بلکہ آپ وہاں سے کتنی دور پہنچے ہیں جہاں سے آپ نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ سب سے اہم کام یابی ہے۔
بڑی منزل بڑی قربانی
اس لیے بڑی منزل کے حصول کے لیے قربانیاں بھی بڑی دینی پڑتی ہیں۔ اس کتاب میں مختلف ریسرچز کے ذریعے یہ بیان کیا گیا ہے کہ بڑے کھلاڑی اور عظیم لوگ قدرتی طور پر عظیم پیدا نہیں ہوتے، ہم سب کو صلاحیتوں سے زیادہ خوداعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈم گرانٹ کہتے ہیں کہ میرا مقصد اس کتاب میں بتانا ہے کہ ہم سب عظیم کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ بطور ماہرنفسیات میں ان نکات پر توجہ دیتا ہوں جو ہمارے محدود نظریات کو توڑ کر ہمیں اپنے حقیقی ہنر سے روشناس کرواتے ہیں۔
ماہرنفسیات اور سائنس دانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں 120 کھلاڑیوں، موسیقاروں اور سائنس دانوں کے طویل انٹرویو کیے گئے جن میں ان کے والدین، اساتذہ اور کوچز سے پوچھا گیا، تو زیادہ تر نے کہا کہ ابتدا میں وہ لوگ عام انسان ہی تھے۔ تحقیق سے یہ بات بھی پتا چلی کہ دُنیا کے بہترین مجسمہ سازوں میں سے ایک بھی بچپن میں بہترین آرٹسٹ نہیں تھا۔ یہ تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہم سب کا نقطۂ آغاز اہم نہیں ہوتا ہے بلکہ ہم کس طرح سے اپنے سفر سے منزل کی جانب بڑھتے ہیں، یہ اہم ہے۔
ایڈم گرانٹ اس کتاب میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کی کامیابی کے سفر کی ابتداء کو نہیں انتہا کو دیکھیں۔ مجھے یہاں معروف پاکستانی ڈاکٹر شیر شاہ، یاد آگئے جنہوں نے مجھے ایک انٹرویو میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’کام یاب کون ہے اور کون ناکام؟ اس کا فیصلہ ہمارے مرنے کے بعد ہی ہوگا۔ اس سے قبل صرف سفر ہے۔‘‘
کام یابی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ آپ نے سفر کا آغاز کہاں سے کیا تھا، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے سفر کے بعد کتنا فاصلہ طے کیا ہے۔ آپ اپنے نقطۂ آغاز سے کتنی دور تک منزل پر پہنچے ہیں۔ بہت سارے کام یاب لوگ صلاحیتوں کے ماحول کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ صلاحیتوں کے ماحول میں پروان چڑھے ہوتے ہیں۔
یہ کتاب بڑے خوابوں کے بارے میں نہیں بلکہ بڑے خوابوں کو حاصل کرنے کے بارے میں ہے۔ یہ انسان سے سوال کرتی ہے، کہ تم نے کیا کمایا، کیا بنایا، اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ بلکہ تم کیا بن گئے ہو، تم نے کیا حاصل کیا ہے۔ تمہارا اصل سرمایہ تمہارا سکل سیٹ اور مائنڈ سیٹ ہے۔ اس میں ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ کردار خواہشات کا نہیں بلکہ صلاحیتوں کا مجموعہ ہے۔ کام یاب لوگوں کی زندگی کا نچوڑ ڈسپلن میں پنہاں ہوتا ہے۔
کردار اہم ہے ٹیلنٹ اہم نہیں
ایڈم گرانٹ یہ واضح کرتے ہیں کہ کام یاب لوگوں کی زندگی میں والدین، اساتذہ اور کوچز کا کردار شٹرنگ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ایک مخصوص وقت کے لیے ہماری نگہداشت اور حفاظت کرتے ہیں، تاکہ اس کے بعد ہم خود اپنے بل بوتے پر، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ جب لوگوں کو راستہ نظر نہیں آتا ہے تو وہ خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں منزل کی جانب بڑھنے کے لیے راستہ دکھانے کی ضرورت ہے۔
جب انسان کے سامنے جیت کا راستہ ہو، تو وہ سیکھنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ ہم سب خوش نصیب نہیں ہیں کہ ہمیں ایسے اساتذہ اور ماحول ملے یا ایسے حالات، لوگ اور مواقع ملیں جو ہمیں ہماری حقیقی صلاحیتوں سے متعارف کروا سکیں۔ اس لیے میں نے یہ کتاب لکھی ہے کہ ہم سب اپنی حقیقی صلاحیتوں سے متعارف ہوں اور انہیں بہتر بنا کر کامیابی اور عظمت کے مقام کو پہنچیں۔
ایڈم گرانٹ اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں، اُن چیزوں میں ترقی کی جنہیں وہ سمجھتے تھے کہ وہ اس میں کم زور ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کرتے ہیں کہ اگر میں اپنے ابتدائی بنیادوں پر جج کیا جاتا تو آج میں یہاں نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا کردار تمہارے اختیار میں ہے اس لیے اپنی سافٹ اسکلز کو بہتر بنائیں۔
کامل نہیں بہترین بنیں
ہمارا مقصد کامل بننا نہیں بلکہ بہترین بنانا ہونا چاہیے، جب کوئی مجھے سے یہ کہتا ہے کہ میرا دن اچھا نہیں گزار، تو میں اُس سے دو سوال پوچھتا ہوں، کیا تم نے خود کو بہتر بنایا؟ یا کسی دوسرے کو بہتر بننے میں معاونت کی؟ اگر ایک بھی جوا ب ہاں میں ہے تو تمہارا دن برُا نہیں بہت اچھا تھا۔ (صفحہ72) ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں، اُن پر ماتم کرکے خود کو سز انہیں دینی چاہیے، کیوںکہ لوگ ہمیں ہماری بہترین پرفارمنس سے جانچتے ہیں، کم زور لمحوں سے نہیں، اس لیے ہمیں بھی خود کو اتنی لچک دینی چاہیے۔ کام یابی یہ نہیں کہ ہم نے کتنی مہارت اور کاملیت حاصل کرلی ہے بلکہ اس میں ہے کہ ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا ہے۔
سفر جاری رہنا چاہیے
کئی تحقیقات سے یہ پتا چلتا ہے کہ انسان کو اپنی کامیابی اور کارکردگی کے معیار کو جانچنے کے لیے لوگوں کی رائے اور نظریات کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، ہاں یہ رائے بہتری کے لیے ہو تو درست، ورنہ یہ انسان میں مایوسی، دباؤ اور ذہنی سستی پیدا کرتی ہے۔ کتاب میں بے شمار کام یاب کہانیاں اور لوگوں کی داستانیں، تجزیے، مثالیں، تجربات ، واقعات اور حکایات شامل ہیں، کئی اہم تصویریں اور گراف بھی اس کے اہم نکات کو بڑی عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔ میں اس کتاب کی کہانیوں، کرداروں اور واقعات اور اہم اسباق کو اس مضمون میں شامل نہیں کرسکتا ہوں، اس مضمون کا مقصد کتاب کا تعارف اور مرکزی خیال وخلاصہ پیش کرنا تھا۔
بلاشبہہ یہ بہترین کتاب ہے جس کا مطالعہ زندگی میں کچھ منفرد کرنے والے اور اپنے خوابوں کی حقیقی تعبیر کرنے والے لوگوں کو ضرور کرنا چاہیے۔
اس کتاب کے اختتام پر ایڈم گرانٹ عملی اقدامات کے 40 نکات پیش کرتے ہیں جو اپنی طرز کے سنہری اُصول اور کتاب کا خاکہ بیان کرتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں ہی وہ اپنی کتاب کو مکمل کرنے والی طویل ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بیسٹ سیلر مصنف کی کتاب صرف فرد واحد کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھرپور ٹیم کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ میں اگر اس کتاب کو مختصراً بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ انسان اپنی حقیقی منزل کا تعین خود ہی کرتا ہے جب کہ کام یابی کے لیے اُسے بے شمار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ صرف ذہین اور فطین لوگ ہی نہیں بلکہ ہر انسان عظیم کام یابیاں حاصل کرسکتا ہے، بشرطیکہ وہ تین نکاتی فریم ورک کو اپنائے جو اس کتاب کا مرکزی محور ہے۔ کردارسازی کی مہارتیں پیدا کرنا، طویل مدتی حوصلہ قائم رکھنا، اور ایسے مواقع کا نظام بنانا جو ہر فرد کو سیکھنے، بڑھنے اور اپنی بلند ترین صلاحیتوں تک پہنچنے کا موقع دے۔ ’’آپ کی اصل صلاحیت کا پیمانہ وہ چوٹی نہیں جو آپ نے سر کی ہے، بلکہ وہ فاصلہ ہے جو آپ نے وہاں تک پہنچنے کے لیے طے کیا ہے۔‘‘ (صفحہ 18)
کامیابی کی نئی تعریف
’’کارکردگی کی سب سے بامعنی شکل ترقی ہے۔ اصل قابلیت کا معیار وہ چوٹی نہیں جس تک آپ پہنچے ہیں، بلکہ وہ فاصلہ ہے جو آپ نے طے کیا ہے۔ اور وہ سفر جو آپ نے دوسروں کو طے کرنے میں ان کی معاونت کی ہے۔ (صفحہ232)